8 اکتوبر 2005ء قیامت خیز زلزلہ کے انمٹ نشاں

مظفر آباد ،باغ ،راولاکوٹ ،نیلم میں جہاں جہاں زلزلہ نے تباہی مچائی تھی اور بالا کوٹ صفہ ہستی سے مٹ گیا تھا وہاں متاثر ین غم کی تصویر بننے کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنے کی کوشش کررہے تھے ،اجڑے شہر اور دیہات غموں اور ان کے اثرات کی تصویر بنے ہوئے تھے

پیر 8 اکتوبر 2018

8 october 2005 hamza qayamat khaiz zalzala ke unmit nishaa
 سلیم پروانہ
مظفر آباد
3رمضان المبارک 8اکتوبر 2005کے قیامت خیز زلزلہ سے چند روز قبل دل اور مزاج کی کیفیت بدلی ہوئی تھی ،رشتہ دار،دوست احباب ،تعلق داروں سے جب ملاقات ہوتی توان کی اکثریت کا بات چیت ،ملاقات اور اسمیں ایسے الفاظ کا استعمال برجستہ کرتے جوان کے حصول کا حصہ نہ ہوا کرتا تھا وہ رخصت ہونے سے قبل گرم جوشی کا اظہار کرتے ہوئے نیک تمناؤں کا اظہار کرتے تھے ایسے افراد خواتین کی کمی بھی نہ تھی جو اس مرحلہ پر آبدید ہ ہو جا تے تھے ،اچھے ماحول میں بھی دوران بات چیت موت اور بچھڑنے کا ذکر کر دیتے جسکا ملاقات اور اسکا ماحول تقاضا نہیں کرتا ہے ایسی ساری کیفیت اطراف سے سمجھ سے بالاتر ہوتی تھی ۔


پھر 8اکتوبر 2005 کو تقریباََ صبح جب لوگ یا اپنی تیاریوں میں مصروف تھے یا وفاتر ،کاروباری مراکز کے لیے روانہ ہو چکے تھے کہ زلزلہ کی شدت نے سارا نظام مفلوج کردیا ہر طرف چیخ وپکار تھی بھاری پتھروں ،مٹی کے تودوں ،پول ،بجلی کے بھاری ٹرانسفارمرز کے گرنے سے شہادتوں کے ساتھ بڑی تعداد کو زخمی کرنا شروع کر دیا تھا ،تعلیمی اداروں کے ماحول کا تصور کرکے روح کا نپ اٹھتی ہے ابتدائی مرحلہ میں امداد وبحالی کا کوئی تصور تک نہ تھا جب زخمیوں کو لیکر ہسپتالوں میں پہنچے تو ہسپتال بھی ملبہ کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکے تھے ،بازاروں ،گلیوں میں جگہ جگہ لا شیں پڑی تھیں ،زخمی مدد کے لیے پکار رہے تھے ،انسانیت کے ناطے ڈاکٹر وں ،میڈیکل سٹاف نے جس حد تک ممکن ہوا تھا اپنا مثالی کردار ادا کیا تھا ۔

(جاری ہے)


مختلف مقامات رراستوں کی بندش ،بھاری ملبہ ہو نے کے باعث لوگوں کو اپنی بھر پور کوشش کے باوجود سینکڑوں افراد دم توڑ گئے تھے ،ہزاروں لوگ گھروں کو چھوڑ کر کھلے مقامات پر منتقل ہو گئے تھے ۔بجلی،پانی کا نظام بھی ختم ہو چکا تھا ،قبریں کھودنے کا نہ سامان تھا نہ قر ستانوں میں اس قدر جگہ تھی جو کہ وقت کا تقاضا تھا غم زدہ خاندان بت بنے کھڑے تھے آفٹر شاکس اپنے اثرات مرتب کر رہے تھے ،اپنی مدد آپ کے جذبہ کے تحت لوگ اس قدر کھدائی کر سکے جہاں میت رکھی جا سکے ،انفرادی واجتماعی قبریں تیار کی گئیں اور تد فین کا سلسلہ شروع کر دیا گیا تھا اس مرحلہ پر دارالحکومت مظفر آباد کی وہ روایت بھی دب گئی جس کے تحت لوگوں کی بڑی تعداد نماز جنازہ میں شرکت کیا کرتی تھی ،نہ سب کو غسل دیا جا سکا نہ کفن دستیاب تھا ۔


مظفر آباد ،باغ ،راولاکوٹ ،نیلم میں جہاں جہاں زلزلہ نے تباہی مچائی تھی اور بالا کوٹ صفہ ہستی سے مٹ گیا تھا وہاں متاثر ین غم کی تصویر بننے کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنے کی کوشش کررہے تھے ،اجڑے شہر اور دیہات غموں اور ان کے اثرات کی تصویر بنے ہوئے تھے ،افواج پاکستان زخمیوں کو پاکستان کی مختلف علاقوں کے ہسپتالوں میں پہنچایا گیا جہاں ڈاکٹر وں ،نرسینگ سٹاف اور عوام کا انہیں بے پناہ پیار ملا تھا ۔

جب دنیا کو زلزلہ کی تباہی اور اس کے اثرات کا علم ہوا اور میڈیا نے فوکس کیا تھا پاکستان ،آزاد کشمیر کے محفوظ علاقوں سمیت عالمی برادری نے امداد وسماجی و راشن ،خمیہ جات سمیت بنیادی اشیاء کی فراہمی کے لیے بھر پور تعاون کیا،زلزلہ کے دوسرے روز جناب مجید نظامی چیف ایڈیٹر نوائے وقت نے امدادی ٹرک روانہ کیے جو کہ غیر سرکاری پہلی امداد تھی بعدازاں اداہ نوائے وقت نے متاثرین کے لیے امدادی وسماجی سر گر میاں کرنے کا تسلسل بحال رکھا،افواج پاکستان ،ڈاکٹروں این جی اوز سمیت نہ صرف ساری قوم نے امدادی سر گرمیوں میں حصہ لیا بلکہ امریکہ ،برطانیہ ،سعودی عرب ،عرب امارات ،یورپی یونین ،افریقہ ،سمیت درجنوں ممالک نے بحالی و امداد کے کاموں ،مریضوں کے علاج و معالجہ ،میڈیسن کی فراہمی کے لیے متاثر کن کردار ادا کیا ،پرویز مشرف نے دنیا کو متاثر ین کی امداد کے لیے رسائی وی تھی اور کئی دورے بھی کیے تھے اسطرح بین الا قوامی شخصیات ،پاکستان کے تمام سیاسی ،دینی حکومتی ،تجارتی شخصیات اور تمام شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں نے زلزلہ کے متاثرین کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھتے ہوئے تعاون کیا جسکو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا ۔


اس وقت آزاد کشمیر کے وزیر اعظم سردار سکندر حیان خان تھے جو سانحہ پر بہت غمزدہ تھے ۔انہوں نے محفوظ علاقوں سے سرکاری عملہ کو بلا کر لوگوں کو ہر ممکن سہولیات فراہم کرانے کی کوشش کی زلزلہ کی تباہی واثرات سے لوگوں کی اکثریت متاثر تعلق ہوئی تھی ایک مرحلہ پر حکومت اور اس کی انتظامیہ کاتعلق تک ختم ہو گیا تھا ۔انسانیت کی قدر کرنے اور اس سے پیار کرنے والی کئی شخصیات ہمیشہ عزت سے یاد رکھی جائیں گی۔

ہزاروں افراد ہبرت کرنے اور دوسرے مقامات پر منتقل ہو گئے ۔زلزلہ کے دوران کئی گاڑیاں ملبہ میں دب کر لا پتہ ہو گئیں ۔افراد کا علم نہ ہو سکا کہ وہ کہاں ہیں اور ایسے بیرونی گروپ بھی متحرک ہو گئے جو کہ ہمدردی کی آڑ میں بچ جانے والی درجنوں خواتین کو لے گئے جو 13برس گزرنے کے باوجود آج بھی لا پتہ ہیں ۔
زلزلہ سے متاثرہ جن خاندانوں کی لاشیں نہ ملیں ان کے زخم ہر وقت ہر رہتے ہیں ۔

ان کا یہ سوال دل ہلانے کے لئے بہت ہے کہ وہ کس کی قبر پر دیا جائیں ۔شہداء کے قبرستان بھی بن گئے ۔بستیاں اجڑ گئیں تھیں ۔اس سارے ماحول میں غمزدہ خاندانوں کی جو حوصلہ افزائی کی گئی اتنے بڑے سانحہ کا کسی کا تصور تک نہ تھا ۔2005ء کے قیامت خیز زلزلہ میں آزاد کشمیر کے46570افراد شہید ہوئے تھے ۔دولاکھ سے زائد رخمی اور لاکھوں کی تعداد میں متاثر ہوئے تھے ۔

سر کاری وپرائیویٹ سیکٹر میں 125ارب سے زائد کا نقصان ہوا تھا 7742سرکاری عمارات ‘شاہرات 3000سے زائد تعلیمی ادارے زمین بوس ہو گئے تھے ۔13برس گزرجانے کے باوجود 2لاکھ سے زائد بچے موسمی اثرات کا شکار ہو کر بغیر چھت کے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں ۔
تعلیم نو کے کاموں کے لئے سیرانے 1912-13میں 16ارب روپے فنڈز کی فراہمی کے لئے تحریک کیا اس کے بدلہ انہیں ساڑھے تین ارب روپے فراہم کئے گئے 2013-14ء میں 14ارب کی ڈیمانڈ جبکہ ڈیڑھ ارب روپے ادا کئے گئے ۔

۔2014-15ء میں 10روپے کی دیمانڈ کی گئی جبکہ 77کروڑ روپے دئیے گئے ۔20-15-16ارب کی ڈیمانڈ کے عوض ایک ارب 4کروڑ دئیے گئے 2016-17میں 8ارب کی ڈیمانڈ کے عوض 99 کروڑ کی رقم ریلیز کی گئی ۔2017-18 میں 9ارب کی ڈیمانڈ کے عوض ایک ارب 15کروڑروپے دئیے گئے جبکہ 1918-19میں ساڑھے ارب کی ڈیمانڈ کے عوض صرف 42کروڑ روپے ادا کئے گئے ہیں ۔
ایک تو ڈیمانڈ کے مطابق رقم اجراء نہ کرنے سے کئی منصوبے التواء کا شکار ہیں اور سینکڑوں پر کام ہی شروع نہیں کیاسکا ۔

متاثرین زلزلہ کے تعمیراتی منصوبوں کی رقم میں سے 55ارب روپے پہلے کسی اور مد میں منتقل کئے گئے تھے ۔جبکہ 40ارب روپے مزید بھی ایسی پالیسی کی نذر ہوئے ہیں ۔اس طرح بیرونی دنیا نے آزاد کشمیر کے پراجیکٹس کی تعمیر کیخلاف پاکستان کو جو رقم فراہم کی تھی اس میں سے 55ارب یک ساتھ 40ارب مزید کل 95ارب روپے منتقل کئے گئے ہیں ۔یہ رقوم قانون کی منشاء کے بھی خلاف ہے ۔

45ارب روپے کی رقم فراہم کی جانے چاہئے تاکہ زیر التواء اور زائد تکمیل پراجیکٹس کی تعمیر ممکن ہو سکے اور لوگوں کی مشکلات کا خاتمہ ہو سکے ۔
سیرانے 265دیگر منصوبوں جن میں تعلیم صحت کے شعبوں کوترجیحی دی گئی ہے کے لئے منصوبہ بندی کی ہے ۔فنڈز کی فراہمی سے ہی ان مصنوبوں کا خواب حقیقت کا روپ دھار سکتا ہے ۔متاثرین مکانات وغیرہ میں 50ارب روپے بذریعہ چیک فراہم کئے گئے تھے ۔آج آزاد کشمیر کا دارالحکومت جن خوبصورت عمارتوں ‘پلازوں اور جدید طرز پر استوار ہے اس کا 13برس قبل تصور نہیں کیا جا سکتا تھا
۔بیرونی امداد سے پلازے سرکاری دفاتر اور ہسپتال قائم ہیں ان میں جن سہولیات کا فقدان ہے اس کو پورا کرنا ناگزیر ہے۔سہولیات کے حوالے سے کوئی منظم منصوبہ بندی نہیں کی گئی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

8 october 2005 hamza qayamat khaiz zalzala ke unmit nishaa is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 08 October 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.