مشرق وسطیٰ میں نئی صف بندی

ٹرمپ کی جارحانہ پالیسیاں جوبائیڈن حکومت کیلئے نئی الجھنوں کا باعث بنیں گی

ہفتہ 26 دسمبر 2020

Mashriq Vusta Main Nayi Saaf Bandi
محبوب احمد
مشرق وسطیٰ میں نئی صف بندی اور ”جیو اسٹریٹجک تبدیلیاں“ ایک ایسے وقت پر ہو رہی ہیں جب اقوام عالم کو ”کرونا“ نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔دنیا بھر کے ممالک ان دنوں شدید معاشی مشکلات سے دو چار ہیں یہی وجہ ہے کہ عرب ممالک معاشی استحکام کی سعی میں اپنی روایتی پالیسیوں پر نظر ثانی اور اپنے لئے نئے معاشی امکانات اور مواقع پیدا کرنے کی فکر میں سرگرداں ہیں۔

ٹرمپ حکومت کا جاتے جاتے یورپ اور امریکہ کے دفاعی اتحاد نیٹو کے اہم رکن ترکی پر پابندیاں عائد کرنے کا اقدام آنے والے دنوں میں یقینا جوبائیڈن حکومت کے لئے خارجہ پالیسی میں نئی الجھنوں کا باعث بنے گا۔مسئلہ فلسطین شروع دن سے ہی اسرائیل اور ترکی کے درمیان تعلقات میں مرکزی نکتہ رہا ہے اسی بناء پر ترک حکومت نے ماضی میں 3 مرتبہ اسرائیل سے اپنے سفارتی تعلقات کو نچلی سطح پر لانے یا منقطع کرنے کا فیصلہ کیا،اب موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو ترکی کی جانب سے سفیر کی نامزدگی کا فیصلہ امریکہ کی جانب سے اس پر تجارتی پابندیاں عائد کئے جانے کے ایک دن بعد سامنے آیا ہے۔

(جاری ہے)


دسمبر 2017ء میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جب یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کیا تو اقوام متحدہ اور بین الاقوامی قوانین سے متصادم اس اقدام کے خلاف فلسطین میں ہونے والے احتجاج میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں درجنوں فلسطینیوں کی ہلاکت اور 2 ہزار کے قریب شہریوں کے زخمی ہونے کے واقعہ کے بعد ترکی نے اسرائیل سے اپنے سفارتی روابط توڑ کر احتجاجاً تل ابیب سے اپنے سفیر کو ہی واپس نہیں بلایا بلکہ اسرائیلی سفیر کے ساتھ ساتھ امریکی سفیر کو بھی ملک سے نکل جانے کا حکم دیا تھا لہٰذا اسرائیل کو دہشت گرد اور فلسطینی بچوں کا قاتل قرار دینے کے بعد اب نئے ترک سفیر کی نامزدگی موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔

اسرائیل اور ترکی کے درمیان یوں تو ڈرون اور نگرانی کے آلات فراہم کرتے سمیت کئی ایک دفاعی معاہدے بھی ہو چکے ہیں لیکن 2002ء میں اردگان کی جماعت جسٹس اور ڈویلپمنٹ پارٹی(اے کے پی)اقتدار میں آئی تو تعلقات میں نیا موڑ آنا شروع ہوا۔2008ء میں حالات نے ایک ایسی کروٹ لی کہ اسرائیلی وزیراعظم شمعون پیریز کے انقراہ کے دورے کے 3 روز بعد ہی اسرائیل نے غزہ میں ”آپریشن کاسٹ لیڈ“ کے نام سے چڑھائی کر دی۔


2010ء میں غزہ کے اسرائیلی فوج کے محاصرے کے دوران بحری جہاز پر دھاوا بولنے سے ”ماروی مرمرا“ کا واقعہ پیش آیا۔گیس ٹائپ لائنوں پر ہونے والی کھینچا تانی کا بھی ترکی اور اسرائیل کے تعلقات میں بڑا عمل دخل رہا ہے۔ترکی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے پوری طرح بیرونی ممالک پر انحصار کرتا ہے کیونکہ اس کی گیس کی مجموعی طلب کا 60 فیصد حصہ روس فراہم کرتا ہے جبکہ 20 فیصد حصہ ایران اور باقی دیگر ذرائع سے پوراکیا جاتا ہے۔

اسرائیل میں تیل اور گیس کے ذخائر کی دریافت کے بعد ترکی کو اس کی فروخت کے لئے مالی اور تکنیکی لحاظ سے نہایت ہی موزوں مارکیٹ تصور کیا جا رہا تھا۔یاد رہے کہ 1956ء میں نہر سوئز کے معاملے پر اسرائیل جب برطانیہ اور فرانس کی پشت پناہی سے صحرائے سینا پر جارحیت کا مرتکب ہوا تو ترکی نے اس پر احتجاج کرتے ہوئے سفارتی تعلقات کی سطح کو گھٹا دیا تھا،1958ء میں اس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم ڈیوڈبن گوریان اور ترک صدر عدنان میندریس کے درمیان ایک خفیہ ملاقات ہوئی اور دونوں ممالک کے درمیان دفاعی اور انٹیلی جنس تعاون قائم کرنے پر اتفاق ہوا۔

1980ء میں اسرائیل نے جب مشرقی یروشلم پر قبضہ کیا تو ترکی نے دوبارہ اپنے سفارتی تعلقات کو کم کیا لیکن 90ء کی دہائی کے اوائل میں ”اوسلو امن معاہدے“ کے بعد ایک مرتبہ پھر یہ تعلقات بحال ہوئے۔آذربائیجان اور آرمینیا کی جنگ کے دوران بھی اسرائیل اور ترکی دونوں ایک ہی صف میں کھڑے نظر آئے لیکن یہاں قابل غور امریہ ہے کہ مشترکہ مفادات کے باوجود فلسطین میں جاری تشدد اور خون ریزی کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان تلخیاں جس سطح پر پہنچ چکی ہیں ان کو آسانی کے ساتھ فراموش نہیں کیا جا سکتا۔


دنیا اس امر سے بخوبی آگاہ ہے کہ ٹرمپ نے اپنے دور اقتدار میں مشرق وسطیٰ میں فلسطین اسرائیل تنازع سے متعلق برسوں کی امریکی پالیسی کو لپیٹ کر سابق امریکی صدور کے برعکس نیتن یاہو حکومت کی کھلے عام حمایت کی،یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرکے امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے یہاں منتقل کیا گیا۔اسرائیل کی پوزیشن کو مستحکم کرنے کے لئے عرب ممالک کو اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کی ترغیب دی گئی جس سے متحدہ عرب امارات،بحرین اور سوڈان نے اسرائیل کے ساتھ باقاعدہ روابط قائم کرنے کا اعلان کیا لیکن اب بین الاقوامی سطح پر اسرائیل پر کڑی تنقید کرنے اور فلسطینیوں کے حقوق کی بات کرنے والے دائیں بازو کے مسلمان رہنماء اور ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کی حکومت کا اسرائیل سے گزشتہ 2 برس سے منقطع سفارتی تعلقات یکطرفہ طور پر بحال کرنے کا اچانک اعلان لمحہ فکریہ سے کم نہیں ہے۔

اس بات میں کوئی شک و شبے کی گنجائش نہیں ہے کہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات استوار کرنے والے عرب ممالک کو ”فلسطین سے غداری“ کرنے اور ”فلسطینیوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے“ کا الزام لگانے والے اردگان نے خود اسرائیل سے تعلقات بحال کرکے مشرق وسطیٰ کے منظر نامے کو مزید پیچیدہ کر دیاہے۔ترکی کے سفیر نامزد کرنے کے اقدام پر دنیا بھر کے ممالک کی طرح پاکستان اور خود اسرائیل بھی مخمصے کا شکار ہے۔

کیا جوبائیڈن کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ترکی نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات بحال کرکے امریکہ سے اپنے تعلقات ٹھیک کرنے کی کوشش کی ہے؟۔ترکی کے سیاحتی مقامات دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف راغب کرتے ہیں،ہر سال روس اور یورپ سے آنے والے سیاحوں کے مقابلے میں اسرائیل سے ترکی آنے والے سیاحوں کی تعداد بہت کم ہے لیکن پھر بھی یہ تعداد ایک لاکھ سے اوپر ہے۔

سفارتی تلخیوں اور بحرانوں کے باوجود آج بھی لاکھوں کی تعداد میں اسرائیلی سیاح ترکی کے شہر انطالیہ جوان کی ایک پسندیدہ تفریح گاہ کا رخ کرتے ہیں۔
فلسطینیوں کے ساتھ صہیونیوں کا رویہ روز اول سے ہی افسوسناک رہا ہے لیکن اب اسرائیل کو تسلیم کرنے والے بعض عرب ممالک کا منافقانہ چہرہ بھی دنیائے اسلام کے سامنے عیاں ہو رہا ہے۔دیکھا جائے تو ٹرمپ یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت اور بولان کی پہاڑیوں کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کرنے کے بعد عرب ممالک پر دباؤ ڈالنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔

متحدہ عرب امارات اور امریکہ کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہونے کے بعد مسلم مالک میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے جو بحث شروع ہوئی تھی وہ اب ایک نیا رخ اختیار کرتی جا رہی ہے۔عرب دنیا کی طرح خلیجی ریاستیں بھی 1948ء میں اسرائیلی ریاست کے قائم کئے جانے کے بعد سے اسرائیل سے دور ہی رہی ہیں لیکن حالیہ ملاقاتوں سے برف پگھل رہی ہے۔اسرائیل،سعودی عرب اور خلیجی ممالک ایران پر عدم استحکام پیدا کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔

قبل ازیں بھی یہ تحریر کیا جا چکا ہے کہ خلیجی ریاستوں اور اسرائیل کے مشترکہ خدشات ہیں اکثر خلیجی ریاستوں کی طرح اسرائیل کو بھی ایران کے عزائم پر پریشانی ہے اور وہ ایران کو ایسی طاقت سمجھتا ہے جو مشرق وسطیٰ کو غیر مستحکم کر سکتی ہے۔ایران کے اثر و رسوخ پر قابو رکھنے کے لئے ٹرمپ انتظامیہ بھی خلیج میں امریکی اتحادیوں اور اسرائیل کے درمیان قریبی تعلقات کی زبردست حامی ہے۔


چین کی بڑھتی ہوئی قوت کا سامنا کرنے کے لئے متعدد ممالک امریکہ اور یورپ پر انحصار کئے ہوئے تھے مگر اب انہیں اندازہ ہو چکا ہے کہ ان پر زیادہ بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ مغربی ممالک کے ہاتھوں ایشیائی اور افریقی ممالک کے عوام کا استحصال صدیوں سے جاری ہے یہی وجہ ہے کہ عالمی افق پر اقتدار کے حصول کیلئے اب ایک مرتبہ پھر سے نت نئے حربے استعمال کئے جا رہے ہیں۔

بھارت اور امریکہ نے چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنے کیلئے جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ مل کر ”کواڈ“ نامی ایک گروپ تشکیل دیا ہے۔امریکہ اس گروپ بندی کو نیٹو جیسے اتحاد میں تبدیل کرنے کا خواہاں ہے حالانکہ چین جیسی طاقت سے نمٹنے میں امریکی کارڈ بھارت کے لئے تاحال کارگر ثابت نہیں ہو سکا۔یو اے ای اور اسرائیل مشرق وسطیٰ کے لئے ایک ”سٹریٹجک ایجنڈا“لانچ کرنے کے لئے امریکہ کے ساتھ کام کریں گے اور یہ ٹرمپ کا سب بڑا مشن تھا لہٰذا اب اسی مقصد کے حصول کیلئے نیتن یاہو دیگر عرب اور مسلم ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو وسیع کرنے پر غور کر رہے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Mashriq Vusta Main Nayi Saaf Bandi is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 26 December 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.