دوسال 11ماہ بعد پاکستان کی ٹیسٹ میچ میں پہلی کامیابی

Pakistan Wins 2nd Test

آصف کی تباہ کن باؤلنگ کے سامنے کیویز بیٹنگ لائن اپ مکمل بے بس نظرآئی بیٹنگ اور فیلڈنگ کا شعبہ بدستور کمزور ،آصف نے ثابت کردیا کہ اگر وہ ”دوسرے چکروں“میں نہ پڑے تو اُس سے بڑا باؤلر کوئی نہیں

پیر 7 دسمبر 2009

Pakistan Wins 2nd Test
اعجازوسیم باکھری: دوسال 11ماہ سے جاری انتظار آخرکار ختم ہوہی گیا اور پاکستانی ٹیم نے ٹیسٹ میچ میں کامیابی حاصل کرکے جیت کے ٹریک پر ایک نیا سفرشروع کردیاہے۔ولنگٹن میں کھیلے گئے میچ میں پاکستان نے نیوزی لینڈ کو141رنز سے شکست دیکر نہ صرف تین ٹیسٹ میچز کی سیریز برابر کردی ہے بلکہ ٹیسٹ کرکٹ میں اپنی ناکامیوں کے سلسلے کو بھی روک دیا ہے۔پاکستان کی جیت میں بنیادی کردارفاسٹ باؤلر محمد آصف نے ادا کیا ،آصف نے میچ میں 9وکٹیں حاصل کیں اور وہ اب تک دو ٹیسٹ میچز میں17کھلاڑیوں کی آؤٹ کرکے سب سے نمایاں باؤلرہیں۔

محمد یوسف کی قیادت میں قومی ٹیم کی نیوزی لینڈ کے خلاف کامیابی ہمیشہ یادرکھی جائے گی کیونکہ جس طرح پاکستانی بیٹنگ لائن اپ مسلسل ناکام چلی آرہی ہے ان حالات میں ٹیسٹ میچ میں کامیابی کسی بڑی اچیومنٹ سے کم نہیں۔

(جاری ہے)

ولنگٹن ٹیسٹ میں پاکستان نے اپنی پہلی اننگز میں264رنز بنائے ،جواب میں محمد آصف اور دانش کنیریاکی تباہ کن بولنگ کے سامنے کیویز ٹیم صرف99رنز پرڈھیرہوگئی۔

دوسری اننگز میں پاکستان نے 239رنزبناکر کیوی ٹیم کو جیت کیلئے 405رنز کا ٹارگٹ دیا جس کے جواب میں ایک بارپھرمحمد آصف حریف ٹیم پر قہربن کرٹوٹے اوراننگزمیں پانچ وکٹیں حاصل کرکے پاکستان کو تاریخی فتح سے ہمکنار کرایا۔پاکستان کی ولنگٹن ٹیسٹ میں جنوری 2007ء کے بعد پہلی فتح ہے،آخری مرتبہ پاکستان نے شعیب اختر کی بے مثال بولنگ کارکردگی کے پیش نظرپورٹ ایلزبتھ میں جنوبی افریقہ کو ٹیسٹ میچ میں شکست دیدی تھی اس کے بعد پاکستان نے 2سال 11ماہ تک 12ٹیسٹ میچز کھیلے جن میں کامیابی قومی ٹیم سے دور رہی اور اب نیوزی لینڈ میں تین سال کا انتظار ختم ہوا۔

قومی ٹیم کے پاس اس سے پہلے بھی کئی مواقع آئے تھے جب ٹیم ٹیسٹ میچ جیتنے کی پوزیشن میں تھی لیکن آخری وقت پرہربار بیٹنگ لائن اپ دھوکہ دی گئی اور ٹیسٹ میچ کی جیت کیلئے انتظارطویل ہوتا چلا گیا۔سری لنکا کے خلاف بھی پاکستان کو جیت کیلئے موقع ملا تھا لیکن وہاں پربھی ٹاپ آرڈربلے باز آخری وقت پر ہمت ہار گئے تھے اوراسی طرح نیوزی لینڈکے خلاف پہلے ٹیسٹ میں بھی آصف اورعامر نے عمدہ بولنگ کرکے ٹیم کوجیت کیلئے سنہری موقع فراہم کیا لیکن اُسی پرانے روایتی انداز میں بیٹسمینوں نے ساری محنت پرپانی پھیردیا۔

دوسرے ٹیسٹ میں قومی ٹیم کی کامیابی کا تمام ترکریڈٹ محمد آصف اور دانش کنیریا کو جاتا ہے جبکہ محمد عامرنے بھی اہم وکٹیں حاصل کرکے حریف ٹیم کیلئے مشکلات پیدا کیں۔دوسرے ٹیسٹ میں قومی بیٹسمینوں بشمول اوپنرزنے قدرے ذمہ داری اور عمدگی سے بیٹنگ کی اور بعدمیں باؤلرز بالخصوص محمد آصف اور دانش کنیریا نے ذمہ دارانہ کھیل پیش کرتے ہوئے اپنی ٹیم کو تاریخی فتح دلائی بلکہ طویل عرصے بعد گراؤنڈ میں واپس آنے کے بعد اپنی واپسی بھی شاندار انداز میں کی۔

پاکستانی باؤلرز بالخصوص محمد آصف اوردانش کنیریا سمیت عمرگل اورمحمد عامرکو یہ کریڈٹ دینا ہوگا کہ انہوں نے خود کونیوزی لینڈ کے سرد موسم میں ایڈجسٹ کرلیا ہے اور اب سارا دارومدار اُن پرہے کیونکہ بیٹنگ لائن اپ پراعتبارنہیں کیا جاسکتا،جس طرح انہوں نے دوسرے ٹیسٹ میں ملکر ٹیم کو کامیابی دلائی ہے اب جیت کے تسلسل کو برقرار رکھنا بھی انہی کی ذمہ داری ہے کیونکہ آگے چل کرپاکستان نے آسٹریلیا کے خلاف اُن کی سرزمین اور بعد میں انگلینڈ میں آسٹریلیا کے خلاف سیریز کھیلنا ہے لہذا باؤلرز ہی پاکستانی ٹیم کی امیدوں کے محور ہیں۔

کس قدر ہماری ٹیم کی بدقسمتی ہے کہ تین میں سے صرف ایک شعبہ ایسا ہے جس پر انحصار کیا جاتا ہے اور تمام ترذمہ داری اکیلے بولنگ کے شعبے پرڈالی جاتی ہے۔ حالانکہ فیلڈنگ اور بیٹنگ کے شعبے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔اگرباؤلرز کو زیادہ مار پڑرہی ہوتو فیلڈرز عمدہ فیلڈنگ کرکے باؤلرزکی ناکامی پرپردہ ڈال سکتے ہیں اور بیٹنگ کے دوران آپ کے پاس بے شمارمواقع ہوتے ہیں کہ جتنا لمبا سکور ہوآپ اُس تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں ،جس طرح آسٹریلیا نے پہلے کھیلتے ہوئے ساؤتھ افریقہ کو جیت کیلئے 434رنز کا ہدف دیا تو افریقی بیٹسمینوں نے اپنے باؤلرز کی کی ناکامی کا ازالہ کرتے ہوئے ہدف تک رسائی ممکن بنائی۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بیٹنگ کے دوران آپ کے پاس کم بیک کے لاتعداد مواقع ہوتے ہیں اور دنیا کی تمام ٹیمیں اپنے بیٹسمینوں پرانحصار کرتی ہیں لیکن پاکستانی ٹیم کی بدقسمتی کہ وہ اُسے فیلڈنگ میں بھی کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا اور بیٹسمین تو ہراہم موقع پر شرمندہ کرتے ہیں ۔انتخاب عالم کوچنگ کی دنیا میں ایک بڑانام ہے اور انہیں چاہیے کہ وہ بیٹسمینوں کی عادات کو بدلیں اور بحرانی کیفیت میں انہیں وکٹ پر رکنے کی تمیزسکھانے کے ساتھ ساتھ سکورکرنے کی عادت ڈالیں تاکہ پاکستانی ٹیم جوکہ گزشتہ تین سال سے پانچویں اور چھٹے نمبرسے آگے نہیں آسکی عالمی رینکنگ میں نمایاں پوزیشن حاصل کرے۔

محمد آصف ایک سال کی پابندی کی سزا کاٹنے کے بعد ٹیم میں لوٹے ہیں جبکہ دانش کنیریا چونکہ صرف ٹیسٹ کرکٹ کھیلتے ہیں لہذا وہ بھی سال میں دو سے تین بار ایکشن میں نظرآتے ہیں ،ان دونوں باؤلرز نے شاندار اندازمیں واپسی کی ہے اور اپنے تجربے کے بل بوتے پر ٹیم کو کامیابی دلائی اور یہ دونوں مبارکباد کے مستحق ہیں بالخصوص میں محمد آصف کو مبارکباد دینا چاہوں گا کہ اُس نے کامیاب واپسی کی ہے اور اُس کی واپسی ٹیم کے مفاد میں ہوئی ہے اور ٹیم اُس سے فائدہ اٹھارہی ہے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ آصف عصرحاضر میں قدرتی صلاحیتوں کے حساب سے واحد باؤلر ہے جس میں ٹیلنٹ کوٹ کوٹ کربھرا ہے لیکن معذرت کے ساتھ ،آصف نے خود اپنے ٹیلنٹ کو ضائع کیااور ارد گرد کی سرگرمیوں میں ملوث ہوکر نہ صرف خود کو نقصان پہنچایا بلکہ اُس کی عدم موجودگی سے ٹیم کا بھی نقصان ہوا ہے ۔بہرحال ۔خوشی کی بات یہ ہے کہ وہ ٹیم میں واپس آگیا ہے او ر اب تک دو ٹیسٹ میچوں میں 17وکٹیں حاصل کرچکا ہے اور آصف کی اس کارکردگی سے ثابت ہوگیا ہے کہ وہ اگر ”دوسرے چکروں “میں نہ پڑے اور اپنی توجہ ”صرف کرکٹ“پرمرکوز رکھے توآج کے دورمیں اُس سے بڑا باؤلر دور دور تک نظرنہیں آتا ۔

امید ہے وہ حالات سے سبق سیکھ کر اب صرف اپنے اور اپنے ملک کیلئے کھیل پر توجہ دیگا اور پاکستان کی فتوحات میں اہم کردار ادا کریگا۔

مزید مضامین :