تبدیل کون ہونا چاہیے؟...چیئرمین پی سی بی یا گندے انڈے!

Tabdeel Kon Hona Chahiye

چیئرمین تبدیل کرنے کی” رٹ“اصل مسائل سے نظریں ہٹانے کی کوشش ہے تاکہ گندے انڈوں کی دکان چلتی رہے

Farhan Nisar فرحان نثار پیر 11 اپریل 2016

Tabdeel Kon Hona Chahiye
پاکستان کرکٹ کا مسئلہ قومی ٹیم کی خراب کارکردگی، فرسٹ کلاس کرکٹ کا غیر معیاری سیٹ اَپ، بیک اَپ کھلاڑیوں کی کمیابی ،اسکول کرکٹ کا نہ ہونا جیسے مسائل ہیں اور ان مسائل کا حل کسی بھی صورت میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کی تبدیلی سے ممکن نہیں ہے مگر آج کل پاکستان کرکٹ بورڈ کا ایک ٹولہ یہ تاثر دینے کی کوشش کررہا ہے کہ چیئرمین کی تبدیلی سے تمام مسائل حل ہوجائیں گے اور ہر دوسرے دن اس حولے سے نئے نام سامنے آجاتے ہیں تاکہ اصل مسائل پر پردہ ڈالتے ہوئے پی سی بی سے گند کا صفایا نہ ہوسکے۔

چند دن پہلے تک ماجد خان کا نام پوری شدت سے اُبھارا گیا اور اب آئی سی سی کے حالیہ اور سابق صدر کے علاوہ قومی ٹیم کے سابق مینجر نوید اکرم چیمہ کا نام بھی سامنے آگیا ہے ۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ نوید اکرم چیمہ اس عہدے کیلئے سب سے زیادہ فیورٹ امیدوار ہیں مگر اس سے پہلے یہ بھی جاننا ہوگا کہ موجودہ چیئرمین شہریار خان کو تبدیل کیا جاسکتا ہے یا نہیں۔

(جاری ہے)

آئی سی سی قوانین کے مطابق حکومتی مداخلت مذکورہ ملک کے بورڈ کیلئے مسائل کا سبب بن سکتی ہے اور اس لیے اگر ملک کے وزیر اعظم یعنی پی سی بی کے پیٹرن انچیف شہریار خان کو اُن کے عہدے سے برطرف کرتے ہیں تو پھر آئی سی سی کا قانون حرکت مین آجائے گا اور دوسری صورت صرف یہی ہے کہ شہریارخان خود اپنے عہدے سے مستعفی ہوجائیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ میں اس وقت چیئرمین کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ تمام تر فیصلوں کا اختیار کرکٹ کمیٹی کے پاس ہے جس کے سربراہ نجم سیٹھی ہیں ۔

اگر کوچ بنانے کا فیصلہ ہو تو کرکٹ کمیٹی یہ فیصلہ کرتی ہے ، سلیکشن کمیٹی بھی اسی کمیٹی کی مرہون منت ہے جبکہ پاکستان سپر لیگ کے معاملات سے بھی پی سی بی کے چیئرمین کا کوئی تعلق نہیں ہے لیکن جس معاملے پر کرکٹ کمیٹی کو چیئرمین کے دستخطوں کی ضرورت پیش آتی ہے وہاں چیئرمین پی سی بی کو ”ربڑ اسٹیمپ“ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔ایسی صورتحال میں چیئرمین کی تبدیلی بھی پاکستان کرکٹ کو بہتری کی جانب گامزن نہیں کرسکتی بلکہ ایسے لوگوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت جو حقیقت میں پاکستان کرکٹ کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔

وقار یونس نے ہیڈ کوچ نے مستعفی ہونے کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ کو ایسا ادارہ قراردیا ہے جس کی سربراہی دو افراد کے ہاتھوں میں ہے جس کے باعث پاکستان کرکٹ کے معاملات خراب ہوتے جارہے ہیں۔ اس بات میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ چیئرمین کی حیثیت سے شہریار خان پی سی بی کے سربراہ ہیں جبکہ اصل معاملات نجم سیٹھی چلارہے ہیں اور جب شہریار خان کسی اہم معاملے پر اپنی رائے دیتے ہیں تو وہ نجم سیٹھی کی پسند اور خواہش سے میلوں دورہوتی ہے جس کے باعث پی سی بی کے معاملات بگڑ رہے ہیں۔

شہریار خان خود بھی نہیں چاہتے کہ وہ چیئرمین شپ سے مستعفی ہوں اور نجم سیٹھی بھی نہیں چاہتے کہ شہریار خان اس عہدے کو چھوڑیں کیونکہ نجم سیٹھی کو بھی ”میاں شہریار“ سے بہتر ”ڈمی“ چیئرمین نہیں ملے گا۔ شہریار خان کو تبدیل کرنے کا ”شوشہ“ صرف اس لیے چھوڑا گیا ہے تاکہ حقائق سے نظریں چرائی جاسکیں اور جو مشکلیں اس وقت پاکستان کرکٹ پر آئی ہوئی ہیں انہیں چھپاتے ہوئے صرف اپنی کرسیاں بچانے کی کوشش کی جائے۔

ایک حلقے کا یہ کہنا ہے کہ ماجد خان کو پی سی بی کا چیئرمین بنانے کی تیاریاں پوری ہوچکی تھیں اور خود ماجد خان کی بھی خواہش تھی کہ وہ پاکستان کرکٹ کے معاملات کو درست کریں مگر پی سی بی کے اندر سے ماجد خان کیلئے مخالفت سامنے آگئی کیونکہ ماجد خان کے آنے سے اُن لوگوں کی ”دکان“ بند ہوجاتی جو اس وقت پی سی بی کو ہانک رہے ہیں۔ پاکستان کرکٹ اس وقت شدید ترین مشکلات سے دوچار ہے اور اہم عہدوں پر بیٹھے ہوئے لوگ ان مسائل کو حل کرنے کی بجائے اپنی کرسیاں بچانے کی کوشش کررہے ہیں جس کیلئے انہیں چیئرمین کی قربانی دینا پڑے یا پھر پاکستان کرکٹ کی...وہ کچھ بھی کرگزرنے سے دریغ نہیں کریں گے۔

اس لیے چیئرمین کی تبدیل کرنے کی رٹ لگانے والوں کو صرف اتنا سوچ لینا چاہیے کہ وہ خود پاکستان کرکٹ کیساتھ کیا کررہے ہیں!

مزید مضامین :