
امریکہ شمالی کوریا کے انقلاب میں بڑی رکاوٹ
نومنتخب صدر جوبائیڈن کو کوریائی قیادت کی تنبیہ کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے
جمعہ 29 جنوری 2021

کیا شمالی کوریا سے متعلق امریکی پالیسیوں میں کوئی تبدیلی آئے گی؟یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن کم جونگ ان کا جوہری اور میزائل پروگرام کو آگے بڑھانے کا عزم اور امریکہ کو اپنے ملک کا سب سے بڑا دشمن قرار دینا کسی بڑے خطرے سے خالی نہیں ہے،یہاں یہ بھی واضح رہے کہ کم کا یہ بیان نومنتخب امریکی صدر جوبائیڈن کے رواں ماہ منصب سنبھالنے سے چند ہی روز قبل سامنے آیا ہے۔شمالی کوریا جوہری ہتھیاروں کو مزید چھوٹا اور کم وزن کرکے ٹیکنیکل جوہری اسلحہ بنا کے ساتھ ساتھ انتہائی بڑے جوہری ہتھیاروں کی پائیدار بنیادوں پر پیداوار کو عملی جامہ پہنائے گا،یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ شمالی کوریا بیلسٹک میزائلز پر کثیر تعداد میں وار ہیڈز نصیب کرنے اور ٹھوس ایندھن والے بین البراعظمی بیلسٹک میزائلز کی تیاری کی جانب پیشرفت کر رہا ہے۔
(جاری ہے)
عالمی اقتصادی پابندیوں اور تمام تر مخالفت کے باوجود شمالی کوریا کی نئی حکمت عملی امریکہ،اس کے اتحادیوں اور اقوام متحدہ کے لئے درد سر بنی ہوئی ہے اور ناقدین کے مطابق شمالی کوریا کے حالیہ ایٹمی تجربات بھی دراصل جنوبی کوریا میں امریکہ کی طرف سے دفاعی میزائل نصب کرنے کا ردعمل ہو سکتے ہیں۔امریکہ شمالی کوریا کی طرف سے ممکنہ خطرات سے نمٹنے کیلئے جنوبی کوریا میں دفاعی نظام نصب کرنے کی تیاری میں مصروف ہے۔سامراج آج شکست خوردہ ہے اور وہ رجعتی طاقتوں کا سہارا لے کر آگے بڑھ رہا ہے کیونکہ ان نام نہاد سپر طاقتوں کے پاس امن کا کوئی فارمولا نہیں ہے۔شمالی کوریا کا حالیہ میزائل تجربے کے حوالے سے کہنا ہے کہ یہ ہر طرح سے قانونی تھا اور یہ قدم اس نے اپنی سکیورٹی کے سلسلے میں بین الاقوامی ضابطوں کے تحت اٹھایا ہے لہٰذا اس سلسلے میں امریکہ نے بلاوجہ نکتہ چینی کی ہے جو ان کے ملک کی سالمیت اور خود مختاری کے خلاف ہے لہٰذا جب تک امریکہ شمالی کوریا کے خلاف معاندانہ رویہ روا رکھتے ہوئے نیو کلیائی حملے کی دھمکیاں دے کر بلیک میل کرتا رہے گا تب تک وہ دفاعی صلاحیت میں اضافہ کی سمت قدم اٹھاتے رہیں گے۔شمالی کوریا کے ایٹمی تجربات کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک بھی موٴثر جوابی اقدامات پر متفق رہے ہیں تاکہ اقتصادی پابندیاں عائد کرکے شمالی کوریا کو تنہا کر دیا جائے۔امریکہ نے ماضی میں بھی کوریا کے رہنما کم جونگ پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام لگا کر پابندیاں عائد کروائی تھیں اور اب موجودہ تناظر میں شمالی کوریا کی طرف سے بارہا یقین دہانی کے باوجود کہ جوہری ہتھیاروں کو فروغ دینے کا مقصد صرف اپنی حفاظت کو یقینی بنانا ہے اور یہ کہ وہ ان ہتھیاروں کے استعمال میں پہل نہیں کریں گے پھر بھی امریکہ کی طرف سے پابندیاں لگانے کا عندیہ دینا لمحہ فکریہ سے کم نہیں تھا۔
شمالی کوریا نے گزشتہ 12 برس میں ایک اندازے کے مطابق 6 کے لگ بھگ ایٹمی تجربات کئے لیکن بیلسٹک میزائل تجربہ کے بعد حالات مزید کشیدگی کی طرف مائل ہوتے گئے کیونکہ یہ میزائل داغے جانے کے 30 منٹ بعد تقریباً 7 سو کلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے بحیرئہ جاپان میں گرا تھا،یہ مقام شمالی کوریا کے مشرقی ساحل سے 4 سو کلو میٹر کے فاصلے پر ہے اس میزائل تجربے کا مقصد بڑے پیمانے پر نیو کلیائی اسلحہ لے جانے کی صلاحیت کی تصدیق کرنا تھا۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی شمالی کوریا کے میزائل تجربات کی مذمت کرتے ہوئے تنبیہ کی تھی کہ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی ٹیکنالوجی کا فروغ سخت کشیدگی کا باعث بن رہا ہے لہٰذا آئندہ سے ہر طرح کے میزائل اور ایٹمی تجربات کرنے سے گریز کیا جائے،یہاں یاد رہے کہ یہ تنبیہ ایک ایسے وقت میں کی گئی تھی کہ جب امریکہ،جنوبی کوریا اور ان کے اتحادیوں کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کی وجہ سے شمالی کوریا ایٹمی تجربات کی تیاریوں میں مصروف تھا۔خطے میں بڑھتی ہوئی امریکی مداخلت کئی ممالک کی سلامتی کیلئے خطرے کا ایک پیغام بن چکی ہے جس سے چین بھی اب تشویش کا شکار ہے کیونکہ امریکہ شمالی کوریا کی جانب سے سنجیدہ دھمکیوں کے بعد اپنے اتحادیوں کے ساتھ کھڑا رہنے کے عزم پر قائم ہے۔سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس تجربے کے بعد شمالی کوریا پر سخت پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ بھی کیا تھا لیکن شمالی کوریا نے امریکی دھمکیوں اور اقوام متحدہ کی طرف سے ممکنہ لگائی جانے والی سخت پابندیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یہ تجربہ کیا۔امریکہ اور جنوبی کوریا کا شروع دن سے ہی یہ موٴقف رہا ہے کہ شمالی کوریا کی جانب سے بڑھتے خطرات کے پیش نظر میزائل شکن دفاعی نظام کی تنصیب جیسے اقدامات کرنے اشد ضروری ہیں کیونکہ اقوام متحدہ کی جانب سے پابندیوں کے باوجود پیانگ یانگ نے کئی ایٹمی تجربات کئے ہیں۔
جنگ و جدل کی یہ تباہ کاریاں ہی ہیں کہ قدرتی وسائل کے باوجود کئی ممالک انتہائی غربت کا شکار ہیں جن میں کانگو،لائبیریا،زمبابوے، برونڈی،ایرٹیریا،سنٹرل افریقین ریپبلک،نائیجر،سری الیون،ملاوی،ٹوگو،مڈاغسکر،افغانستان اور دیگر کئی ممالک شامل ہیں۔امریکہ اسلحے کی فروخت میں سب سے بڑا ملک ہے جو عالمی سطح پر بیچے گئے ہتھیاروں کا 36 فیصد حصہ فروخت کرتا ہے۔2009ء سے 2013ء کے مقابلے میں دنیا بھر میں 2014ء سے لے کر 2018ء تک ہتھیاروں کی تجارت میں تقریباً 8 فیصد اضافہ ہوا،مجموعی طور پر ایک سو سے کچھ کم ممالک کو ہتھیار فروخت ہوئے جبکہ مجموعی طور پر ان ہتھیاروں کا نصف حصہ مشرق وسطیٰ کے ممالک کوفروخت کیا گیا۔امریکہ کے ہر چار ہتھیاروں میں سے ایک سعودی عرب نے خریدا ہے۔ایک طرف اسلحے کی گھن گرج جاری ہے لیکن دوسری طرف غربت میں بڑی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔خوراک میں کمی واقع ہونے سے قیمتی جانیں ضائع ہو رہی ہیں اور اب خدشات یہ ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ تمام دنیا میں خوراک کی کمی کا سنگین مسئلہ درپیش ہو گا۔دنیا کی 8 ارب کے لگ بھگ آبادی میں جہاں 1.4 ارب لوگ انتہائی کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں،انسانی ذہن یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ بھوک و افلاس مٹانے کی بجائے جنگ کی تباہ کاریوں کو دعوت کیوں دی جا رہی ہے؟کیونکہ ایک طرف اسلحے کے ڈھیر لگانے سے جنگ کے سائے منڈلا رہے ہیں جبکہ دوسری طرف امن کی باتیں ہو رہی ہیں۔ امریکہ نے ماضی کی طرح اگر سخت پالیسیاں اپنائیں تو اس کا بھیانک رد عمل سامنے آئے گا،لہٰذا یہاں ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ دیرپا پالیسی صرف ایک ہی ہے کہ ”جیو اور جینے دو“۔جنگ تباہی اور موت کی علامت ہے چاہے وہ کسی بھی نام سے ہو۔انسانی حقوق کا واویلہ مچانے والے واقعی اگر اپنے دعووں میں سچے ہیں تو انہیں محاذ آرائی سے اب گریز کرنا ہو گا۔چین جوکہ شمالی کوریا کا واحد بڑا اتحادی ہے اس نے بھی شمالی کوریا کو نظم و ضبط سے کام لینے کی طرف اشارہ کیا ہے،حالیہ بیان سے شمالی کوریا یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ وہ جنوبی کوریا ہی نہیں بلکہ جاپان اور امریکہ کو بھی نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے لہٰذا یہاں چھوٹی سی غلطی بڑی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہو گی ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ نومنتخب امریکی حکومت ٹرمپ کی جارحانہ پالیسیوں کا جائزہ لیتے ہوئے ایسے اقدامات کرے کہ جس سے خطے میں قیام امن کی کوششوں کو زائل ہونے سے بچایا جا سکے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
متعلقہ مضامین :
مضامین و انٹرویوز کی اصناف
مزید مضامین
-
ٹکٹوں کے امیدواروں کی مجلس اورمیاں نواز شریف کا انداز سخن
-
ایک ہے بلا
-
عمران خان کی مقبولیت اور حکومت کو درپیش 2 چیلنج
-
”ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن پلان“ کسان دوست پالیسیوں کا عکاس
-
بلدیاتی نظام پر سندھ حکومت اور اپوزیشن کی راہیں جدا
-
کرپشن کے خاتمے کی جدوجہد کو دھچکا
-
پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا عزم
-
کسان سندھ حکومت کی احتجاجی تحریک میں شمولیت سے گریزاں
-
”اومیکرون“ خوف کے سائے پھر منڈلانے لگے
-
صوبوں کو اختیارات اور وسائل کی منصفانہ تقسیم وقت کا تقاضا
-
بلدیاتی نظام پر تحفظات اور سندھ حکومت کی ترجیحات
-
سپریم کورٹ میں پہلی خاتون جج کی تعیناتی سے نئی تاریخ رقم
مزید عنوان
America North Korea Ke Inqelab Main Bari Rukawat is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 29 January 2021 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.