اعلیٰ عدلیہ کو شجر سایہ دار کا درجہ ملنا چاہئے

آسیہ کیس میں عدالتی فیصلہ انتہائی بصیرت افروز ہے

بدھ 14 نومبر 2018

aala adliya ko shajar saya daar ka darja milna chahiye
 خالد جاوید مشہدی
یہ مقام شکر ہے کہ اس افسوس ناک تاثر کے خلاف کہ پاکستان کے بیشتر ادارے ناقابل رشک صورتحال کی تصویر ہیں ۔عدلیہ اپنا بھرم اور بڑا پن بر قرار رکھے ہوئے ہے جن اداروں کو شجر سایہ دار کا درجہ ملنا چاہئے ان میں یقینا ہماری عدلیہ بھی شامل ہے ۔آسیہ کیس انتہائی آزمائش کا کیس تھا یقینا جو لوگ فیصلے سے ناخوش ہوئے اور احتجاج پر اتر آئے ان کے خلوص اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ محبت میں کوئی شبہ نہیں ۔


مگر ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے مسلمان ججز نے جو عصری اور دینی تعلیمات سے بدرجہ اتم بہرہ ور ہیں انتہائی عرق ریزی سے کیس کی پیچیدہ گتھیوں کو سلجھایا اور قرآنی آیات ‘فرامین رسول پر نور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عاشق نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے اشعار سے مزین فیصلہ سنایا ۔

(جاری ہے)

اس پر اعتبار نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ۔


محترم ججز بھی صورتحال کی حساسیت سے پوری طرح آگاہ تھے ۔اس کے باوجود انہوں نے فیصلہ سنایا تو اسے ہدف تنقید بنانے کی بجائے آئین اور قانون کے ماہرین کی آراء پر اعتماد کیا جانا چاہئے اور محترم چیف جسٹس نے بجا طور پر کہا ہے کہ وہ صرف مسلمانوں کے نہیں سب مذاہب کے پیروکاروں کے قاضی بھی ہیں ۔
پاکستان کی عدلیہ اپنے جن منصفوں پر ناز کرتی ہے ان میں دو بڑے نام چیف جسٹس آف پاکستان ‘جسٹس کارنیلن اور قائم مقام چیف جسٹس بھگوان داس غیر مسلم تھے مگر ان کے فیصلوں میں کبھی ”غیر مسلمی “کی جھلک نہیں پائی گئی۔


یہ امر غنیمت ہے کہ ماتحت عدالتیں کبھی اگر معاشرتی دباؤ یا دوسرے عوامل سے متاثر ہو کر ایسے فیصلے سنا دیتی ہیں جن پر کامل اطمینان کی صورت نہیں بنتی تو ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کی بڑی چھلیناں موجود ہیں جن سے گزر کر چھان پھٹک ہوجاتی ہے ۔
اس حوالے سے ایک بہترین مثال مختار مائی کیس ہے جس میں ماتحت عدالت کے فیصلے سے بے گناہ افراد موت کی سزا سے بال بال بچے ۔

تا ہم 9سال تک قیدوبندکی صعوبتیں برداشت کرتے رہے ۔اس واقعہ کا قدرے تفصیلی ذکر مناسب ہوگا۔
30جون 2002کو درج ہونے والی ایف آئی آر کے مطابق ضلع مظفر گڑھ کی تحصیل جتوئی کے قصبہ میر والا میں ایک پنچایتی فیصلے میں ”عزت برائے عزت “کے قانون کے تحت مختار مائی نامی ایک لڑکی سے زیادتی کی گئی۔جس کا مرتکب عبدالخالق مستوئی تھا ۔اس واقعہ پر ملکی اور عالمی میڈیا نے آسمان سر پر اٹھالیا۔

بیرونی حکومتوں نے بھی آوازیں اٹھائیں ۔
یہ واقع جون 2002 کے پہلے ہفتے کے دوران ہوا تا ہم مقدمہ بازی کی روایت کے مطابق خاندان کے 5مزید افراد بھی ایف آئی آر میں نامزد کر دےئے گئے ۔پنچایتیوں سمیت ملزموں کی تعداد 14تھی ۔پولیس نے یہ کمال دکھایا کہ ایف آئی آر میں غلام حسین نامی ایک شخص نامزد تھا وہ نہ ملا تو غلام حسین نام کا ایک اور شخص نفری پوری کرنے کے لئے پکڑ لیا جس کا اس کیس سے دور کا بھی تعلق نہ تھا اور ولدیت بھی مختلف تھی ۔


یہ مشرف دور کا واقع ہے اور گورنر پنجاب جنرل خالد مقبول نے جو عالمی دباؤ کے تحت اس روز میر والا آرہے تھے پولیس کو الٹی میٹم دیا تھا ۔ان کے آنے سے قبل تمام ملزم گرفتار کر لئے جائیں ۔شکر ہے کہ خصوصی عدالت نے مہربانی کی اور جہاں 6افراد کو سزائے موت سنا دی وہاں مذکورہ غلام حسین سمیت 8افراد کو بری کر دیا۔30اگست 2002کو یہ فیصلہ سنایا گیا۔

بعدازاں ہائیکورٹ نے 3مارچ2005کو یہ فیصلہ کا لعدم قرار دے کر عبدالخاق ولدامام بخش مستوئی کو عمر قید کی سزادی اور باقی افراد کو بری کر دیا۔
اس وقت مختار مائی جو ایک طاقتور شخصیت کاروپ دھار چکی تھی اور ایس پی سمیت مظفر گڑھ پولیس اس کے نام سے کانپتی تھی اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز سے ملی اور ملزموں کی دوبارہ گرفتاری کا مطالبہ کیا جس پر یہ تمام افراد اندیشہ نقص امن کے تحت دوبارہ گرفتار کرلئے گئے ۔

اسی دوران فیڈرل شریعت کورٹ نے ازخود نوٹس لے کر یہ کیس اپنے پاس لے لیا اور ہائیکورٹ کا فیصلہ کا لعدم قرار دے دیا اور اس طرح دوآئینی اداروں میں تصادم کی نوبت آگئی ۔
اس پر سپریم کورٹ نے 28جون 2005کو کیس خود سنبھال لیا اور 21اپریل 2011 کو فیصلہ سنادیا جس کے نتیجے میں تمام افراد تو بری ہو گئے مگر 9سال کی بے گناہ قید کے دوران کئی خاندان اجڑ گئے ۔

ڈھورڈنگر مویشی ختم ‘فصلیں برباد ہو گئیں ۔جہاں تک آسیہ کیس کا تعلق ہے اس میں بھی ملز مہ آسیہ کے خلاف 19جون 2009کو ایف آردرج ہوئی جس کے نتیجے میں اسے گرفتار کیا گیا اور 31اکتوبر2018کو سپریم کورٹ نے اس کی اپیل کا فیصلہ کرتے ہوئے اسے بے گناہ قرار دیکر رہا کر نے کا حکم دیا۔
اس طرح گویا اس نے بھی 9سال جرم بے گناہی میں قید وبند میں گزارے ۔ایک اور پہلو بھی قابل ذکر ہے کہ تو ہین رسالت قانون کے تحت اب تک کسی کو با ضابطہ عدالتی عمل کے ذریعے موت کی سزا نہیں دی گئی جبکہ 62افراد کو ماورائے عدالت قتل کیا جاچکا ے ۔


مقدمات میں نامزدافراد میں 80فیصد مسلمان تھے ۔آسیہ کیس میں عدالتی فیصلہ انتہائی بصیرت افروز ہے ۔اس کو تمام میڈیا میں پوری تفصیل سے شائع کیاجائے خصوصاً چیف جسٹس کھوسہ کا علیحدہ نوٹ چشم کشا اور سوچ کے لئے ان گنت گوشے بے نقاب کرتا ہے ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کی خطائیں اور لغزشیں
 معاف کرے اور رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں روز قیامت اپنی شفاعت کے قابل گردانیں۔
 (آمین)

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

aala adliya ko shajar saya daar ka darja milna chahiye is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 14 November 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.