جادو کی چھڑی یا گلو خلاصی!

روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں کچھ کمی کے بعد بھی معاشی و اقتصادی حلقے بحران کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ دراصل گزشتہ تین ماہ سے ہمارے ہاں ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافے کے باعث صنعتی، تجارتی اور زرعی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہو رہی ہیں

بدھ 15 اگست 2018

jadu ki charri ya gulu khulasi
احمدجمال نظامی
روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں کچھ کمی کے بعد بھی معاشی و اقتصادی حلقے بحران کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ دراصل گزشتہ تین ماہ سے ہمارے ہاں ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافے کے باعث صنعتی، تجارتی اور زرعی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہو رہی ہیں جبکہ دوسری طرف سرمایہ کاروں نے ساری توجہ سونے اور ڈالر پر سرمایہ کاری پر مرکوز کر رکھی ہے جس کے نتیجہ میں پیداواری اور برآمدی شعبہ جات کے لحاظ سے مارکیٹ میں زر کی گردش پر انتہائی منفی اثرات پڑے ہیں ۔

اس متزلزل صورتحال میں قومی معیشت جس بحران کی طرف بڑھ چکی ہے اس کا کوئی بھی ملک متحمل نہیں ہو سکتا ۔ ڈالر کی قیمت میں بار بار اضافہ، پٹرولیم مصنوعات سے لے کر توانائی ذرائع کی قیمتوں میں اضافہ یہ سب مسائل معیشت کے بنیادی شعبہ جات کیلئے انتہائی خطرناک صورت حال اختیار کر چکے ہیں۔

(جاری ہے)

ڈالر کی روپے کے مقابلے میں قیمت کا اصل معمہ یہ ہے کہ سابق وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار کی طرف سے جس انداز میں معیشت کو چلایا گیا اور جس طرح روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت کو مصنوعی انداز میں مستحکم رکھا گیا اس کی ساری کہانی سب کے سامنے ہے۔

خود اسحاق ڈار جب تک بیرون ملک نہیں گئے تھے اور وہ ابھی وزارت خزانہ میں بیٹھ رہے تھے تو ایسی اطلاعات سامنے آنے لگی تھیں کہ زرمبادلہ کے ذخائر اور کرنٹ اکاونٹ خسارے کو روکنے کے لئے ضروری ہے کہ ڈالر کو مصنوعی انداز میں روپے کے مقابلے میں کم قیمت پر نہ رکھا جائے بلکہ اس کی قیمت میں زمینی حقائق کے مطابق اضافہ ہونے دیا جائے تاکہ اضافی نوٹ چھاپنے اور افراط زر وغیرہ کے مسائل جو زرمبادلہ کے ذخائر کو مصنوعی انداز سے مستحکم رکھنے کی صورت میں بڑھ رہے ہیں ان پر قابو رکھا جا سکے۔

قارئین کو یاد ہو گا کہ اسحاق ڈار کے آخری ایام میں ڈالر کی قیمتوں میں دو مرتبہ مختلف اوقات میں باری باری اضافہ کیا گیا۔ اس اضافے کا مقصد صرف اور صرف زرمبادلہ کے ذخائر، کرنٹ اکاونٹ خسارے کو کم کرنا اور معیشت کو اس کی اصل شکل و صورت میں بحال کرنا تھا۔ قارئین کو یہ بھی یاد ہو گا کہ ایک موقع پر ڈالر اور روپے کی قدر کو مصنوعی انداز میں ایک جگہ قائم رکھنے کی صورت میں ملک کی برآمدات اتنی کم ہو گئی تھیں کہ اس پر ہر طرف شوروفغاں بلند ہوا۔

جس پر حکومت نے برآمدات اور درآمدات میں واضح فرق کو پورا کرنے کے لئے ایک پالیسی دی جس کا مقصد درآمدات کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے اس کی شرح کو کم کرنا تھا۔ بیشتر معاشی و اقتصادی ماہرین نے اس پالیسی سے پہلے ہی اس کے نفاذ کے لئے تجاویز اور آراءپیش کیں جبکہ کچھ ماہرین نے اس پالیسی کے نفاذ پر اور اس کے نفاذ سے قبل ہی احتجاج کیا تھا کہ ایسا کرنے سے وطن عزیز میں بہت ساری صنعتیں بحران کی طرف بڑھیں گی۔

تاہم اس وقت ایسے اقدامات اٹھانا ضروری تھے جس کے مثبت اور منفی دونوں طرح کے نتائج سامنے آئے البتہ ملک میں مہنگائی کی شرح میں خود وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق اضافہ ہوا۔
اب تحریک انصاف جب اپنی آئندہ حکومت بنانے کے لئے دعویٰ کر رہی ہے کہ وفاق میں سوفیصد ان کی حکومت ہو گی۔ اس حکومت کے حوالے سے اطلاعات سامنے آ رہی ہیں کہ ان کے وفاقی وزیرخزانہ اسد عمر ہوں گے۔

اسد عمر ایک معروف ماہر معیشت بھی ہیں، ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ آج تک کسی بھی کمپنی میں سب سے بھاری تنخواہ لینے والے چیف ایگزیکٹو آفیسر رہ چکے ہیں۔ تحریک انصاف کو بھی ان کی معاشی و اقتصادی سوچ سے اتفاق ہے اسی لئے شاید انہیں آئندہ وزیرخزانہ بنانے کا سوچا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر اسدعمر گزشتہ پانچ سالوں میں اپوزیشن جماعت تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے اس کے رکن کی حیثیت سے معیشت کو بیساکھیوں سے پاک اور کشکول توڑنے کی تجاویز دے کر حکومت پر تنقید کرتے رہے ہیں۔

انہوں نے 25جولائی کے بعد 27جولائی کو غالباً معیشت کی بحالی اور مضبوطی کے لئے ایسی ایسی تجاویز، آراءاور متوقع پالیسیز کا اعلان کیا جس پر ملک بھر کے صنعتی، تجارتی، زرعی اور بالخصوص برآمدی حلقوں نے تحریک انصاف کی کامیابی پر ان کو مبارکباد پیش کرنا شروع کر دیں لیکن اب اسد عمر مختلف ٹی وی چینلز اور مختلف مقامات پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ملکی معیشت کو درپیش خرابی دور کرنے کے بارے روایتی سوچ ہی کا اظہار کر رہے ہیں۔

ملکی معیشت یقینا بگاڑ کا شکار ہے، یہ بھی حقیقت ہے کہ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران عالمی مالیاتی اداروں سے جتنے قرضے لئے گئے اس کا حجم کہیں زیادہ تھا، لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سارے مسائل انتخابات سے پہلے بھی اسدعمر اور پوری تحریک انصاف کے ذہن میں تھے۔ کیا اسد عمر کو اس وقت علم نہیں تھا کہ معیشت کی حالت اتنی خراب ہے کہ اسے بہتر کرنے کے لئے ان کے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں۔

اب خود اسد عمر نے ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئی ایم ایف سمیت کسی بھی آپشن کو ترک نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ انہوں نے یہ خوش آئند بات کہی کہ معاشی بحران حل کریں گے۔ بات یہ ہے کہ وہ اس چیلنج کو پرا کر دکھائیں اگر خراب معاشی صورتحال سے نپٹنے کا چیلنج انہوں نے قبول کیا ہے۔ اس کی ابتداء میں وہ روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت کو مستحکم اور کم کرنے کی صورت میں کریں۔

لیکن اسد عمر بھی اگر آئندہ وزیرخزانہ بن کر روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت کو سیاسی دبائو میں مصنوعی انداز سے کم کریں گے تو اس سے بظاہر حکومت کی بلے بلے ہو گی لیکن معیشت کا اسی طرح بیڑہ غرق رہے گا جس طرح پہلے تھا۔
ماہرین کی نظر میں اسد عمر کو سب سے پہلے عالمی مالیاتی اداروں کے شکنجے سے باہر نکلنے کے لئے خصوصی پلان تشکیل دینا ہو گا۔

گزشتہ بارہ سالوں سے انہی رپورٹس میں معاشی و اقتصادی ایمرجنسی ڈکلیئر کرنے کا مطالبات بھی زیر بحث چلے آ رہے ہیں۔ اگر اسد عمر اس نکتے پر غوروغرض کریں وہ یقینا ہم سے بہتر ان رموز سے واقف ہیں۔لیکن اس تجویز پر عمل کے لئے اولین شرط ان عالمی طاقتوں کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرنا ہے جو پاکستان میں نہ آبی ذخائر تعمیر ہونے دیتے ہیں اور نہ معیشت کو مضبوطی کی طرف گامزن ہونے دیتے ہیں۔

عمران خان تبدیلی کا نعرہ لائے ہیں تو اسد عمر کو اتنا اختیار ضرور دیں کہ وہ معیشت میں بنیادی پالیسیاں ہر پریشر سے بالاتر ہو کر تشکیل دے سکیں۔ عمران خان اپنی کئی تقاریر میں ملائیشین ماڈل معاشی و اقتصادی ترقی اور مہاتیر محمد کا تذکرہ کرتے رہے ہیں۔ اس ماڈل کو لے کر چلنا ہے تو سب سے پہلے خودانحصاری اور اسلام آباد یعنی وفاق کو بیساکھیوں سے آزاد کرنا ہو گا۔

عمران خان اسد عمر کی مشاورت سے ایک مربوط پالیسی تشکیل دیں اور پھر قوم کو فنڈ ریزنگ کیلئے تیار کریں اور انہیں بتائیں کہ ایک مالی سال تک سب کو قربانی دینا ہو گی ۔تاکہ ملک عالمی مالیاتی اداروں کو نجات پا سکے۔ گوادر بندرگاہ میں چین اور آئندہ روس جیسے ملکوں کی بڑے پیمانے کی سرمایہ کاری ملک کو خودانحصاری کی طرف لے جا سکتی تو اس بات میںکوئی شک نہیں کہ ہماری معیشت پھلے پھولے گی۔ ملک اگر آئی ایم ایف وغیرہ سے آزاد ہو گا تو اسد عمر کے لئے یہی ایک جادو کی چھڑی ہے۔ اس صورت میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کو مستحکم کیا جا سکتا ہے اور ہر بحران سے نبردآزما ہوناممکن ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

jadu ki charri ya gulu khulasi is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 15 August 2018 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.