”نئی جنگ شروع ہونے کو ہے“کرکٹ بورڈ شعیب اختر سے جان چھڑانے کیلئے کوشاں

Shoaib Pcb Aamne Saamne

فاسٹ باؤلرکاہمت ہارنے کی بجائے جنگ لڑنے کا فیصلہ ،بورڈ کو عدالتوں میں گھسیٹنے کا پروگرام تشکیل آخر کیا وجہ ہے ہربورڈ شعیب اختر سے شعیب اختر ہربورڈ سے تنگ ہوتا ہے،قصورکس کا ؟فیصلہ قارئین کے ہاتھ میں

جمعہ 10 جولائی 2009

Shoaib Pcb Aamne Saamne
اعجازوسیم باکھری : مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آج سے آٹھ سال پہلے جب میں شعیب اختر کو گیند کراتے ہوئے دیکھتا تھا تو میری خواہش ہوا کرتی تھی اور میں اپنے دوستوں اور بڑے بھائیوں سے کہا کرتا تھا کہ میں شعیب اختر کی طرح تیزباؤلر بنناچاہتاہوں ۔پھر چندسال کے عرصے کے بعد جب شعیب اختر کے بارے میں اخبارات میں خبریں پڑھنے کو ملیں کہ وہ جھگڑالوہے ،بدتمیز ہے ، سینئرز کے ساتھ برے طریقے سے پیش آتا ہے اور ہمیشہ زخمی رہتا ہے تو وہ تمام لوگ مجھے کہتے تھے کہ ”کیا تم اس شعیب اختر کی طرح تیزباؤلر بننا چاہتے ہو جس کوتمیز نہیں ہے اور وہ صدا زخمی رہتا ہے تو مجھے شعیب اختر سے زیادہ اپنے آپ پر غصہ آتا تھا کہ بلاوجہ میں نے اس کو اپنا آئیڈیل بنالیا جس کی وجہ سے میں خود ایک مذاق بن کر رہ گیا ہوں ۔

چند سال پہلے جب میں نے سپورٹس رپورٹنگ شروع کی اور پاکستان کرکٹ کے حالات و واقعات کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اورانٹرویو کے سلسلے میں شعیب اختر سے ملاقاتیں ہوئیں تو مجھے شعیب اخترکو ایک آئیڈیل باؤلر بنانے پر خوشی محسوس ہوئی کیونکہ شعیب کے بارے میں ہم نے جواخبارات میں پڑھا تھا اور پاکستان کرکٹ بورڈ کی انتظامیہ شعیب اختر کے بارے میں جو شکایات کرتی نظر آتی تھی وہ بالکل جھوٹ اور من گھڑت الزامات پر مبنی خبریں تھیں ۔

(جاری ہے)

جب مجھے اصل حقائق کا علم ہوا تو مجھے بہت حیرانی ہوئی اور احساس ہواکہ شعیب اختر اتنابرا نہیں ہے جتنا اُسے پیش کیا جاتا ہے اور نہ ہی یہ اتنا لاپرواہ ہے جتنا اسے میڈیا میں دکھایا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے ہاں شائقین اور مبصرین کی ایک بھاری اکثریت شعیب اختر کی مخالف نظر آتی ہے اور اُسے قومی ٹیم کیلئے بوجھ قرار دیا جاتا ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے ۔

ہاں! یہ بات درست ہے کہ شعیب اختر نے ماضی میں بے پناہ غلطیاں کی ہیں ویسے بھی ہرانسان اپنی زندگی میں غلطیاں کرتا ہے لیکن ہم پاکستانی اپنے گریبان میں جھانکنے کی بجائے دوسرے کے کردار پر نظر رکھتے ہیں اور اپنی بڑی سے بڑی خطا کو فراموش کرکے دوسرے کی چھوٹی سی غلطی کو ایشوبنا کر طوفان کھڑا کردیتے ہیں ۔یہ بات درست ہے کہ شعیب اختر دودھ سے دھلا ہوا انسان نہیں ہے اور نہ ہی وہ کوئی فرشتہ ہے کہ اُس سے کوئی غلطی نہیں ہوئی ۔

وہ خود بھی اعتراف کرتا ہے کہ اُس نے بے شمار غلطیاں کیں ہیں لیکن جس طرح اُسے میڈیا میں پیش کیا جاتا ہے وہ ایک کھلی زیادتی ہے کیونکہ بطور صحافی میں نے گزشتہ چار سال میں یہ اندازہ لگایا ہے کہ کرکٹ بورڈ میں بیٹھے ہوئے لوگ شعیب اختر کو اپنا غلام بنا کر رکھنا چاہتے ہیں اور ہربورڈ کی کوشش ہوتی ہے کہ شعیب اختر شعیب ملک کی طرح فرمانبرداری کرتا ہوا نظر آئے لیکن وہ ایک سپر سٹار ہے اور دنیا ئے کرکٹ کا تیز ترین باؤلر ہے وہ کیسے کسی کی غلامی کرسکتا ہے ۔

وہ کوئی شعیب ملک تو نہیں ہے کہ کپتانی برقرار رکھنے کیلئے نسیم اشرف کے حکم پر اپنے سپر سٹار کھلاڑیوں کو ذلیل و خوار کرنے شروع کردے ۔ایک اور بات کا میں نے اندازہ لگایا ہے کہ جب تک کوئی بھی بورڈ شعیب اختر ہو یا کوئی اور کھلاڑی اس کی افادیت ،شہرت اور کامیابی کی قدر نہیں کریگا وہ کھلاڑی بورڈ سے بھی نالاں ہوجائیگا اور بورڈ کوبھی اُس میں نقص نظر آنے شروع ہوجائیں گے ۔

ماضی کا اگر کوئی ایک بورڈ بھی شعیب اختر کو عزت دیتا اور اُس کی کامیابی کو تسلیم کرتا تو شعیب اختر کبھی بھی نہ بگڑتا اور نہ ہی اس کے بارے میں لوگ غلط رائے قائم کرتے لیکن بدقسمتی سے پاکستان کرکٹ بورڈ میں اب تک جتنے بھی سربراہ آئے ہیں وہ کرکٹرز کو اپنا ذاتی غلام بنا کر رکھنا چاہتے ہیں مگر جو اچھے اور کامیاب کھلاڑی ہوتے ہیں وہ غلامی قبول نہیں کرتے ہیں اور جو سفارشی ہوتے ہیں وہ ٹیم رہنے کیلئے کچھ بھی کرنے کیلئے تیار ہوتے ہیں۔

یہی وجہ ہوتی ہے کہ کھلاڑی دو حصوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں جسے ہم عام الفاظ میں پلیئر ز پاور کا نا م دیتے ہیں لیکن اصل میں یہ بورڈ کی اپنی بنائی ہوئی گروپ بندی ہوتی ہے جس سے ٹیم کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے ۔شعیب اختر چونکہ ایک کامیاب فاسٹ باؤلر ہے اور کبھی بھی اُسے کارکردگی کی بنیاد پر ٹیم سے ڈراپ نہیں کیا گیا لہذا وہ صرف عزت چاہتا ہے اور اُسے کسی کی غلامی قبول نہیں ہے یہی وجہ ہے آج کل ایک بار پھر پاکستان کرکٹ بورڈ اور شعیب اختر کے درمیان اختلافات کی ایک نئی چنگاری بھڑک اٹھی ہے جس کا انجام خطرناک دکھائی دیتا ہے ۔

نئی کہانی یہ ہے کہ قومی ٹیم کے کوچ انتخاب عالم اور ٹیم مینجر یاور سعید سمیت چیئرمین پی سی بی اعجازبٹ ذاتی طور پر شعیب اختر کو ٹیم میں شامل نہیں کرنا چاہتے ،یہ تمام لوگ شعیب کی کیوں مخالفت کررہے ہیں شاید وہی وجہ ہے جو میں نے پہلے بیان کی ہے کہ بورڈ کے ”بڑے “ٹیم کے مفاد کو پس پشت ڈال کر اپنی ذاتی پسندناپسند کو اولیت دینا چاہتے ہیں۔

ٹونٹی ٹونٹی ورلڈکپ کو ابھی شروع ہونے میں 13دن پڑے تھے کہ انتخاب عالم نے اعلان کیا کہ شعیب اختر ایک جلدی بیماری میں مبتلا ہے جس کی وجہ سے اُسے ٹیم سے ڈراپ کیا جارہا ہے۔گزشتہ روز لاہور کے باغ جناع میں شعیب اختر پریکٹس کررہے تھے وہاں ایک طویل عرصے بعد اُن سے ملاقات ہوئی جہاں میرے پوچھنے پر شعیب نے بتایا کہ وہ مکمل فٹ تھا اور اُسے ایک معمولی جلدی بیماری تھی جو ورلڈکپ کے آغاز سے قبل ٹھیک ہوجانی تھی لیکن ٹیم مینجمنٹ نے جان بوجھ کر مجھے ورلڈکپ کھلانے سے گریز کیا،ایک تو مجھے ورلڈکپ میں شامل نہیں کیا گیا اوپر سے میری بیماری کو بڑھا چڑھا کرپیش کیا گیا اور میری میڈیکل رپورٹ جوکہ جھوٹ پر مبنی تھی اُس میں اخلاق سے گری ہوئی زبان استعمال کرکے نہ صرف میرے بارے میں غلط رائے پیدا کی گئی بلکہ مجھے شدید شرمندگی بھی اٹھانا پڑی ۔

آپ نے اب تک اس پر خاموشی کیوں اختیار کیے رکھی؟اس پر شعیب نے کہاکہ میرا مقصدپاکستان کیلئے کرکٹ کھیلنا ہے اور اُس وقت میں نے سمجھا کہ اگر میڈیا میں جاکر اس کا احتجاج کیا تو شاید ٹیم مینجمنٹ طیش میں آکر مجھے مستقبل میں نہ کھلائے اس لیے خاموش رہا ،اب اس لیے میں نے آواز اٹھائی ہے کیونکہ میں مکمل فارم میں ہوں اور فٹ ہوں لیکن اس کے باوجود بورڈ مجھے سری لنکا کے خلاف ون ڈے سیریز نہیں کھلانا چاہتا اس لیے میں نے آواز اٹھائی ہے کیونکہ بلاوجہ مجھے سائیڈ لائن پر بٹھانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔

شعیب نے مزید کہاکہ میں کرکٹ بورڈ کے خلاف عدالت جانے کا بھی حق رکھتا ہوں کیونکہ انہوں نے میری میڈیکل رپورٹ کو غلط انداز میں پیش کیا اور اس میں اخلاق سے گری ہوئی زبان استعمال کی ۔شعیب اختر جب یہ باتیں کررہے تھے تو میں اُس کا چہرہ غور سے دیکھ رہا تھا وہ کافی غصے میں تھا اور انتہائی جذباتی ہورہا تھا اُ س کا چہرہ دیکھ کر مجھے اندازہ ہوگیا کہ وہ شدت سے چاہتا ہے کہ دوبارہ پاکستان کیلئے کھیلے ، اُس کی باتوں سے مجھے اس بات کابھی مکمل اندازہ ہوگیا کہ اگر اُسے ٹیم میں شامل نہ کیا گیا تو وہ کرکٹ بورڈ کے خلاف عدالت میں ہرصورت جائیگا ۔

دوسری جانب بورڈ کا رویہ دیکھاجائے تو وہ شعیب اختر کو مجرم اورخود کو سچا قرار دے رہے ہیں اس صورتحال میں یقینی طور پر لگ رہا ہے کہ گراؤنڈ میں حریف بیٹسمینوں پر باؤنسر برسانے والے شعیب اختر اور پی سی بی کے مابین عنقریب عدالتی جنگ شروع ہونیوالی ہے جس سے یا تو نسیم اشرف کی طرح اعجاز بٹ کو بھی گھٹنے ٹیکنے پڑیں گے یا پھر اس بار شکست کی باری شعیب اختر کی ہوگی۔

بہرحال :ایک بات تو سچ ہے کہ شعیب اخترایک قومی ہیرو ہے لہذا کرکٹ بورڈ کو اُن کی قدر کرنی چاہئے اور اگر وہ مکمل فٹ ہے تو اُسے ٹیم میں شامل کرنا چاہیے کیونکہ قومی کرکٹ ٹیم کسی کی جاگیر نہیں ہے ،جو کھلاڑی اچھا کھیلتا ہے اُسے ٹیم میں شامل کرنا چاہیے اور یہ کسی کو اختیار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ اپنی پسند نا پسند کی وجہ سے کسی کھلاڑی کو ٹیم سے باہر رکھے ۔

گوکہ شعیب اختر کے فٹنس مسائل ہمیشہ اُس کے ساتھ ساتھ چلتے رہتے ہیں جن کے پیش نظر وہ شاید اب ٹیسٹ کرکٹ نہ کھیل سکے لیکن وہ ون ڈے اور ٹونٹی ٹونٹی کرکٹ کھیلنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے ۔میری پی سی بی انتظامیہ سے التماس ہے کہ وہ ہٹلرازم اور پرویزی آمریت کو ترک کرکے جمہوریت کو اپنا نصب العین بنائے اور اگر کوئی کھلاڑی فٹ ہے اور فارم میں ہے تو اُسے ٹیم میں شامل کیا جانا چاہئے تاکہ پاکستانی ٹیم کی قوت میں اضافہ ہو ۔

مزید مضامین :