کفایت شعاری مہم،حکومت کودھچکا

ملک میں ایک طرف مہنگائی کی شرح میں مسلسل اضافہ جاری ہے دوسری طرف ارکان پنجاب اسمبلی کی تنخواہوں میں سو فیصد سے زائد اضافے کا بل متفقہ طور پر منظور کر کے حکومت نے خود اس مہنگائی کا اعتراف کر لیا ہے۔

بدھ 27 مارچ 2019

kafait shaari muham Hakumat ko dahcka

احمد جمال نظامی

ملک میں ایک طرف مہنگائی کی شرح میں مسلسل اضافہ جاری ہے دوسری طرف ارکان پنجاب اسمبلی کی تنخواہوں میں سو فیصد سے زائد اضافے کا بل متفقہ طور پر منظور کر کے حکومت نے خود اس مہنگائی کا اعتراف کر لیا ہے۔ بل کے تحت ارکان اسمبلی کیلئے ایک لاکھ 92ہزار روپے تنخواہ اور مراعات رکھی گئی ہیں۔ جس سے ارکان اسمبلی کی بنیادی تنخواہ 18ہزار سے بڑھ کر 80ہزار روپے ماہانہ ہو گئی ہے۔ ڈیلی الاؤنس ایک ہزار سے بڑھا کر 4ہزار، ہاؤس رینٹ 29ہزار سے بڑھا کر 50ہزار کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح یوٹیلٹی الاؤنس 6ہزار سے بڑھا کر 20ہزار، مہمانداری کا ماہانہ الاؤنس 10ہزار سے بڑھا کر 20ہزار روپے کر دیا گیا۔ ذاتی گھر نہ ہونے پر پنجاب کے وزیراعلیٰ کیلئے عمر بھرکے لئے گھر دیئے جانے کی منظوری دی گئی ہے۔

(جاری ہے)

پنجاب اسمبلی نے اس بل کو متفقہ طور پر منظور کیا ہے، بل میں واضح کیا گیا ہے کہ عہدے سے سبکدوش ہوتے وقت وزیراعلیٰ کے نام ذاتی گھر نہ ہونے کی صورت میں لاہور میں گھر فراہم کیا جائے گا۔

ایک طرف مہنگائی کا بڑھتا ہوا رجحان اور دوسری طرف ارکان پنجاب اسمبلی کیلئے اس قدر مراعات کی منظوری نے عوام کو چکرا دیا ہے اور عوام کے ساتھ ساتھ معاشی و اقتصادی حلقوں کے غم و غصے کی شدت میں بھی فطری طور پر اضافہ سامنے آیا ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ پاکستان جو ایک ترقی پذیر ملک ہے یہاں عام آدمی سے دو وقت کی روٹی کی قوت خرید اور سکت بھی چھین لی گئی ہے۔ قانون ساز ادارے جن میں اکثریتی طور پر مراعات یافتہ افراد موجود ہیں جن میں وڈیرے، جاگیرداروں، صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں کی کوئی کمی نہیں۔ ان کی حمایت میں بعض سرکاری ارکان نے اس بل کی منظوری کیلئے مہنگائی کا جواز پیش کیا ہے جو درحقیقت ایک کھلا اعتراف ہے۔ قانون سازی کے ذریعے عوام کا خون نچوڑنے والوں کو اپنے لئے یہ مراعات مہنگی پڑنے لگی ہیں۔ ارکان اسمبلی نے صوبے میں مہنگائی کے خاتمے اور اس پر قابو پانے کے لئے کسی قسم کی قرارداد پیش کرنے اور اس پر عملدرآمد کے لئے صوبائی انتظامیہ کے ذریعے اضلاع اور تحصیلوں کی انتظامیہ کو حرکت میں لانے کی بجائے خود اپنی مراعات میں اضافہ کرنے کو ترجیح دی ہے۔

قانون ساز اداروں میں بیٹھے ان لوگوں نے حکومت کی کفایت شعاری مہم کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے جو دولت، سرمائے، اثرورسوخ اور اپنی چودہراہٹ کی بنا پر جمہوریت کی خامیوں کا فائدہ اٹھا کر بار بار اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ اس بل پر وزیراعظم عمران خان نے سخت برہمی کا اظہار کیا ہے اور وزیراعلیٰ پنجاب کو ہدایت کی ہے کہ وہ فوری طور پر اس کا خاتمہ یقینی بنائیں یعنی اس کا تدراک کیا جائے۔ عین ممکن ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب وزیراعظم کی ہدایت پر صوبائی اسمبلی سے ہی اس بل کو ختم کروا دیں لیکن پنجاب اسمبلی میں موجود ارکان جن میں بلاتفریق مسلم لیگ(ن)، تحریک انصاف، پیپلزپارٹی، مسلم لیگ(ق) دیگر جماعتوں اور آزاد ارکان موجود ہیں انہوں نے اس بل کی حمایت کر کے اپنے دوہرے معیار کا واضح ثبوت دیا ہے۔

وزیر اعظم نے اقتدار سنبھالنے پر وفاقی کابینہ کو اخراجات میں10 فیصد کمی کی ہدایت کی تھی اور اس دوران وزیر اعظم ہاؤس کے اخراجات میں بھی 55 کروڑ روپے کمی لانے کا دعویٰ کیا گیا ۔ مگر یہ خود غرضی کی انتہا ہے کہ وہ نمائندے جنہیں عوام قانون ساز اسمبلیوں میں قانون سازی کے لئے بھیجتے ہیں ان میں قانون سازی کی سکت موجود نہیں اور اگر وہ کسی بل پر قانون سازی کرتے ہیں تو اس کا حقیقی مطمع نظر اجتماعی کی بجائے اپنی ذات ہے۔ ان کا خاندان، ان کے کاروبار اور ان کے قریبی مراعات یافتہ لوگ ہی ملکی معیشت کیلئے مشکلات کا باعث ہوا کرتے ہیں۔ یہ لوگ عوام کو بھیڑبکریوں سے زیادہ کی حیثیت نہیں دیتے۔ یہ عوام کو رعایا تک تصور نہیں کرتے لہٰذا ایسے عوامی نمائندوں کو عوامی نمائندے کہنے والے ہم لوگ خود سب سے بڑے احمق ہیں۔ بہرحال مہنگائی کی شرح میں اضافہ جاری ہے اور پنجاب اسمبلی سے یہ بل پاس کر کے عوام کے زخموں پر نمک پاشی کی گئی ہے جس پر حکومت کے خلاف میڈیا کے کیمرے کے سامنے بغلیں بجانے والے اپوزیشن کے ارکان بھی برابر کے شریک ہیں اور ان کی حمایت میں ان کا دم بھرنے والے خواہ کسی بھی جماعت سے ہوں وہ خود غرض ہی شمار ہوتے ہیں۔ عوام کو سوچنا ہو گا کہ وہ کب تک ان کے ہاتھوں مہنگائی، بیروزگاری، غربت میں پستے رہیں گے۔ یہ ہماری عوام اور ہم سب کا اپنا قصور ہے جو انتخابات میں کسی نہ کسی سیاسی جماعت کو ووٹ ضرور دیتے ہیں لیکن فیصلہ سازی میں ان کی رائے اور ووٹ کی اہمیت کو ایک طرف رکھ دیا جاتا ہے ، اپنے اپنے طبقے کے حقوق کی جد جہد میں مضبوط رائے عامہ اور میڈیا کی حقیقی آزادی ہی اس اہم مسئلے کا حل ہو سکتی ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

kafait shaari muham Hakumat ko dahcka is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 27 March 2019 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.