مہنگائی کے ہاتھوں ستائے عوام سڑکو ں پر آنے کو تیار

تاریخ کا پہیہ بھی گھڑی جیسا ہوتا ہے لیکن تاریخ اور گھڑی میں ایک بنیادی اور ناقابل ترمیم فرق ہوتا ہے کہ تاریخ بدلتی رہتی ہے اور خود کو دہراتی بھی رہتی ہے۔

بدھ 5 دسمبر 2018

mehengai ke hathon sataye awam sarkon par anay ko tayyar
 احمد کمال نظامی
تاریخ کا پہیہ بھی گھڑی جیسا ہوتا ہے لیکن تاریخ اور گھڑی میں ایک بنیادی اور ناقابل ترمیم فرق ہوتا ہے کہ تاریخ بدلتی رہتی ہے اور خود کو دہراتی بھی رہتی ہے۔ زمانے بدلتے رہتے ہیں کل کے حکمران آج کے ملزموں کی شکل میں عدالتی کٹہروں میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ تاریخ بدلتی رہی، زمانے بدلتے رہے لیکن گھڑی کی سوئیاں چلتی رہیں اور عوام جن مصائب اور مسائل کی یلغار میں کل بھی آہ و فغاں کرتے نظر آتے ہیں۔

عوام کی بات کر رہا ہوں اشرافیہ کی نہیں کیونکہ اشرافیہ کی ہر زمانہ میں پانچوں گھی میں ہوتی ہیں لیکن عوام کے مصائب کا سفر نہ کبھی رکا اور نہ کبھی تھما۔ مصائب کی یلغار کی بنیادی وجہ ہماری مالی اور معاشی بدحالی ہے۔ نیا پاکستان اور ترقی یافتہ پاکستان کا سنہری خواب دکھا کر عمران خان کی حکومت وجود میں آئی اور نئے پاکستان کے خالق حکمران نے ٹیکس اور قیمتیں بڑھانے کو نیا پاکستان کا نام دیا۔

(جاری ہے)

قیمتوں میں اضافہ حکومت کی مجبوری تھی اور اس کا ذمہ دار سابق حکومت کو قرار دینا اپنی ناکامی کا اعتراف ہے جس کے نتیجہ میں روزمرہ کی اشیاءاتنی بڑھ گئی ہیں کہ غریب آدمی ان تک پہنچ ہی نہیں سکتے۔ عام آدمی پہلے ہی غربت اور تنگدستی کے ہاتھوں مجبور ہو کر بہت تکلیف دہ زندگی گزرنے پر مجبور تھے اور ہیں۔ دو وقت کی روٹی پوری کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف بنا دیا گیا ہے۔

سابق عہد حکومت میں 45 سے 50فیصد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی کا بوجھ اٹھا کر جی رہے تھے اور اب ستم بالائے ستم اوپر سے بجلی اور گیس کی بے تحاشا اور بے وقت لوڈشیڈنگ کے باوجود ناقابل برداشت ہیوی بیلز نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ آج کی تازہ خبر یہ ہے کہ نیپرا نے بجلی کی قیمتوں میں فی یونٹ 64پیسے اضافہ کی تجویز پیش کی ہے اور فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں یہ اضافہ سینٹرل پاور ایجنسی(سی پی پی اے) کا نیپرا سے یہ مطالبہ ہے۔

یاد رہے کہ قبل ازیں گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کی منظوری وفاقی کابینہ دے چکی ہے۔ تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ایک سروے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ عمران خان کی حکومت کے نئے ٹیکسز اور نئی قیمتوں نے 70فیصد آبادی کو خط غربت سے نیچے دھکیل دیا ہے اور عوام کیڑے مکوڑوں جیسی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ غربا تو ایک طرف رہے عام آدمی، محنت کش عوام اور یومیہ اجرت پر کام کرنے، روزگار کے مواقع ناپید ہیں۔

عوام سوال کرتے ہیں کہ ہم جائیں تو جائیں کہاں؟ اور اب تو قبرستان ناجائز تجاوزات کی زد میں اور قبرستان مافیا بھی جنم لے چکا ہے اور قبرستان بھی اس حد تک سکڑ چکے ہیں کہ قبر کا حصول بھی ناممکن ہو گیا ہے۔ مصائب کی یلغار سے لڑتے ہوئے عوام تو پہلے ہی بے حال ہو چکے ہیں اور ہمارے نئے پاکستان اور ترقی آئے گی لیکن ترقی آ چکی ہے، ہاں تبدیلی آ چکی ہے اور اس کے آثار بھی نظر آتے ہیں۔

صدر جنرل ایوب خان مرحوم کے اقتدار کی کشتی سیاست دانوں اور ایوب خان مرحوم کے مخالفین کے ہاتھوں نہیں ڈوبی تھی، سیاست دان جو مرضی دعوے کریں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے کہ ایوب خان کے اقتدار کو چینی کی قیمت میں چند آنے اضافہ نے عوام نے اس کا دھڑن تختہ کر دیا تھا۔ تاریخ خود کو ایک بار پھر دہراتی نظر آتی ہے اور پاکستان میں انقلاب فرانس جیسی صورت حال پیدا ہوتی نظر آتی ہے۔

یہ بات اپنی جگہ انمٹ حقیقت ہے کہ جب تک دولت کی ہوس ختم نہیں ہو گی تب تک معاشرے سے غربت، افلاس، مہنگا©ئی اور بے روزگاری کا خاتمہ نہیں ہو گا اور بلاکسی تمہید اور تفریق کے اس وقت حکمرانوں اور اپوزیشن کے درمیان جو رسہ کشی نظر آتی ہے وہ عوام کے حقوق کی سیاست کیلئے نہیں بلکہ ہوس اقتدار اور دولت کی کشمکش ہے۔ یوں اخبارات میں منی لانڈرنگ اور کرپشن کی خبریں شائع ہوتی ہیں اور اولاد قارون کے چہرے عوام کی نگاہوں کے سامنے آتے ہیں۔

اربوں اور کھربوں کے اثاثے سامنے آتے ہیں۔ قارون کی موت یوں ہوئی تھی کہ اسے سزا کے طور پر اپنی دولت کو اپنے سر پر رکھنے کا حکم دیا گیا اور وہ اپنی ہی دولت کے بوجھ سے زمین میں دھنس گیا تھا۔ لہٰذا جو اثاثے منظرعام پر آ رہے ہیں وہ عوام کو مہنگائی کے خلاف خود جواز اور ہتھیار فراہم کر رہے ہیں ۔
فیصل آباد میں گورنر پنجاب چوہدری سرور نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انصاف کی فراہمی تحریک انصاف اور عمران خان کی اولین ترجیح ہے۔

تحریک انصاف اور عمران خان کی قیادت میں ملک ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو چکا ہے۔ مخالفین کچھ بھی کہتے رہےں اور سازشیں کرتے رہیں، انہیں ناکامی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ عوامی رائے ہے کہ عمران خان قبل ازیں کسی بھی حکومت کا حصہ نہیں رہے اس لئے ان پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں اور انہوں نے اپنا نام کرکٹ اور رفاہی و فلاحی منصوبوں کی بنا پر ذہنوں میں نقش کر دیا۔

اس حوالہ سے عوام مرحوم عبدالستار ایدھی اور عمران خان کو فراموش نہیں کر سکتے جبکہ حکومتی تقاضے کچھ اور ہوتے ہیں حقائق کچھ یوں ہیں کہ ملکی برآمدات جو زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے اور خسارے کو لگام دینے میں ناگزیر پہلو کا درجہ ہیں۔ ان میں ملک کو سامنا ہے جو تجارتی خسارے کی صورت میں ہمارے بجٹ اور معاشی ڈھانچے کی چولیں ہلا رہا ہے اور عمران خان کو اقتدار میں آنے سے قبل تمام حالات کا علم تھا جس کے باوجود وہ ایسے نعرے بلند کرتے رہے جن کو پورا کرنا ان کے بس کا روگ نہیں تھا اور اب وہی نعرے عمران کے سامنے ایک دیوہیکل کی شکل میں سامنے کھڑے ہیں اور یہ آسیب ایسا ہے کہ کسی عامل کے قابو میں نہیں آ رہا۔

کپتان وہی اچھا ہوتا ہے جو پچ کی حالت دیکھ کر اپنے کھلاڑی میدان میں اتارتا ہے لہٰذا پچ بھی خراب اور کھلاڑی بھی ناتجربہ کار، اگر گرانی اور مہنگائی کے نام پر عوام سڑکوں پر آ گئے تو پھر اس کھیل کا انجام اچھا دکھائی نہیں دے رہا!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

mehengai ke hathon sataye awam sarkon par anay ko tayyar is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 05 December 2018 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.