کووڈ19-کا المیہ اور سرمایہ داریت کا بدترین چہرہ

سرمایہ داریت کی اصل بنیاد دولت و طاقت کی نامساوی تقسیم ہے۔اس نے وبا کے ابتدائی دور میں ہی لاک ڈاون کو نافذ نہیں کیا چونکہ لاک ڈاون کاروبار کو متاثر کرتا ہے اور گلوبلائزیشن کے ماڈل کو نقصان پہنچاتا ہے

جمعہ 1 مئی 2020

covid 19 ka almiya aur sarmaya dariat ka bad tareen chehra
تحریر: محمد عارف الدین

کووڈ19کی وبا ء جہاں پوری دنیا کو عالمی سانحہ کی جانب دھکیل رہی ہے، وہیں اس نے سرمایہ داریت کی بدترین صورتوں کو سامنے لاکھڑا کیا ہے جیسے شدید نابرابری،بھوک اور مفلسی، امیرترین لوگوں کے لئے ریلیف پیکیج کی شکل میں تیز و تند راحت رسانی، کمرتوڑ بے روزگاری اور صحت عامہ کا سنگین بحران۔

سرمایہ داریت کی اصل بنیاد دولت و طاقت کی نامساوی تقسیم ہے۔اس نے وبا کے ابتدائی دور میں ہی لاک ڈاون کو نافذ نہیں کیا چونکہ لاک ڈاون کاروبار کو متاثر کرتا ہے اور گلوبلائزیشن کے ماڈل کو نقصان پہنچاتا ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام اپنے ملازمین کو جانتے بوجھتے انفیکشن کی زد میں لاکھڑا کرتا ہے، صرف اس وجہ سے کہ اس کی روزمرہ کی تجارتی سرگرمیاں متاثرنہ ہوں۔

(جاری ہے)


اپنی خامیوں سے پرُ پالیسیز کی آڑمیں وہ اپنے ملازمین کو جب چاہے بے دخل کردیتا ہے یا انھیں جبر ۱ چھٹی پر بھیج دیتا ہے۔ ا ن کی صحت کے مسائل سے مکمل بے پرواہ ہوکر انھیں تمام سہولیات او ر انشورنس سے محروم کردیتا ہے۔ یہ انسانی جانوں کی حفاظت کرنے کے لئے وینٹی لیٹر اور دیگر حفاظتی سازوسامان فراہم نہیں کرسکتادراں حالیکہ اپنے کارپوریٹ سماجی ذمہ داری (Corporate Social Responsibility-CSR) پر اسے ناز بھی ہے۔

متمول طبقے کے لئے بغیر کسی علامت کے ٹیسٹ کروانا آسان ہوجاتا ہے، جبکہ غریبوں کو "مخصوص طے شدہ طریقہ کار"سے ہی گزرنا پڑتا ہے۔
یہ کہانی آپ کو ہر جگہ نظر آجائے گی۔ ایسی متعدد اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ صحت انشورنس (Health Insurance)نہ ہونے کی بناء پر لوگوں کو فوری نگہداشت اور علاج سے انکار کردیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ صرف ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں 47ملین افراد صحت انشورنس سے محروم ہیں جس کی وجہ سے ہر سال تقریباََ 18 ہزار اموات واقع ہوجاتی ہیں ۔

ترقی پذیر ممالک بالخصوص جنوبی ایشیائی ممالک میں صحت عامہ کا مناسب نظام بھی موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے ہر سال تقریباً60 لاکھ لوگ لقمہ اجل بن جاتے ہیں
  یہ ممالک دفاع اور فوجی ضروریات پر ہر سال اربوں ڈالرس خرچ کردیتے ہیں، لیکن صحت عامہ پر ان کی سرمایہ کاری کافی کم ہوتی ہے۔ کووڈ 19 کی وبا ء نے پوری دنیا میں صحت عامہ کے نظام کی خستہ حالی سے پوری طرح سے پردہ اٹھا دیا ہے۔

صحت عامہ کا نظام کوئی آسائش نہیں ہے بلکہ یہ ایک بنیادی انسانی حق ہے جس کو ’انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ‘ میں درج کیا گیا ہے۔ تاہم، صحت کی دیکھ بھال کرنے والی خدمات کی نجکا ری نیز ان خدمات کی کھلے عام فروخت اور ساتھ ہی نجی انشورنس کمپنیز کی بھرمار، یہ تمام بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہیں اور صحت عامہ کے شعبہ میں عدم مساوات کا سبب بھی۔

سرمایہ دارانہ نظام کے ''صحت عامہ کے لئے جدید ترین نظام'' کے وعدے کے باوجودکورونا وائرس کی ویکسین تیار نہیں ہو سکی، کیونکہ دوا ساز کمپنیاں تحقیق کی بجائے اشتہارات اور مارکیٹنگ پر زیادہ خرچ کرتی ہیں۔ اسی کے ساتھ،اسپتالوں میں مناسب انفراسٹرکچر، وینٹی لیٹر اور حفاظتی سازوسامان جیسے آلات کی کمی ہمارے ہیلتھ کیئر سسٹم کی کوتاہیوں کو اجاگر کرتی ہیں، جس کی وجہ سے نہ صرف مریضوں کو بلکہ صحت عامہ کے لئے سرگرم کارکنوں (ڈاکٹرس، نرسیس وغیرہ) کو بھی شدید نقصان پہنچتا ہے۔

صرف اسپین میں ہی ایسے 27ہزار کارکن کئی ہفتوں تک بہتر منصوبہ بندی اور حفاظتی اشیاء کی درخواست کرتے ہوئے اس وائرس کا شکار ہوگئے
ہندوستان و پاکستان میں صورت حال مزید سنگین ہے، یہاں ڈاکٹر اور نرسوں کو بارش کے کوٹ اور بِن بیاگس کا استعمال کرنا پڑ رہا ہے۔
 اسی کے ساتھ آئی پی آر کی بالادستی (دانشورانہ املاک کے حقوق) اس مسئلہ کو مزید دشوار کن بنادیتی ہے، خاص طور پر ترقی پذیر ممالک کے لئے جہاں زندگی بچانے والی دوائیوں اور سامان کا حصول انتہائی کٹھن اور مشکل ترین کام ہے۔

کووڈ ا19 کے بحران نے صحت عامہ کی خدمات میں معاشرتی تفاوت کو بھی بے نقاب کردیا ہے، جہاں دنیا کی 80 فیصد آبادی کے لئے کسی قسم کا سماجی تحفظ (Comprehensive Social Protection) میسر نہیں ہے۔ سماج کے دبے کچلے طبقات اور معاشی طور پر پسماندہ طبقات تئیں معاشرتی بھیدبھاؤ کی کئی مثالیں حکومتی اداروں کی سطح پر دکھائی دے رہی ہیں۔ این ایچ ایس (نیشنل ہیلتھ سروس) کی ایک رپورٹ کے مطابق، برطانیہ کے کووڈ19سے متاثرہ شدید بیمار لوگوں میں ایک تہائی کا تعلق سیاہ فام اور نسلی اقلیتی طبقات سے ہے
 اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام عام انسانی زندگی کی پرواہ نہیں کرتا کیونکہ وہ اپنے منافع کو ہر چیز کے اوپر رکھتا ہے۔

یہ فطری طور پر استحصال کرنے والا اور محنت کش طبقہ کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرنے والا نظام ہے۔ یہ ایک وبائی بیماری کے بیچ انسانی جانوں کی قیمت پر، ’نفع کمانے کے مواقع‘ تلاش کرتا ہے۔ آج، دنیا بھر میں لاکھوں کارکنان اس وائرس کا شکارہیں کیونکہ وہ نہ تو بیماری کی رخصت کے مستحق ہیں، اور نہ ہی کام سے غیر حاضر رہنے کے متحمل۔ لاک ڈاؤن پر مجبور، سرمایہ دارانہ معیشتیں اب دوبارہ کھلنے اور منافع کمانے کے لئے بے چین ہو رہی ہیں۔

اب جبکہ اس وبائی بیماری کے خاتمہ کا وقت غیر یقینی ہے، وقت آگیا ہے کہ اس بات پر سوال اٹھائے جائیں کہ سرمایہ دارانہ نظام دنیا کے لئے کس قدر مناسب ہے۔ اس مقصد کے لئے، خیرات میں دی جانے والی کوئی بھی رقم اس کی خامیوں کو چھپا نہیں سکتی ۔ تاہم اسی کے ساتھ، ہمیں بھی ''سرمایہ داری کے مقابلہ میں سوشلزم'' والے مباحثے سے آگے بڑھنا چاہئے، سرمایہ دارانہ ونیز سوشلسٹ دنیا،دونوں کے تجربات سے سبق سیکھنا چاہئے اور مزید انسانیت پسند، انصاف پسند، اور جمہوری عالمی نظام کی سمت کام کرنا چاہئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

covid 19 ka almiya aur sarmaya dariat ka bad tareen chehra is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 01 May 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.