ہار...ہر بار...لگاتار!!

Har .. Har Bar Lagatar

ورلڈ کپ میں ”نارمل“ کرکٹ کھیل کر ہی بھارت کیخلاف شکستوں کے بھوت سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے

Farhan Nisar فرحان نثار منگل 22 مارچ 2016

Har .. Har Bar Lagatar

بھارتی کپتان مہندرا سنگھ دھونی کا یہ بیان ہمارے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہونے کیساتھ ساتھ حقیقت پر بھی مبنی ہے کہ ورلڈ کپ مقابلوں میں پاکستان کی بھارت سے ہارنے کی روایت کا خاتمہ ایک نہ ایک ضرور ہوجائے گامگر شاید دس سال بعد یا بیس سال یا پھر پچاس سال بعد! بھارت کیخلاف ورلڈ کپ میں کھیلتے ہوئے پاکستانی ٹیم ہر مرتبہ دباوٴ کا شکار ہوجاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ دیگر مقابلوں میں کارنامے دکھانے والے پاکستانی شیر ورلڈ کپ میں بھارت کے سامنے بھیگی بلی بن جاتے ہیں جنہیں قابو کرنا بھارتیوں کیلئے کسی بھی طور پر مشکل نہیں رہتا۔
ورلڈ کپ میں پاک بھارت مقابلوں کی ابتدا 1992ء میں ہوئی مگر چار برس بعد بنگلور میں کھیلے جانے والا کواٹر فائنل صحیح معنوں میں اعصاب اور دباوٴ کی جنگ ثابت ہوا جس میں پاکستانی ٹیم کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور پھر یہ سلسلہ چل نکلا جو 2016ء میں بھی ختم نہیں ہوسکا۔

(جاری ہے)

ان 24برسوں میں عمران خان سے لے کر شاہد آفریدی تک ہر بڑے کھلاڑی نے ورلڈ کپ میں بھارت کا سامنا کیا مگر کوئی بھی کھلاڑی ایسی کارکردگی نہ دکھا سکا جو شکستوں کے اس سیلاب پر بند باندھ سکتی ۔نتیجہ یہ نکلا کہ ربع صدی میں کرکٹ کا کھیل مکمل طور پر تبدیل ہوگیامگر ورلڈ کپ میں پاک بھارت مقابلوں کے نتائج میں تبدیلی نہ آسکی۔
بھارت کے ہاتھوں 24برسوں میں 11شکستوں کو میں محض اتفاق یا کھیل کا حصہ سمجھ کر قبول کرلیتا ہوں کہ کھیل میں ہار جیت تو ہوتی ہے مگر یہ بات قابل قبول نہیں ہے کہ بھارت کا سامنا کرتے ہوئے پاکستانی ٹیم دباوٴ میں آکر ایسے اوٹ پٹانگ فیصلے کرے جو شکست کا سبب بن جائیں۔ 1996ء میں پاکستانی ٹیم جیت کی جانب گامزن تھی کہ کپتان عامر سہیل نے وینکٹیش پرساد کو چوکے رسید کرنے کے بعد باوٴنڈری کی جانب اشارہ کیا اور پھر اگلی گیند پر مزید مہم جوئی دکھانے کی کوشش میں وکٹ گنوا دی۔20سال بعد بھی بھارت کیخلاف میچ میں پاکستانی کپتان شاہد آفریدی نے غلط ٹیم کھلانے کا فیصلہ کیا اور پھر اِن فارم بیٹسمین محمد حفیظ کی بجائے حیرت انگیز طور پر خود نمبر تین پر بیٹنگ کرنے کا فیصلہ کرکے ٹیم کو مزید مشکلات سے دوچار کردیا۔
میگا ایونٹس میں بھارت کیخلاف شکستوں کی وجہ یہ نہیں کہ پاکستانی کھلاڑی باصلاحیت نہیں ہیں یا وہ جیت کا ہنر بھول چکے ہیں بلکہ روایتی حریف کیخلاف پاکستانی کھلاڑی ایک اَن دیکھے دباوٴ کا شکار ہوکر شکست کو اپنا مقدر بنا لیتے ہیں جس کے باعث ہار کا سلسلہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ عماد وسیم کی موجودگی سے پاکستانی ٹیم اس میچ میں کامیابی حاصل کرسکتی تھی تو مجھے ان کی معصومیت پر کوئی شک باقی نہیں رہتا کیونکہ عماد وسیم بائیں ہاتھ کا عام سا اسپنر ہے جبکہ محمد نواز کی موجودگی بھی فرق نہیں ڈال سکتی تھی۔اگر سعید اجمل جیسی کلاس کے اسپنر کو باہر بٹھایا جاتا تو شکست پر یہ بہانہ بنایا جاسکتا تھا مگر عماد وسیم کی موجودگی سے کچھ خاص فرق نہ پڑتا۔ بھارت کیخلاف کھیلتے ہوئے پاکستانی ٹیم کی اصل کمزوری دباوٴ میں مبتلا ہوجانا ہے جبکہ بھارتی کھلاڑی پاکستان کیساتھ مقابلے کو بھی ایک عام سا میچ سمجھتے ہوئے کھیلتے ہیں اور وہ اس میچ میں کچھ ”ایکسٹرا“ کرنے کی کوشش نہیں کرتے ۔اگر یقین نہ آئے تو ویرات کوہلی کی ایشیا کپ اور پھر ورلڈ ٹی20کی اننگز پر ایک نظر ڈال لیں۔کیا دونوں مرتبہ بھارتی ٹیم پر میچ جیتنے کا دباوٴ نہیں تھا؟کیا بھارتی اننگز میں وکٹ کی صورتحال مکمل طور پر تبدیل ہوچکی تھی؟ مگر ویرات کوہلی نے پاکستان کے عمدہ بالنگ اٹیک کا مقابلہ سمجھداری اور ذمہ داری کیساتھ کیا اور آہستہ آہستہ اپنی اننگز کی تعمیر کرتے ہوئے بھارت کو جیت کا حقدار بنادیا۔ مجھے ایک لمحے کیلئے یہ سوچ کر ہی جھرجھری آتی ہے کہ جس صورتحال میں ویرات کوہلی کو بیٹنگ کیلئے جانا پڑا اگر وہی صورتحال ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے احمد شہزاد یا عمر اکمل کو درپیش ہوتی تو وہ اس کا مقابلہ کس انداز میں کرتے!
پاکستان کی موجودہ ٹیم کے کھلاڑی تجربہ کار بھی ہیں اور فتح گر بھی ...جو اپنے کیرئیر میں کئی مرتبہ پاکستانی ٹیم کو مشکلات سے نکال چکے ہیں مگربھارت کیخلاف ورلڈ کپ میں ہونے والی شکستوں کے آسیب سے پیچھا چھڑانے کیلئے ضروری ہے کہ پاکستانی کھلاڑی تگڑے ہوکر میدان میں اتریں اور ماضی کی ناکامیوں کا خوف دل سے نکال کر صرف اور صرف اپنی” نارمل“ کرکٹ کھیلیں کیونکہ معمول کے مطابق کھیلتے ہوئے ہی پاکستانی ٹیم اس غیر معمولی ریکارڈ سے چھٹکارا حاصل کرسکتی ہے جو میگا ایونٹس کے ہر میچ میں سانپ کی آنت کی طرح لمبا ہوتا جارہا ہے!!

مزید مضامین :