ضرورت ہے ایک کوچ کی!

Zarorat Hai Aik Coach Ki

ہیڈ کوچ کا انتخاب اسی کسوٹی پر ہونا چاہیے جوپاکستان کرکٹ بورڈ نے اپنے اشتہار میں وضع کی ہے

Farhan Nisar فرحان نثار بدھ 6 اپریل 2016

Zarorat Hai Aik Coach Ki

اب وہ دن آگئے ہیں جب پاکستان کرکٹ کے حوالے سے ہر دن ایک نئی خبر،کوئی چٹ پٹا سا بیان سامنے آئے گا اور ہر دوسرے دن پاکستان کرکٹ 360کے زاویے پر گھوم جائے گی ۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہونے جارہا اس لیے شائقین کرکٹ کو نت نئی خبروں پر بہت زیادہ جذباتی یا پرجوش ہونے کی ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ سرفراز احمد کو پاکستان کی ٹی20ٹیم کی کپتانی مل گئی ہے جو نئے جوش اور جذبے کیساتھ آگے ٹی20فارمیٹ میں قومی ٹیم کو آگے لے کر بڑھناچاہتے ہیں۔ورلڈ ٹی20کے بعد سرفراز احمد کا کپتان بننا نوشتہ دیوار تھا مگر اب سب سے اہم پوسٹ ہیڈ کوچ کی ہے جس کیلئے رسہ کشی شروع ہونے والی ہے کیونکہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے ہیڈ کوچ کی تقرری کیلئے اخبارات میں اشتہار دے دیا ہے جس کیلئے حتمی تاریخ 25اپریل ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نے ایک طرف ہیڈ کوچ کیلئے اشتہار دیا ہے جس میں انٹرنیشنل کرکٹ کھیلے ہوئے امیدوار کیلئے ضروری ہے کہ اس نے قومی یا انٹرنیشنل سطح پر کم از کم پانچ برس تک کوچنگ کی ہو جبکہ فرسٹ کلاس کرکٹرز کیلئے یہ دورانیہ کم از کم دس برس تجویز کیا گیا ہے جبکہ دوسری جانب پی سی بی نے سابق کپتانوں وسیم اکرم اور رمیز راجہ کو نیا ہیڈ کوچ تلاش کرنے کی ذمہ داری سونپ دی ہے اور اس کیساتھ ساتھ پچھلے دروازے سے عاقب جاوید کو بھی پی سی بی نے ”تسلی“ دے دی ہے ۔

(جاری ہے)

سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے محسن خان کو چیف سلیکٹر کا عہدہ پیش کیا لیکن پانچ برس قبل کوچ کی حیثیت سے انگلینڈ کیخلاف وائٹ واش کی ”سعادت“ حاصل کرنے والے سابق چیف سلیکٹر نے بھی دوبارہ کوچ بننے کی ضد کرنا شروع کردی ہے۔
اب صورتحال نہایت دلچسپ ہوگئی ہے کہ اخبار ات میں جاری ہونے والے اشتہار کے ردعمل میں بہت سے ملکی اور غیر ملکی کوچز پی سی بی سے رابطہ کریں گے لیکن اس کیساتھ ساتھ وسیم اکرم اور رمیز راجہ بھی اپنی پسند کے کوچز کو ہیڈ کوچ کا عہدہ دلوانے کی کوشش کریں گے جیسا کہ وہ ماضی میں بھی کرچکے ہیں جبکہ وہ پاکستانی کوچز جو اس معیار پر پورا نہیں اتریں گے وہ پی سی بی پر تنقید کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے۔ پی سی بی نے ایسا ہی اشتہار دو برس پہلے بھی دیا تھا اور پھر خود ہی اس اشتہار میں لکھے اہلیت کے پیمانے کی دھجیاں اڑاتے ہوئے وسیم اکرم کی ”سفارش“ پر معین خان کو قومی ٹیم کا ہیڈ کوچ بنا دیا جنہیں انٹرنیشنل سطح پر کوچنگ کا کوئی تجربہ نہیں تھا اور اس کے بعد ورلڈ ٹی20 میں گرین شرٹس کا جو حال ہوا وہ زیادہ پرانی بات نہیں ہے۔ معین خان کی دو ماہ کی کوچنگ کے بعد جب دوبارہ نئے کوچ کی تقرری کا مرحلہ آیا تو پاکستان کرکٹ بورڈ نے ایک مرتبہ پھر اشتہار دیا اور کوچ کی حیثیت سے ناکام ہونے والے معین خان کو کوچ فائنڈنگ کمیٹی کا سربراہ بنایا لیکن نجم سیٹھی نے وقار یونس سے ایک ملاقات کرکے انہیں ہیڈ کوچ کا عہدہ دے دیا جو اشتہار میں دی گئی کسوٹی پر پورا نہیں اترتے تھے۔اس کے ردعمل میں محسن خان نے کافی شور بھی مچایا مگر ان کی شنوائی نہ ہوسکی۔
پاکستان کرکٹ بورڈ ایک مرتبہ پھر وہی عمل دہرانے جارہا ہے جو ماضی میں بورڈ کیلئے بدنامی کا باعث بن چکا ہے۔ اشتہار دینے کیساتھ ساتھ پی سی بی نے عاقب جاوید سے بھی رابطہ کرلیا ہے مختلف حیثیتوں میں کوچنگ کرتے ہوئے پانچ سال کی اہلیت پر پورا اترتے ہیں لیکن وسیم اکرم پاکستان سپر لیگ میں اپنے ”ساتھی“ ڈین جونز کو ہیڈ کوچ کا عہدہ دلوانا چاہتے ہیں حالانکہ پی ایس ایل سے پہلے ڈین جونز نے کسی قسم کی کوچنگ نہیں کی ہوئی مگر وہ متعدد مرتبہ پاکستانی ٹیم کی کوچنگ کی خواہش کا اظہار کرچکے ہیں۔اگر ہیڈ کوچ کا فیصلہ وسیم اکرم اوررمیزراجہ نے کرنا ہے تو پھر اشتہار دینے کی کیا ضرورت ہے کیونکہ یہ اشتہار ایک مرتبہ پھر پی سی بی کیلئے بدنامی کا باعث بنے گا۔ فی الوقت عاقب جاوید ہیڈ کوچ کے عہدے کیلئے مضبوط امیدوار بن چکے ہیں جو اشتہار میں دی گئی اہلیت پر پورا بھی اترتے ہیں مگر پاکستان کرکٹ میں اب یہ رواج بن چکا ہے کہ ملکی اور غیر ملکی کوچز کو باری باری یہ عہدہ دیا جاتا ہے اور اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اب غیر ملکی کوچ کی ”باری“ ہے۔ اس حوالے سے ڈین جونز پی سی بی کی اہلیت پر پورا نہیں اترتے مگر وسیم اکرم کی ”سفارش“ سابق آسٹریلین بیٹسمین کو یہ عہدہ دلواسکتی ہے جبکہ ڈین جونز کا بیٹسمین ہونا بھی ان کے حق میں جاسکتا ہے کیونکہ وقاریونس پر یہ تنقید بھی ہوتی رہی کہ بالر کبھی اچھا کوچ نہیں بن سکتا اور اگر اس مفروضے کو حقیقت سمجھ لیا جائے تو پھر عاقب جاوید کو قومی ٹیم کا کوچ نہیں بننا چاہیے۔
پاکستان میں ملکی اور غیر ملکی دونوں کوچز کا تجربہ ناکام ہوچکا ہے کیونکہ پاکستان کرکٹ کا مسئلہ صرف کوچ کی تبدیلی بلکہ گراس روٹ اور ڈومیسٹک سطح کے مسائل ہیں جنہیں دور کرنے کی ضرورت ہے اس لیے پی سی بی چاہے ملکی کوچ کو یہ عہدہ دے یا پھر کسی غیر ملکی کو ہیڈ کوچ بنایا جائے مگر پاکستان کرکٹ بورڈ کے عالی دماغوں کو چاہیے کہ وہ اسی کسوٹی پر کوچ کا انتخاب کرے جو انہوں نے اشتہار میں وضع کی ہے ورنہ دوسری صورت میں پی سی بی کیلئے تنقید سے بچنا مشکل ہوجائے گا!

مزید مضامین :