Episode 40 - Hilal E Kashmir (Naik Saif Ali Janjua Shaheed) By Anwaar Ayub Raja

قسط نمبر 40 - ہلالِ کشمیر (نائیک سیف علی جنجوعہ شہید) - انوار ایوب راجہ

جنگ آزادی کشمیر
1947-1948 ء کی نمایاں خصوصیات

ٍ تخلیق کائنات کا ارتقائی مطالعہ انسانی فطرت اور نفسیات کا ایک ایسا روشن پہلو اجاگر کرتا ہے جسے سمجھے بغیر کوئی شخص قیادت و رہنمائی کا حق ادا نہیں کرسکتا۔ انسانی تخلیق میں سب سے اہم جزو مٹی ہے جس کا انسان کے مزاج پر گہرا اثر ہوتا ہے۔
مزاج شناسی درحقیقت انسانی نفسیات ظاہری و باطنی کا حصہ ہے کہ ایک شخص ایک گروہ یا ایک خطہ کے لوگوں کی خوبیوں اور خامیوں کو پرکھ کر انہیں کس طرح استعمال کیا جائے اور ان کے لطیف جذبات و احساسات کو مصرف میں لاکر ان سے بھر پور فائدہ حاصل کیا جائے۔
چنگیز خان کو جب منگولیا کے قبائلی سرداروں نے اپنا آقاو لیڈر مان لیا اور اسے اٹھارہ دُموں والا جھنڈا عطا کرکے خاقان اعظم کے خطاب سے نوازا تو چنگیز بجائے خوش ہونے کے غم زدہ ہوگیا۔

(جاری ہے)

عالم غمنا کی میں وہ اپنے خیمے میں وارد ہوا تو اس کی محبوب بیوی پرولتائی نے پوچھا کہ خوشی کے بجائے اس کے چہرے پر اداسی کیوں ہے؟ چنگیز جو کہ پیدائشی قائد اور جنگجو لیڈر تھا منگول خونخوار سرداروں کے مزاج سے بخوبی واقف تھا۔ وہ پرولتائی کے پہلو میں بیٹھ گیا اور بولا۔ اے جان چنگیز تو جانتی ہے کہ ان لوگوں کی تلواریں ہمیشہ بے نیام رہتی ہیں، جنگ و جدل اور آوارہ گردی ان کا پیشہ ہے۔
بات بات پر لڑنا اور خون بہانا ان کی فطرت میں ہے۔ بھلا یہ بوڑھا کب تک ان کا خاقان اعظم رہے گا۔ آج نہیں تو کل یہ باہم لڑیں گے اور ایک دوسرے کا خون بہائیں گے۔
پرولتائی بھی !خاقان اعظم سے کم نہ تھی ۔فوراً بولی اس سے پہلے کہ یہ باہم کشت و خون کا سلسلہ شروع کردیں انہیں کسی طاقتور دشمن سے لڑادو اور ان کی قیادت کرو تاکہ ان کا مزاج بھی درست رہے اور تمہاری سلطنت بھی قائم رہے۔
چنگیز نے پرولتائی کے مشورہ پر عمل کیا اور اٹھارہ دُموں والا جھنڈا اٹھا کر چین پر حملہ کردیا جو اس دور کی سب سے مضبوط اور طاقتور سلطنت تھی۔ یوں منگولیا کے خونخوار قبائل کی تلواروں کا رخ اندر کے بجائے باہر کی جانب ہوگیا اور چنگیز خاقان اعظم بنا رہا۔
مزاج شناسی میں سیاسی حکمت عملی کا بھی ایک پہلو ہے۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز خلیفہ بنے تو سلطنت اموی کی وسعت کا کوئی شمار نہیں تھا۔ ہر طرف خیر تھی مگر خلیفہ کو پریشانی لاحق ہوگئی چونکہ وہ خاندان بنواُمیہّ کے مزاج سے خوب واقف تھے۔ لہذا مزاج شناس اور خدا ترس خلیفہ نے ملک میں اصلاحات کا نفاذ کیااور اس کی ابتداء اپنے ہی گھر سے کی۔ ان اصلاحات کی وجہ سے خاندان بنواُمیہّ کی عیش و عشرت، آرام طلبی، جاہ و حشمت اور جاگیرداریوں کا تکبر ٹوٹ گیا اور صرف ڈھائی سالہ دور اقتدار میں حضرت عمر بن عبدالعزیز نے دنیا میں ایک ویلفیئر سٹیٹ کی عمدہ مثال قائم کردی جہاں عدل و انصاف، مساوات و برابری، امن و سکون کا دور دورہ تھا اور بادشاہ اور عام آدمی کی معاشرتی اور معاشی زندگی میں کوئی خاص فرق نہ تھا۔
ترک قوم مزاجاً احسان مند ہے۔ کئی عشرے گزرے کہ کبھی تحریک خلافت نے ہندوستان میں جنم لیا تھا مگر ترک قوم آج بھی ہمیں محمد علی جوہر ، بی اماں اور مولانا شوکت علی کی قوم سمجھ کر ہمارے ہاتھ چومتی اور ہمیں بھائی کہہ کر پکارتی ہے۔
ابھی کل کی بات ہے کہ جنرل ضیاء الحق نے ساری پاکستانی قوم کو افغان جہاد میں جھونک دیا اور آخر کار اسی جہادکی بھینٹ چڑھ کر اس جہاں سے کوچ کرگئے۔
امریکہ نے اپنے واحد دشمن سویت یونین کو افغانستان کے سیاہ پہاڑوں میں پاکستان کی مدد سے پھنسایا تو جنرل ضیاء الحق نے امریکہ سے صرف اپنے اور اپنے رفقاء کے بچوں کے بہتر مستقبل کی ضمانت لیکر سارے پاکستان ہی نہیں بلکہ عالم اسلام کے بچوں کامستقبل داوٴ پر لگادیا۔ جنرل ضیاء الحق اور ان کے مشیر چاہتے تو مصر کی طرح امریکی مزاج اور نفسیات سے فائدہ اٹھا کر پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرسکتے تھے مگر صرف چند ادھورے ایف سولہ طیاروں، کروڑوں ڈالر قرض اور امریکہ کی خوشی کی خاطر مرد مومن نے سویت یونین کا خاتمہ کیا تو امریکہ کا نیو ورلڈ آرڈر پھن پھیلا کر سامنے آگیاجس کا پہلا نشانہ ضیاء الحق کی ذات اور ان کا ملک پاکستان بنا۔
سویت یونین کے خاتمے کے بعد دنیا میں سوائے ذات باری تعالیٰ کے کوئی دوسری قوت ایسی نہیں جو امریکی تکبر کا مقابلہ کرسکے اور عالم اسلام کو امریکی اور اسرائیلی قوت اور یلغار سے بچانے کا موجب بنے۔ سویت یونین کی موجودگی میں لیبیا، یمن، عراق، شام اور ایران اسرائیل اور امریکہ کے لئے خطرہ تھے۔ مگرحالیہ اسرائیلی دہشت گردی اورفلسطینیوں کے قتل عام نے ساری اسلامی دنیا کی بے بسی اور مغلوبی عیاں کردی ہے جس کا سہرا جنرل ضیاء الحق کے سر ہے۔

Chapters / Baab of Hilal E Kashmir (Naik Saif Ali Janjua Shaheed) By Anwaar Ayub Raja