”شیوخ الحدیث کانفرنس“ میں شریک دو سو شیوخ الحدیث والقرآن ،مفتیان کرام اورجید علماء نے خود کش حملوں کو حرام قرار دیدیا،تحریکِ طالبان پاکستان، القاعدہ، داعش، بوکو حرام، الشباب اور اُن جیسی دوسری نام نہاد جہادی تنظیموں کا فلسفہ جہاد گمراہ کن، طرزِ عمل غیر اسلامی اور فہم اسلام ناقص اور جہالت پر مبنی ہے‘ مشترکہ اعلامیہ

پیر 18 مئی 2015 06:52

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔18 مئی۔2015ء) تنظیم اتحادِ امت کے زیر اہتمام منعقدہ” شیوخ الحدیث کانفرنس“میں شریک دو سو شیوخ الحدیث والقرآن ،مفتیان کرام اورجید علماء نے اپنے اجتماعی شرعی اعلامیہ میں خود کش حملوں کو حرام قرار دے دیا ۔اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ تحریکِ طالبان پاکستان، القاعدہ، داعش، بوکو حرام، الشباب اور اُن جیسی دوسری نام نہاد جہادی تنظیموں کا فلسفہ جہاد گمراہ کن، طرزِ عمل غیر اسلامی اور فہم اسلام ناقص اور جہالت پر مبنی ہے۔

اِن تنظیموں کا طریقہٴ جہاد اسلامی جہاد کی شرائط کے منافی ہے۔فرقہ وارانہ قتل و غارت میں ملوث عناصر فساد فی الارض کے مجرم ہیں۔ اسلام فرقے کے اختلاف کی بنیاد پر کسی کو قتل کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔اسلامی ریاست کے باغیوں اور غداروں کو کچلنا اسلامی حکومت پر لازم ہے۔

(جاری ہے)

دہشت گردی کے خاتمے کی جنگ میں جاں بحق ہونے والے فوجی، پولیس اہل کار اور دوسرے افراد شہید اور قوم کے حقیقی ہیرو ہیں جبکہ پاک فوج اور سیکورٹی فورسز کے خلاف لڑتے ہوئے مرنے والوں کو شہید قرار نہیں دیا جا سکتا۔

پاکستانی طالبان اور داعش عہدِ حاضر کے خوارج ہیں۔خوارج دینِ اسلام کے باغی ہیں۔پولیو مہم کی مخالفت کرنے والے گمراہ اور خواتین ہیلتھ ورکرز کو قتل کرنے والے بدترین مجرم ہیں۔غیر مسلم اقلیتوں کی عبادت گاہوں پر حملے بدترین گناہ اور مجرمانہ فعل ہے۔ اسلام نے اسلامی ریاست کے لیے غیر مسلموں کا تحفظ لازم قرار دیا ہے۔تنظیم اتحاد امت پاکستان کے زیر اہتمام شاہ جہاں ہوٹل میں منعقد ہونیو الی شیوخ الحدیث کانفرنس کی صدارت علامہ مفتی محمد خان قادری نے کی ۔

کانفرنس کے آخر میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین تنظیم اتحاد امت پاکستان محمدضیاء الحق نقشبندی نے شرعی اعلامیہ پڑھا ۔کانفرنس میں فیصلہ کیا گیا کہ دہشت گردی، انتہا پسندی اور فرقہ واریت کے خلاف جمعہ 22/ مئی کو ملک گیر ”یومِ امن و محبت“ منایا جائے گا اور ملک بھر میں اہلِ سنت کی چار لاکھ سے زائد مساجد میں قتلِ ناحق کے خلاف خطباتِ جمعہ دئیے جائیں گے۔

طالبان اور داعش جیسی انتہا پسند اور دہشت گرد تنظیموں کے فکری توڑ کے لیے شیوخ الحدیث والقرآن پر مشتمل ”علماء بورڈ“ قائم کیا جائے گا۔”دہشت گردی مٹاؤ ملک بچاؤ مہم“ چلائی جائے گی۔شیوخ الحدیث کانفرنس کے ”شرعی اعلامیہ“ پر دنیا کے مختلف ممالک کے مفتیانِ کرام کے تائیدی دستخط کروا کر اِس اعلامیہ کی دنیا بھر میں تشہیر کی جائے گی۔

دہشت گردوں کے خلاف جرأت مندانہ جنگ لڑنے والے عظیم راہنما ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی# شہید کی برسی کے موقع پر 12 جون کو لاہور میں ”شہیدِ پاکستان سیمینار“ منعقد کیا جائے گا۔ محمد ضیاء الحق نقشبندی نے شرعی اعلامیہ پڑھتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں بسنے والے ہر شہری کی جان و مال کا تحفظ حکومت کا آئینی فریضہ ہے لیکن حکومت امن و امان کے قیام میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔

حکومت نے دہشت گردی کے خاتمے کا سارا بوجھ فوج پر ڈال رکھا ہے اور سول حکومت اپنے حصے کا کردار ادا کرنے میں نا اہل ثابت ہوئی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں دہشت گردی کے خلاف صرف زبانی جمع خرچ کر رہی ہیں۔ اعتقادی، فکری اور سیاسی اختلافات کی بنیاد پر مخالفین کی جان و مال پر حملے کرنا غیر اسلامی غیر انسانی اور غیر اخلاقی عمل ہے۔شریعت کے نفاذ کے لیے بندوق اٹھانا درست نہیں ہے۔

نفاذِ شریعت کے لیے آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر پُرامن جدوجہد ہونی چاہیے۔قتل ناحق شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے۔ اسلام قتلِ ناحق کا سب سے بڑا مخالف اور انسانی جان کی حرمت کا سب سے بڑا حامی ہے۔خود کش حملوں کے المناک واقعات کے جواز پیش کرکے دہشت گردوں کی بالواسطہ حمایت کرنے والے بھی برابر کے مجرم ہیں۔کشمیر میں آزادی کی جنگ لڑنے والے مجاہدین، فلسطین میں جاری تحریکِ آزادی اور افغانستان و عراق میں جارح ملک امریکہ کے خلاف جاری جہاد کی تائید و حمایت کا اعلان کرتے ہیں۔

شرعی اعلامیہ میں مزید کہا گیا ہے حکومت تمام مکاتبِ فکر کے جیّد علماء اور مفتیوں پر مشتمل ”علماء بورڈ“ قائم کرے اور تکفیری فتویٰ صرف اِس بورڈ کی طرف سے جاری ہو۔پاکستان اور دوسرے تمام اسلامی ممالک امریکہ نواز پالیسیاں ختم کریں کیونکہ امریکہ اسلام کا سب سے بڑا دشمن ہے۔عرب اور خلیجی ممالک آپس میں لڑنے کی بجائے قبلہٴ اوّل اور فلسطین کی آزادی کے لیے متحد ہو جائیں۔

سعودی حکومت حجازِ مقدس کو امریکی فوج کے ناپاک وجود سے پاک کرے اور امریکی فوج کو سعودی عرب سے نکالا جائے کیونکہ سعودی عرب میں امریکی فوجیوں کی موجودگی سے حرمین شریفین کا تقدس پامال ہو رہا ہے۔یمن بحران پر فریق بننے کی بجائے پارلیمنٹ کی قرارداد پر عمل کرتے ہوئے ثالث کا کردار ادا کیا جائے۔ یمن میں پاکستانی فوج کسی صورت نہ بھیجی جائے۔

مسلم ممالک، او آئی سی اور اقوامِ متحدہ یمن میں مستقل جنگ بندی کے لیے کوششیں تیز کریں۔شرعی اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جاری ”آپریشن ضربِ عضب“ کی بھرپور حمایت کرتے ہیں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج کے ساتھ ہیں۔ پاک فوج کی بے مثال قربانیاں قابلِ قدر اور لائقِ تحسین ہیں۔ خود کش حملے کرنے اور کروانے والے جہنمی ہیں کیونکہ خود کش حملے اسلام میں حرام اور ناجائز ہیں۔

خود کش بمبار قتل اور خود کشی جیسے دو حرام امور کے مرتکب ہو رہے ہیں۔حکومتِ وقت پر لازم ہے کہ وہ ریاست کے باغیوں کے خلاف جنگ کرے۔ پاکستان کے وزیراعظم پاکستان کی سلامتی کے دشمن ہر طرح کے مذہبی و غیر مذہبی دہشت گردوں کے خلاف قومی جہاد کا اعلان کریں اور پوری قوم متحد ہو کر پاکستان بچانے کے اِس جہاد میں شریک ہو۔انتہا پسندانہ اور گمراہ کن نظریات کے باعث بوائز اور گرلز سکولوں کو غیر اسلامی تعلیم کے مراکز قرار دے کر گرانا اور اساتذہ کو قتل کرنا غیر اسلامی اور غیر انسانی فعل ہے۔

دہشت گردی کی ایک بڑی وجہ غربت، افلاس، بے روزگاری مہنگائی اور نا انصافی ہے۔ حکومت عوام کو معاشی، سماجی اور عدالتی انصاف کی فراہمی یقینی بنائے۔ اسلام نے انسانی جان کی حرمت کو کعبہ کی حرمت سے بھی اہم قرار دیا ہے۔ مسلم نوجوانوں کو خونریزی کی ترغیب دینے والے دنیا و آخرت میں شدید عذابِ الٰہی کے حق دار ہیں۔ اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنے والے اسلام کا خوبصورت چہرہ مسخ کر رہے ہیں اِس لیے دنیا بھر کے علمائے حق جہاد کے نام پر فساد کرنے والوں کے فکری توڑ کے لیے میدان میں آئیں اور حقیقی اسلام دنیا کے سامنے پیش کریں۔

آپریشن ضربِ عضب کا دائرہ ملک بھر میں پھیلایا جائے اور دہشت گردوں کے حامیوں، مددگاروں، سہولت کاروں اور سرپرستوں کو بھی پکڑا جائے۔ دہشت گردی میں ملوث مدارس کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے۔ دہشت گردوں کے بیرونی رابطے اور فنڈنگ روکی جائے۔ ملک کو اسلحہ سے پاک کیا جائے۔حکومت ملک میں شرعی نظام عملاً نافذ کرے سودی نظام ختم کرکے اسلامی نظامِ معیشت اپنایا جائے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کی رفتار تیز کی جائے۔

را کے نیٹ ورک کے صفایا کے لیے ملک گیر آپریشن کیا جائے۔ پاکستان میں بھارتی مداخلت کے ثبوت عالمی برادری کے سامنے پیش کیے جائیں۔دہشت گردوں، مجرموں اور قاتلوں کو پھانسیاں دینا اسلامی شریعت کے عین مطابق ہے۔ حکومت یورپی یونین اور مغربی دباؤ کی پرواہ کیے بغیر دہشت گردوں اور قاتلوں کو پھانسیاں دینے کا سلسلہ تیز کرے۔ شیوخ الحدیث کانفرنس میں شرکت کرنے والوں میں ڈاکٹر راغب حسین نعیمی، مفتی محمد صدیق ہزاروی ،جسٹس (ر) میاں نذیر اختر،علامہ خلیل الرحمن قادری صاحبزادہ رضائے مصطفےٰ نقشبندی،مفتی غلام حسن قادری ،علامہ نعیم جاوید نوری،محمد نواز کھرل ،مفتی محمد حسیب قادری،علامہ ذوالفقار مصطفےٰ ہاشمی،مفتی محمد عمران حنفی،علامہ نور الٰہی انور،مفتی تصدق حسین،علامہ نصیر احمد نورانی،علامہ محمد اعظم نعیمی،مفتی انتخاب احمد نوری،علامہ محمد قاسم علوی،مولانا مجاہد عبدالرسول،مفتی مسعود الرحمن علامہ معاذ المصطفےٰ قادری،مولانا قاری عبدالحمید نقشبندی،علامہ میاں مطلوب احمد سیفی، مفتی ابوبکر اعوان، مولانا پیر محمد شفیق کیلانی،مولانا احسان الحق صدیقی،مفتی قیصر شہزاد نعیمی،مفتی لیاقت علی صدیقی ،علامہ قاری محمد طاہر شریف،علامہ عظیم صلاح الدین قادری،مفتی میاں غوث علی قصوری،علامہ محمد شفیع قادری، مفتی محمد عارف نقشبندی، مفتی اللہ بخش محمدی سیفی،مولانا محمد یٰسین محمدی سیفی،مفتی فیصل ندیم، غلام مصطفےٰ چوہدری ایڈووکیٹ،مولانا محمد سرور فریدی، مولانا قاری شفیق اللہ،علامہ ڈاکٹر محمد عمران انور نظامی، مفتی محمد ندیم قمر،علامہ فدا حسین قادری،مولانا حبیب الرحمن مدنی، مولانا حافظ محمد عثمان نوشاہی، مولانا محمد وقاص سلطانی،مولانا محمد ذیشان صابری،مولانا سیّد شہباز احمد شاہ، مولانا محمد آصف نعمانی، مولانا محمد افضل قمر سیالوی،مولانا محمد اختر حیات سیالوی، علامہ محمد ارشد نعیمی،مولانا سیّد محمد مقبول شیرازی،علامہ محمد رمضان سیفی،علامہ محمد رضا کونین، علامہ محمود اکرم رضوی، مفتی نعیم احمد صابری، علامہ محمد شریف القادری اور دیگر شامل تھے ۔

کانفرنس میں منظور کی گئی قراردادوں میں مطالبہ کیا گیا کہ اقتصادی راہ داری منصوبے کو کالا باغ ڈیم کی طرح متنازعہ بننے سے بچایا جائے اور حکومت اِس منصوبے پر تمام صوبوں کے تحفظات دور کرے۔،انسدادِ توہین رسالت کے لیے عالمی سطح پر موٴثر قانون سازی کے لیے حکومتِ پاکستان اور دوسرے مسلم ممالک فعال کردار ادا کریں اِس سلسلہ میں عالمی اسلامی سربراہی کانفرنس طلب کی جائے۔

،گرفتار دہشت گردوں کو سپیڈی ٹرائل کے ذریعے کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ایمپلی فائر آرڈنینس کی آڑ میں پُرامن اور محب وطن اہلِ سنت راہنماؤں اور علماء پر قائم کیے گئے جھوٹے مقدمات واپس لیے جائیں۔ حکومت اذان اور درود کی آواز کو محدود کرنے سے باز رہے۔ غازی ملک ممتاز حسین قادری مجرم نہیں عظیم عاشقِ رسول ہے۔ ممتاز قادری کو ہائی کورٹ کی طرف سے سنائی گئی سزائے موت غیر شرعی ہے کیونکہ ممتاز قادری نے سلمان تاثیر کو صرف اور صرف گستاخیٴ رسول پر قتل کیا تھا اِس لیے ممتاز قادری کی سزائے موت ختم کرکے انہیں باعزت رہا کیا جائے، اور ان کے مقدمے کا فیصلہ شرعی اور اسلامی اصولوں کی بنیاد پر کیا جائے۔

شاتم رسول کو قتل کرنا ہرگز دہشت گردی نہیں ہے۔ بلکہ اصل دہشت گردی تو گستاخی رسول ہے۔نام بدل کر کام کرنے والی کالعدم تنظیموں کے نیٹ ورک کا خاتمہ کیا جائے اور کالعدم دہشت گرد تنظیموں کے قائدین کی جائیدادیں ضبط کی جائیں۔کراچی میں جاری آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے اور کراچی کو را کے ایجنٹوں، بھتہ خوروں، لینڈ مافیا اور ڈرگ مافیا سے پاک کیا جائے۔

نیکٹا کو فعال اور پولیس کو سیاست سے پاک کیا جائے۔حکومت تمام سرکاری اداروں اور بالخصوص کالجز اور یونیورسٹیوں کو دہشت گردوں کے حامیوں، مخبروں اور ہمدردوں سے پاک کرے۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد راغب حسین نعیمی نے کہا کہ نام نہاد جہادی تنظیموں کی تخریبی اور فسادی کارروائیاں اسلام کی بدنامی، عالمِ اسلام کی کمزوری اور ہزاروں گھرانوں کی بربادی کا باعث بن رہی ہیں اور ان کے خونی کھیل سے اسلام کے دشمن امریکہ کا کام آسان ہو رہا ہے۔

نظریات کا مقابلہ طاقت نہیں نظریات سے ہونا چاہیے۔مفتی محمد خان قادری نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ اسلامی ریاست کے باغیوں کی سرکوبی کے جہاد میں حکومت کے ساتھ تعاون ہر شہری پر فرض ہے۔خارجی ٹولہ اپنے ہم خیال افراد کے علاوہ سب کو واجب القتل سمجھتاہے۔ خارجی نظریات و افکار کا حقیقی اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ تمام آئمہ کرام اِس بات پر متفق ہیں کہ جب کوئی مسلح گروہ کسی خود ساختہ تاویل کی بنیاد پر مسلم حکومت کی رِٹ سے نکل جائے تو اِس کے خلاف جنگ کرنا مباح ہے ۔

جسٹس (ر) نذیر اختر نے کہا کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو نہ صرف امن و محبت، تحمل و برداشت، بقائے باہمی اور رواداری کی تعلیم دیتا ہے بلکہ ایک دوسرے کے عقائد و نظریات اور مکتب و مشرب کا احترام بھی سکھاتا ہے ۔پاکستان کا آئین حکومت کو نفاذِ شریعت کا پابندی بناتا ہے۔ اِس سلسلہ میں حکومت شرعی نظام نافذ کرکے اپنی آئینی و اسلامی ذمہ داری پوری کرے۔