ثنا ء میر ، اُسامہ میراور ایک ”نان“ کرکٹر!

Sana Mir Usama Mir

ثناء میر پاکستان ویمنز کرکٹ کی اصل ”ہیروئن“ ہے جو آنے والے برسوں میں بھی ملکی ویمنز کرکٹ کی بہتری کیلئے اپنا کردار ادا کرسکتی ہے

Farhan Nisar فرحان نثار جمعہ 8 اپریل 2016

Sana Mir Usama Mir

ورلڈ ٹی20میں جب پاکستانی مینز ٹیم ناکامی کی کہانی لکھ رہی تھی تو اسی ٹورنامنٹ میں پاکستان کی ویمنز ٹیم تاریخ رقم کررہی تھی جس نے پہلے میچ میں ویسٹ انڈیز سے صرف 4رنز سے ہارنے کے بعد روایتی حریف بھارت کیخلاف اعصاب شکن معرکے میں کامایبی حاصل کی اور پھر بنگلہ دیش کو آوٴٹ کلاس کرکے سیمی فائنل تک رسائی کا خواب دیکھا جو انگلینڈ کیخلاف شکست کے بعد پورا نہیں ہوسکا مگر اس ایونٹ میں ”گرلز اِن گرین“ کی عمدہ کارکردگی کو ملک بھر میں بھرپور انداز میں سراہا گیا۔پاکستان کی ویمنز ٹیم ہر گزرتے ہوئے دن کیساتھ بہتری کی جانب گامزن ہے اور قومی ویمنز ٹیم کی یہ کارکردگی اس لیے بھی قابل ستائش ہے کیونکہ آج بھی پاکستان میں لڑکیوں کو اسپورٹس میں حصہ لینے کو اچھا نہیں سمجھا جاتا اور نامسائد حالات کے باوجود اِن لڑکیوں کا ملک کی نمائندگی کرتے ہوئے کامیابیاں سمیٹنا بہت اہم ہے ۔

(جاری ہے)

پاکستان ویمنز ٹیم کی کامیابی میں اگرچہ تمام کھلاڑیوں نے اپنا کردار ادا کیا ہے مگر اس کامیابی کی بنیاد جس کھلاڑی نے رکھی وہ اس ٹیم کی کپتان ثناء میر ہے۔
ثناء میر کی یہ خوش قسمتی ہے کہ والد کا تعلق پاک فوج سے ہونے کے باعث انہیں ملک کی مختلف کنٹومنٹس میں رہنے کا موقع ملا جہاں ”محفوظ“ ماحول میں وہ اپنے بھائی کیساتھ کرکٹ کا شوق پورا کرتی رہیں۔ 2009ء میں قومی ٹیم کی کپتان بننے والی ثناء میر نے ورلڈ ٹی20کو کپتان کی حیثیت سے اپنا آخری ٹورنامنٹ قرار دیا تھا اور اب تک وہ اپنے فیصلے قائم ہیں۔ممکن ہے کہ ثناء میر کے بعد ویمنز ٹیم میں بھی کپتانی کا ”بحران“ پیدا ہو کیونکہ 30سالہ کھلاڑی نے صفر سے اپنا سفر شروع کرتے ہوئے پاکستانی ٹیم کو دیا کی دیگر بڑی ٹیموں کے ہم پلہ لانے کی کوشش کی ہے۔ میں نے 2009ء میں ثناء میر کی رہائش گاہ پر اُن کا انٹرویو کیا تھا جب انہیں کپتان بنے چند ہفتے ہی ہوئے تھے ۔اُس وقت ثناء میر نے جن منزلوں تک رسائی کے عزم کا اظہار کیا تھا اسے انہوں نے اپنی سخت محنت کیساتھ آنے والے برسوں میں حاصل کرلیا۔ثناء میر میں حقیقی قائدانہ صلاحیتیں موجود ہیں اور ”میرو“ کا متبادل تلاش کرنا پاکستان کرکٹ بورڈ کیلئے آسان نہ ہوگا مگر پی سی بی کو چاہیے کہ آنے والے عرصے میں بھی ثناء میر کو پاکستان کی ویمنز کرکٹ کیساتھ منسلک رکھے کیونکہ ایبٹ آباد میں پیدا ہونے والی یہ لڑکی پاکستان ویمنز کرکٹ کی اصل ”ہیروئن“ ہے جس کے تجربے اور مہارت سے فائدہ اٹھانا بہت ضروری ہے۔
اسپنرز کی تربیت کیلئے لگائے گئے کیمپ میں اُسامہ میر کو نظر انداز کردیا جو ملک میں موجود سب سے عمدہ نوجوان اسپن بالر ہے!
کچھ دور اندیش لوگ آنے والے وقت کے خطرات کو پہلے سے بھانپتے ہوئے اُن سے نبرد آزما ہونے کی تیاری شروع کردتے ہیں مگر پاکستان کرکٹ بورڈکا حال ایسے شخص جیسا ہے جو آگ پوری طرح بھڑک جانے کے بعد پانی ڈھونڈنے کیلئے بھاگتا ہے۔ پی سی بی نے نیشنل کرکٹ اکیڈمی کو سفید ہاتھی بنایا ہوا ہے جس سے صحیح معنوں میں استفادہ نہیں کیا جارہا ۔دانش کنیریا میچ فکسنگ کی لپیٹ میں آگیا ، سعید اجمل کے کیرئیر کا سورج ڈوب گیا اور یاسر شاہ بھی تاخیر سے اُبھرنے کے بعد مسائل میں پھنس گیا تو پی سی بی کو یاد آیا کہ ملک میں موجود چند بہتر اسپنرز کو نیشنل اکیڈمی میں بلا کر اُن کی تربیت کی جائے تاکہ اسپن بالنگ کے شعبے میں بیک اَپ ٹیلنٹ کی تلاش کیساتھ ساتھ ایسے لوگوں کی بھاری تنخواہوں کا بھی جواز ڈھونڈا جائے جو کرسیاں گرم کرنے کیساتھ ساتھ اپنی جیبیں گرم کررہے ہیں۔ اسی لیے مشتاق احمد کو اسپنرز کی تربیت کا فریضہ سونپا گیا ہے جس کیلئے ملک کے بارہ ”سرفہرست“ اسپنرز کو منتخب کیا گیا ہے مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ ان ”ٹاپ“ اسپنرز میں پی سی بی کی ہر کمیٹی کے چیف شکیل شیخ کے صاحبزادے تو شامل ہیں مگر ڈومیسٹک کرکٹ میں بیٹسمینوں کو انگلیوں پر نچانے اور ٹیسٹ ٹیم کے قریب پہنچنے والے لیگ اسپنر اُسامہ میرکا نام شامل نہیں جو عمرے کی سعادت حاصل کرنے کے بعد 12اپریل کو وطن واپس پہنچے گا۔ میرے ذرائع کے مطابق اُسامہ میر کا نام تربیتی کیمپ میں شامل ہے جسے آخری دو دنوں میں کیمپ کا حصہ بنایا جائے گا اور اس حوالے سے مشتاق احمد نے سیالکوٹ کے نوجوان لیگ اسپنر کو یقین دہانی بھی کروادی ہے مگر اُسامہ میر کا نام فہرست میں شامل نہ کرکے پی سی بی نے بلاجواز ایک تنازعہ پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اُسامہ میر وطن واپس آکر کیمپ کا حصہ بن جائے گا مگر ڈومیسٹک کرکٹ میں عمدہ کارکردگی دکھانے والے اسپنرز شاہ زیب احمد(کراچی)، کاشف بھٹی (حیدرآباد)،زوہیب خان(پشاور)اور خالد عثمان(ایبٹ آباد) ایسے نام ہیں جو پچھلے چند برسوں سے مسلسل عمدہ کارکردگی دکھا رہے ہیں مگر پی سی بی نے اِن اسپنرز کو ”مُشی“ کے تجربات سے ”استفادہ“ حاصل کرنے کا موقع نہیں دیا۔!
کالم ختم کرنے سے قبل ایک ”لطیفہ“ بھی اپنے قارئین کیساتھ شیئر کرنا چاہوں گا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی کوچ فائنڈنگ کمیٹی میں سابق کپتانوں وسیم اکرم اور رمیز راجہ کے ساتھ ایک ”نان“ کرکٹر کو بھی شامل کرلیا گیا ہے!جی ہاں...پاکستان سپر لیگ میں ”فرائض“ سر انجام دینے والے یہ ”نان“ کرکٹر پی ایس ایل کے ڈرافٹ میں بیس بال کے ایک کھلاڑی کو بھی شامل کرچکے ہیں ...اگر بیس بال کا کوئی سابق کھلاڑی پاکستانی ٹیم کا اگلا کوچ بن گیا تو حیران ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس کا جواز یہ دیا جائے گا کہ بیس بال کا کوچ پاکستانی کرکٹرز کو ٹی20فارمیٹ کیلئے ”پاور ہٹنگ“ کا فن سکھا سکتا ہے!!

مزید مضامین :