پرانے راگ،نئی بانسریاں

Purane Raag Nayi Bansariyaan

پاکستان کرکٹ میں چہرے تبدیل کرنے کا ”فیشن“ بہت پرانا ہے اور اس مرتبہ بھی یہی ”ایکسرسائز“ سب سے پہلے دہرائی جائے گی

Farhan Nisar فرحان نثار منگل 5 اپریل 2016

Purane Raag Nayi Bansariyaan

شائقین کرکٹ کو بے وقوف بنانے کا ہنر شاید پاکستان کرکٹ بورڈ اور اس سے متعلقہ افراد سے بہتر کوئی اور نہیں جانتا اور یہ لوگ اپنے ”ہنر“ کااستعمال وقتاً فوقتاً کرتے رہتے ہیں۔ 2014ء میں محمد حفیظ کو کپتانی سے ہٹانے کے بعد پی سی بی نے شاہد آفریدی کو ورلڈ ٹی20تک کپتان نامزد کیا تھا جس کا واضح مطلب تھا کہ ورلڈ ٹی20میں نتائج چاہے کیسے بھی آئیں ،شاہد آفریدی کی کپتانی کی مدت اس ایونٹ کے بعد ختم ہوجائے گی مگر اس کے باوجود شاہد آفریدی طویل”سوچ بچار“ کے بعد ریٹائرمنٹ کا اعلان کرتے ہیں تو معصوم مداح ”بوم بوم“ کی عظمت کو سلام کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ وقار یونس نے اپنی رپورٹ لیک ہونے کے بعد ”عوامی“ پریس کانفرنس بھی کیں اور مختلف ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر اپنے دل کا غبار بھی نکالا، حکومتی عہدیداروں سے بھی ملے اور یہ سب کچھ کرنے کے بعدجب اُن کی شنوائی نہ ہوئی تو پی سی بی کے سربراہ سے ملاقات کے بعد انہوں نے عہدہ چھوڑ دیا۔

(جاری ہے)

وقار یونس نے بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے بقایاجات کو ڈومیسٹک کرکٹ کی بہتری کیلئے لگانے کا مشورہ دیا ہے لیکن وقار یونس جارحانہ انداز اپنانے کی بجائے اگر ایک،دو دن انتظار کرلیتے تو شاید یہ معاملات خوش اسلوبی سے طے پاجاتے۔
ایشیا کپ اور ورلڈ ٹی20میں ناکامی کی وجوہات جاننے کیلئے پاکستان کرکٹ بورڈ نے جو فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنائی تھی وہ کوئی بھی صحیح ”فیکٹ“ سامنے نہ لاسکی بلکہ نئی بانسریوں سے وہی پرانے راگ نکلے ہیں جو برسوں سے گائے جارہے ہیں۔ شکیل شیخ کی سربراہی میں کام کرنے والی کمیٹی نے جو تجاویز دی ہیں ان کی روشنی میں پاکستان کرکٹ بورڈ نے سلیکشن کمیٹی کو تحلیل کردیا ہے جبکہ شاہد آفریدی کے مستعفی ہونے کے بعد نئے ٹی20کپتان کا اعلان جلد کردیاجائے گا اور اس کیساتھ ساتھ وقار یونس کی رخصتی کے بعد نئے ہیڈ کوچ کی تلاش کا فریضہ رمیز راجہ اور وسیم اکرم کو سونپ دیا گیا ہے۔ کھلاڑیوں کی فٹنس کو بہتر بنانے کیلئے دورہ انگلینڈ سے قبل ایبٹ آباد میں کنڈیشنگ کیمپ لگانے، ماہر نفسیات اور ماہر غذایات کی تقرری اور مستقل طور پر بورڈ میں میڈیا ترجمان کی تقرری ایسے اقدامات ہیں جن پر بہت جلد عمل درآمد بھی شروع ہوجائے گا۔ طویل المدتی منصوبہ بندی میں کمیٹی نے ڈومیسٹک کرکٹ کے نظام کو بہتر بنانے کی بات کی ہے جس میں فرسٹ کلاس کرکٹ میں ٹیموں کی تعداد کو کم کرتے ہوئے معیار کو بڑھایا جائے اور اس کیساتھ ساتھ ریجنز کیلئے اسپانسرز کی تلاش کو نہایت اہم قرار دیا ہے۔
تحقیقاتی رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد جو فیصلے کیے گئے ہیں ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں ہے جس کے بارے میں گزشتہ برسوں کے دوران بات نہ ہوئی ہو مگر کبھی بھی پاکستان کرکٹ بورڈ نے ان تجاویز پر کان نہیں دھرے اور اب قومی ٹیم کی حالت بدترین ہونے کے بعد پی سی بی بہتری کی جانے کے متعلق سوچ رہا ہے۔ گزشتہ سیزن میں پی سی بی نے فرسٹ کلاس کرکٹ میں ریجن اور ڈیپارٹمنٹ کی ٹیموں کو یکجا کرتے ہوئے کوالیفائنگ راوٴنڈ کا ڈھونگ بھی رچایا جس میں کئی بڑے اور پرانے ڈیپارٹمنٹ فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلنے سے محروم ہوگئے اور اب یہی پاکستان کرکٹ بورڈ ”معیار“ بہتر بنانے کیلئے ٹیموں کی تعداد کم کرنے کی بات کررہا ہے۔ میں گزشتہ کئی برسوں سے اپنی تحریروں میں یہ لکھتا ہوا آرہا ہوں کہ فرسٹ کلاس کرکٹ سات ریجن کی ٹیموں کے درمیان ہوم اینڈ اَوے کی بنیادوں پر کھیلی جائے جبکہ ڈیپارٹمنٹس ان ٹیموں کو اسپانسر کریں اور پاکستان سپر لیگ کے انعقاد کے بعد ایک تجویز یہ بھی ہے کہ پی ایس ایل کی ہر فرنچائز دو سے تین ریجنز کو اسپانسر کرے اور ایسا کرنے سے لگ بھگ تمام ریجنز کو اسپانسرشپ مل جائے گی اور ان کی کرکٹ کا معیار بہتر ہوجائے گا ۔شکر ہے کہ اب یہ بات نجم سیٹھی اور ان کی ٹیم کو بھی سمجھ آگئی ہے جو فرسٹ کلاس کرکٹ میں ٹیموں کی تعداد کم کرنے اور پی ایس ایل کی فرنچائز کو ڈومیسٹک کرکٹ کی جانب راغب کرنے کے متعلق سوچ رہی ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نے سخت فیصلے کرنے کی ٹھان لی ہے مگر یہ فیصلے کب ہونگے اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔ پاکستان کرکٹ میں چہرے تبدیل کرنے کا فیشن بہت پرانا ہے اور اس مرتبہ بھی سب سے پہلے یہی ”ایکسرسائز“ کی جائے گی جس میں نیا کپتان مثبت سوچ لے کر میدان میں آئے گا ، نیا ہیڈ کوچ آسمان سے تارے توڑ کر لانے کی باتیں کرے گا اور نئی سلیکشن کمیٹی کے پاس بھی وہ جادو کی چھڑی موجود ہوگی جو پلک جھپکتے ہی سب کچھ ٹھیک کردگے گی مگر پاکستان کرکٹ کا سب سے بڑا مسئلہ ڈومیسٹک کرکٹ کو بہتر کرنا ہے جس کی جانب کوئی توجہ نہیں دے رہا ۔اگلی کسی نشست میں ڈومیسٹک کرکٹ کی بہترین کیلئے جامع پلان بھی اپنے قارئین اور کرکٹ بورڈ کے سامنے رکھوں گا مگر پاکستان کرکٹ بورڈ سے یہی التماس ہے کہ اب بھی وہ ہوش کے ناخن لے کر حقیقی معنوں میں وہ فیصلے کرے جو پاکستان کرکٹ کو بہتری کی جانب لے کر جاسکتے ہیں کیونکہ فی الوقت بالکل ایسا ہی لگ رہا ہے کہ پی سی بی نے نئی بانسریاں پکڑ لی ہیں مگر ان میں سے پرانے راگ ہی نکل رہے ہیں!

مزید مضامین :