ڈاکٹر عافیہ نے جنوری میں پاکستان آنا تھا اگر نہیں آئی تو وزیراعظم جواب دیں

سوشل میڈیا پر عافیہ صدیقی کو پاکستانی سفارتخانے کے حوالے کیے جانے کی خبروں کے بعد نوائے وقت کا’’ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی‘‘ سے رابطہ

جمعہ 22 مارچ 2019

DR Afia ne January mein Pakistan ana tha agar nahi aayi to wazeer e azam jawab dain
عنبرین فاطمہ
آج کل سوشل میڈیا پر’’ ڈاکٹر عافیہ صدیقی ‘‘کی رہائی کی کہانیاں چل رہی ہیں سوشل میڈیا پر تو یہاں تک لکھ دیا گیا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو پاکستانی سفارتخانے کے حوالے کر دیا گیا ہے ۔بات یہیں پر نہیں رکی بلکہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کااکائونٹ بنا کر وزیراعظم عمران خان کا شکریہ بھی ادا کر دیا گیا ۔اس حوالے سے جب ہم نے معتبر اور باخبر حلقوں سے رابطے کئے تو ابھی تک حقیقت اس کے برعکس پائی ہے۔

ڈاکٹر عافیہ کے پاکستان آنے کے حوالے سے زیادہ ہلچل اس وقت مچی جب تجزیہ نگار ’’ڈاکٹر اوریا مقبول جان‘‘ نے ٹی وی پر دعوی کیا کہ عافیہ صدیقی آئندہ چند روز میں رہا ہوجائیں گی۔ انہوں نے ان اطلاعات کے لیے کراچی میں مقیم عافیہ موومنٹ کے الطاف شکور اور افغانستان میں اپنے رابطوں کا حوالہ دیا۔

(جاری ہے)

اسی دوران سوشل میڈیا پر یہ خبریں پھیل گئیں کہ عافیہ صدیقی 16 مارچ کو پاکستان آرہی ہیں۔

اوریا مقبول جان نے پروگرام کے دوران ہی عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی سے فون پر رابطہ کرکے پوچھا کہ کیا، کیا حکومت کی جانب سے عافیہ کی واپسی کے حوالے سے خاندان کے ساتھ رابطہ کیا گیا ہے تو فوزیہ صدیقی نے تردید کی۔ ’’نوائے وقت‘‘ نے جب فوزیہ صدیقی سے رابطہ کیا تو ان کا لہجہ کا فی تلخ تھا انہوں نے پہلی بار تلخ لہجے سے بات کی ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے وہ شدید غم و غصے میں ہیں انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے جنوری میں پاکستان آجا نا تھا اگر وہ ابھی تک نہیں آئیں تو اس کی وجہ موجودہ حکومت ہے ،یہ رکاوٹ بنی ہوئی ہے اور نہیں چاہتی کہ عافیہ پاکستان واپس آئے وزیراعظم عمران خان جگہ جگہ جلسے اور تقریبات میں خطاب کرتے ہیں لیکن انہوں نے ڈاکٹر عافیہ کی واپسی کے حوالے سے کہیں کوئی بات نہیں کی ،عمران خان سے سوال پوچھا جانا چاہیے کہ عافیہ جنوری میں پاکستان آرہی تھیں تو کیا وجہ بنی کہ ابھی پاکستان نہیںا ٓسکیں ؟۔


ڈاکٹر عافیہ کے کیس کو لیکر ہم ماضی کے جھروکوں میں جھانکیں تو سب سے پہلے اوبامہ دور کی بات کرتے ہیںاوبامہ نے 2016 میںخواتین کی معافی کا اعلان کیا اور کہا کہ وہ اپنا اقتدار چھوڑنے سے پہلے جیلوں میں قید 300خواتین کی رہائی کا حکم دیں گے انہوں نے ایسا ہی کیا اور ڈیڑھ سو سے زائد خواتین کا رہا بھی کیا گیا جو مختلف جرائم میں قید کاٹ رہی تھیں لیکن رہائی پانے والی خواتین کی فہرست میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا نام نہیں تھا ۔


’’جسٹس جان مارشل‘‘ امریکی عدالتی تاریخ کے ممتاز ترین ججوں میں سے ایک ہیں انیسویں صدی کے اس نامور قانون دان کو امریکہ میں عدالتی روایات کو مستحکم کرنے کا کریڈٹدیا جاتا ہے ۔جسٹس مارشل کے لکھے ہوئے فیصلے دنیا بھر کی عدالتوں میں دقیع گردانے جاتے ہیں انہوں نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ عدالتوں کا کام انصاف دینے کے ساتھ ساتھ اس امر کو یقینی بنانا ہے کہ انصاف ہوتا نظر بھی آئے گا کیونکہ عدالتی فیصلے اخلاقی برتری پر مانے اور منوائے جاتے ہیں ۔


ممتاز قانون دان اور سابق وفاقی وزیر، قانون دان ’’ایس ایم ظفر ‘‘نے ہمیں ماضی میں دئیے ہوئے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ میں اکتوبر2009میں پارلیمنٹری وفد کے ساتھ امریکہ میں قید ڈاکٹر عافیہ کو ملنے گیا وہ جس جگہ قید تھیں وہ جگہ عجیب سا تاثر دے رہی تھی ایک کونے میں ضعیف اور خود میں سمٹی ہوئی لاغر سی لڑکی بیٹھی ہوئی نظر آئی وہ لڑکی کوئی اور نہیں ڈاکٹر عافیہ تھیں ان سے ہم نے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ میں کوئی ڈاکٹر یا سرجن نہیں ہوں میرا تعلق ایجوکیشن کے شعبے سے ہے اور میں ان بچوں کو پڑھانے کا ہنر جاتنی ہوں جن کو پڑھنے میں دِقت ہوتی ہے اور اپنی رائے کا اظہار نہیں کر سکتے ۔

انہوں نے قید و بند کی صعوبتوں کے بارے میں بتایا کہ میرے ساتھ یہاں پر کیسا سلوک ہوتا ہے اور خصوصی طور پر جب مجھے یہاں سے باہر لیجایا جاتا ہے تو اس کے بعد واپسی پر میری جس انداز سے تلاشی لی جاتی ہے وہ طریقہ نہایت شرمناک ہوتا ہے ،اس کے علاوہ اپنے بچوں کے لئے بہت فکر مند تھیں۔یہ تو تھیں ایس ایم ظفر کی گفتگولیکن واضح رہے کہ عافیہ صدیقی کو2003 میں دہشت گردی کے الزام میں افغانستان سے گرفتار کرنے کے بعد امریکہ منتقل کر دیا گیا تھا۔

امریکہ کی ایک وفاقی عدالت نے القاعدہ کے ساتھ تعلقات اور افغانستان میں ایف بی آئی کے اہلکار اور امریکی فوجی افسروںکو قتل کرنے کی کوشش سمیت 7الزامات میں 86ء برس کی سزا سنا ئی تھی وہ اس وقت امریکی جیل میں 86 سال قید کی سزا کاٹ رہی ہیں۔ ان کے حوالے سے پاکستان میں کہا جاتا ہے کہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں انہیں ڈالروں کے عوض امریکی حکام کے حوالے کیا تھا ۔

2003ء میں ’’ڈاکٹر عافیہ صدیقی‘‘ کے لاپتہ ہونے کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیلی، عافیہ کہاں گئی کسی کو کچھ نہیں پتہ تھا۔ اُس وقت کی حکومت نے اس واقعے سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر عافیہ کے روتے بلکتے خاندان کو دلاسہ دیا کہ ہم عافیہ کو ڈھونڈ نکالیں گے۔ یوں کرتے کرتے کئی برس گزر گئے 2008ء میں برطانوی صحافی نے انکشاف کیا کہ بٹگرام جیل میں قیدی نمبر 650 ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہے جس پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔

یوں عافیہ کے حوالے سے مشرف حکومت کی بدنیتی سامنے آگئی۔ تمام سیاسی جماعتوں نے بڑے بڑے دعوے کئے ہیومن رائٹس کی تنظیموں نے بھی آواز بلند کی لیکن سب بے سود رہا۔ عافیہ کی رہائی کے دعوے کروانے والے مکاری و عیاری سے کام لیتے رہے اورغمزدہ خاندان کے جذبات سے کھیلتے رہے۔تمام امیدیں اس وقت دم توڑ گئیں جب امریکی عدالت نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو 86 سال قید کی سزا سنائی اور اس ضمن میں کی گئی اپیل بھی مسترد کر دی ئی یوں ساتھ ہی تمام سیاستدانوں کے وعدوں کی قلعی بھی کھل گئی۔


عافیہ صدیقی نے 8 سال کی عمر تک زیمبیا میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد کراچی میں ابتدائی اور ثانوی تعلیم مکمل کی۔ اس کے بعد بوسٹن ٹیکساس میں جامعہ ٹیکساس میں کچھ عرصہ رہیں پھر وہاں سے میساچوسٹس ادارہ ٹیکنالوجی (MIT) چلی آئیں اور اس ادارہ سے وراثیات میںپی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔2002ء میں عافیہ پاکستان واپس آئیں مگر ملازمت نہ ملنے کی وجہ سے امریکا ملازمت ڈھونڈنے کے سلسلہ میں دورہ پر گئیں۔

اس دوران میریلینڈ میں ڈاک وصول کرنے کے لیے ڈاک ڈبہ کرائے پر لیا اور 2003ء میں کراچی واپس آ گئیں۔ FBI نے شک ظاہر کیا کہ یہ ڈاک ڈبہ دراصل القاعدہ سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کے لیے کرائے پر لیا گیا تھا۔ امریکی ابلاغ میں عافیہ صدیقی کی بطور دہشت گرد تشہیر کی گئی۔ یہ دیکھ کر عافیہ کچھ دیر کراچی میں روپوش ہو گئی۔ 30 مارچ، 2003ء کو اپنے تین بچوں سمیت راولپنڈی جانے کے لیے ٹیکسی میں ہوائی اڈا کی طرف روانہ ہوئی مگر راستے سے غائب ہو گئیں بعدمیں خبریں آئیں کہ ان کو امریکیوں نے اغوا کر لیا ہے۔

اس وقت ان کی عمر 30 سال تھی ۔ مقامی اخباروں میں عافیہ کی گرفتاری کی خبر شائع ہوئی مگر بعد میں وزیروں نے لاعلمی کا اظہار کیا ۔برطانوی صحافی نے انکشاف کیا کہ افغانستان میں امریکی جیل بگرام میں قیدی نمبر 650 شاید عافیہ صدیقی ہی ہے جو وہاں بے حد بری حالت میں قید تھی۔پاکستانی اخبارات میں شور مچنے کے بعد امریکیوں نے اچانک اعلان کیا کہ عافیہ کو 27 جولائی، 2008ء کو افغانستان سے گرفتار کر کے نیویارک پہنچا دیا گیا ہے تاکہ ان پر دہشت گردی کے حوالہ سے مقدمہ چلایا جا سکے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں نے امریکی کہانی کو ناقابلِ یقین قرار دیا۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کی خبریں گردش تو بہت کر رہی ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ حکومت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو پاکستان لانے کے لئے کیا کردار ادا کرتی ہے غمزدہ خاندان کا کہنا ہے کہ ہمیں امید ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کو ضرور انصاف ملے گا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

DR Afia ne January mein Pakistan ana tha agar nahi aayi to wazeer e azam jawab dain is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 22 March 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.