ٹی ٹونٹی ورلڈکپ،عمران نذیر کی واپسی پر بلاجواز تنقید شروع

T20 World Cup Imran Nazir Ki Wapsi Per Tanqeed

عمران نذیر کی واپسی پر شائقین توخوش ہوگئے مگر ناقدین نے جارح مزاج بلے بازکو ہدف تنقید بنا لیا ہمارے ہاں لوگوں نے محمد سمیع کی شکل میں چلے ہوئے کارتوس کو توقبول کرلیا مگر عمران نذیر کی واپسی برداشت نہیں ہورہی۔۔

منگل 24 جولائی 2012

T20 World Cup Imran Nazir Ki Wapsi Per Tanqeed
اعجازوسیم باکھری ٹی ٹونٹی ورلڈکپ کیلئے قومی کرکٹ ٹیم کا اعلان ہوچکا ہے۔ ٹیم میں شامل کھلاڑیوں میں دو ایسے کھلاڑیوں کی شمولیت خاصی اہم ہے جن کی پاکستان میں بے پناہ مقبولیت ہے۔ عمران نذیر اور عبدالرزاق کی قومی ٹیم میں واپسی سے شائقین کرکٹ میں خوشی کا لہر دوڑ گئی ہے۔ ایک طویل عرصہ سے عوامی سطح پر مطالبہ کیا جارہا تھا کہ عمران نذیر کو قومی ٹیم میں شامل کیا جائے اور عام تاثر یہ ہے کہ عمران نذیر بہت ہی دھواں دھار انداز میں بینٹگ کرتے ہیں ان کے سامنے کسی باؤلر کی ایک بھی نہیں چلتی۔

عمران نذیر نے اپنا امیج بھی ایک جارح مزاج بلے باز جیسا بنایا ہوا ہے لیکن انہیں بے شمار مواقع فراہم کیے گئے مگر وہ کسی بھی موقع سے بھر پورفائدہ اٹھانے میں ناکام رہے۔ اگر عمران نذیر اپنی کارکردگی میں تسلسل پیدا کرتے تو یقینی طور پر وہ قومی ٹیم کا مستقل حصہ ہوتے لیکن لمبی اننگز نہ کھیلنے کے جرم میں وہ ہمیشہ ٹیم سے ان آؤٹ ہوتے رہے اور اب ایک بار پھر سلیکٹرز نے ٹیم کی ضرورت یا پھر اسے عوامی خواہش کہہ سکتے ہیں کے پیش نظر اُسے دوبارہ موقع دیا ہے اور شاید یہ آخری موقع بھی ہوسکتا ہے۔

(جاری ہے)

عمران نذیر قومی ٹیم کے بہت مقبول کھلاڑی ہیں اور انہیں اپنی مقبولیت اور ٹیم کی ضرورت کا خیال رکھتے ہوئے شائقین کے جذبات اور توقعات پر پورا اترنا ہوگا۔ عمران نذیر ایک ایسا کھلاڑی جو کسی بھی ٹیم کو ادھیڑ سکتا ہے۔ اپنے جارحانہ انداز کی وجہ سے عمران نے بہت مقبولیت حاصل کی اور یہ بات حقیقت ہے کہ بطور صحافی لوگ اکثر پوچھتے ہیں کہ عمران نذیر ٹیم میں شامل ہیں یا نہیں ، اسے کیوں موقع نہیں دیا جاتا۔

اس کی سب سے بڑی وجہ عمران نذیر کی آئی سی ایل ، بنگلہ دیش لیگ اور پاکستان کے قومی ڈومیسٹک ایونٹس میں تابڑتوڑ بیٹنگ ہے جس کے پیش نظر لوگ اسے قومی ٹیم میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اب سلیکٹرز نے اسے موقع دے دیا ہے اور عمران کی حالیہ پرفارمنس سے یہی لگتا ہے کہ وہ ٹیم کیلئے کافی مفید ثابت ہونگے اور توقعات پر پورا اتریں گے۔ عمران نذیر کے بارے میں سابق آسٹریلوی کھلاڑی ٹریول چیپل نے کہا تھا کہ ”میں نے زنذگی میں ایسا نچرل ٹیلنٹ نہیں دیکھا“ عمران نذیر عمران خان کے بھی کافی فیورٹ کھلاڑی رہے ہیں لیکن ٹیم سے آؤٹ رہنے کی وجہ سے عمران نذیر کے کیرئیر کو بھی نقصان پہنچا اور پاکستان ایک اچھے اوپنر سے بھی طویل عرصہ محروم رہا۔

اب دیکھنا ہوگا کہ وہ ٹیم کیلئے کیا کرتے ہیں۔ ایک طرف عمران نذیر کی واپسی پر جہاں شائقین خوش ہیں تو ناقدین نے کرکٹ بورڈ کے اس فیصلے پر کڑی تنقید کی ہے۔ناقدین کا خیال ہے کہ عمران نذیر ایک چلا ہوا کارتوس ہے اور انتظامیہ کو چاہئے تھا کہ شاہ زیب حسن یا کسی اور نوجوان بلے باز کو موقع دیا جاتا۔ تنقید کرنیوالوں کا یہ بھی خیال ہے کہ عمران نذیر کو بہت چانس دئیے گئے لیکن وہ ہمیشہ بڑے میچز میں مایوس کرتے ہیں مگر شاید لوگ 2007ء کا ٹی ٹونٹی ورلڈکپ بھول گئے ہیں جس میں عمران نذیر کی تابڑ توڑ بیٹنگ کی وجہ سے پاکستان نے فائنل کھیلا تھا۔

انٹرنیشنل کرکٹ سے ہٹ کر اگر عمران نذیر کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو اُس نے ہمیشہ اپنی ٹیموں کیلئے بڑا سکور کیا اور کامیابیاں دلائیں۔ ایک کھلاڑی طویل عرصہ سے سکور بھی کررہا ہے اور شائقین بھی اسے ٹیم میں دیکھنا چاہتے ہیں تو ایسے میں ناقدین کو اپنی توپوں کا رخ اُس کی بجائے کسی اور جانب کرنا چاہئے۔ ایسے کھلاڑیوں کو تنقید کا نشانہ کیوں نہیں بنایا جاتا تو طویل عرصے سے ٹیم میں بھی ہیں اور ٹیم کیلئے کچھ کرتے بھی نہیں ہیں۔

قومی ٹیم پر کئی مرتبہ مشکل وقت آیا اور بڑے نام کے کھلاڑی کچھ بھی نہیں کرسکے۔ میرے خیال سے ہم سب کو عمران نذیر کو سپورٹ کرنا چاہئے اور اس پر انحصار کرنا چاہئے نہ کہ اس پر تنقید کرکے اس کا اعتماد یہیں توڑ دیا جائے۔ دنیا کی دوسری ٹیموں میں بھی کھلاڑی طویل عرصہ بعد دوبارہ سلیکٹ ہوتے ہیں اور وہ اعتماد پر پورا اترتے ہیں۔ ہمارے ہاں لوگوں نے محمد سمیع کی واپسی پر تو آنکھیں اور اپنے قلم بند کرلیے ، حالانکہ سمیع نے سری لنکا میں کوئی زیادہ اچھی کارکردگی نہیں دکھائی لیکن ایک مخصوص طبقہ پاکستان میں ہمیشہ اپنے مفادات کی خاطر حقائق کو چھپا کر من گھڑت ایشوز کو ہوا دینے میں مگن رہتا ہے۔

اگر محمد سمیع کو پانچ سال بعد ٹیم میں قبول کیا جاسکتا ہے تو عمران نذیر کو کیوں نہیں۔ عمران نذیر ایک محنتی اور ٹیلنٹڈ کھلاڑی ہے۔ اس نے بہترین کو آغاز فراہم کیے یہ الگ بات ہے ٹیم کئی مرتبہ ہار گئی اور بہت بار عمران نذیر خود بھی ناکام ہوگیا لیکن بیٹنگ تو صرف ایک گیند کی گیم ہے جو ایک ہی گیند پر اینڈ ہوسکتی ہے۔ ورلڈکپ سرپہ آچکا ہے اور ہمیں جو ٹیم منتخب ہوچکی ہے اس میں کیڑے نکالنے کی بجائے اس ٹیم کو اعتماد دینا چاہئے اور خصوصاً عمران نذیر، عبدالرزاق اور کامران اکمل کی طویل عرصہ بعد واپسی ہوئی ہے ان سب کو اعتماد دینا چاہئے اور ان کا حوصلہ بڑھانا چاہئے۔

قومی ٹیم ورلڈکپ جیت سکتی ہے کیونکہ ٹی ٹونٹی فارمیٹ میں اب تک ہونیوالے تینوں ورلڈکپ میں پاکستان نے عمدہ کھیل پیش کیا۔ پہلے ورلڈکپ کا فائنل کھیلا، دوسرے میں کامیابی حاصل کی اور تیسرے کا سیمی فائنل کھیلا۔ اس بار بھی قومی ٹیم وکٹری سٹینڈ تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتی ہے ، ضرورت صرف امر کی ہے کہ کھلاڑیوں کو اعتماد دیا جائے اور ان پر اعتماد کیا جائے۔

مزید مضامین :