میاں نوازشریف اور کارگل کی برفی

یہ بحث تواتر سے جاری ہے کہ کارگل کی جنگ سے لاعلمی اور مکمل معلومات کے حوالے سے میاں نوزاشریف کا کردار 1999سے ہی فوج سمیت کئی اور سٹیک ہولڈرز کی نظر میں متنازعہ کیوں ہے

Shahid Nazir Chaudhry شاہد نذیر چودھری منگل 19 فروری 2019

mian Nawaz shareef aur kargil ki Barfi
میرے سامنے کارگل جنگ کے ہیرو اور نشان حیدر پانے والے کرنل کیپٹن شیر خان کا انتہائی خوبصورت سوینئر مگ کی صورت میں دھراہوا ہے ۔یہ مجھے ایک شیر دل غازی نے تحفتاً عطاکیا ہے ،اس کپ کے پیچھے ایک کہانی ہے ۔اگر یہ سنانے لگ پڑا تو یہ کالم نہ تو اس کی تاب لاسکے گا نہ اسکی محدود سطریں اس خوں آلود کہانی کو بیان کرپائیں گے ،بس یہ جان لیجئے کہ یہ غازی جو آج پاک فوج سے بڑے افسر کی حیثیت میں ریٹائرہونے کو ہے ،1999ء میں کیپٹن کرنل شیر خان کے ساتھ کارگل کے محاذ پر تھا اور اس نے کیپٹن کرنل شیر خان کے ساتھ کئی معرکوں میں شرکت بھی کی اور ان کی ذاتی اور پیشہ واران زندگی کو بھی بغور دیکھا ۔

اس غازی کا نام امجد بخاری ہے جو اب لیفٹنٹ کرنل ہے۔مرنجان مرنج اور علم دوست انسان کہ جس نے کارگل کے برفپوش پہاڑوں اور کھائیوں میں مورچے سنبھالے ۔

(جاری ہے)

انہوں نے جس لمحے مجھے کیپٹن کرنل شیر خان مگ بڑی محبت کے ساتھ پیش کیا تو کارگل کی یادوں کے دریچے بھی کھل گئے ۔ان کے ساتھ ان کہی کئی باتیں ہوئیں اور بات پر حیرانی اور جرأت کا نیا احساس ہی پیدا ہوتا رہا۔

میں نے جنگ کارگل کے بعد کیپٹن کرنل شیر خان سمیت کئی شہیدوں کے گھروں میں جاکر انکی سوانح عمریاں لکھی تھیں ،ان کے گھر والوں کے جذبات کو سپرد قلم کیا تھا۔کارگل کی جنگ کا احوال مکمل طور پر عسکریت کے پیمانے پر رکھ کر تحریر کیا تھا۔یہی فضا دوسرے قلمکاروں نے بھی پیدا کی تھی ،کیونکہ اس جنگ کے درپردہ حقائق کی صرف ایک ہی تصویر اُس وقت سامنے تھی۔

تاہم جب اُس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کارگل جنگ پر پنڈورا بکس کھولا تو نیا قلمی فساد شروع ہوگیا ۔انہوں نے اپنی لاتعلقی کا اظہار کردیا تھا اور کہا تھا کہ انہیں کوئی علم نہیں تھا کہ فوج کارگل میں کوئی آپریشن کرنے جارہی ہے ۔اس پر فوج کے سربراہ جنرل پرویز مشرف سمیت کئی دفاعی ذمہ داروں اور فوجی افسروں نے اس پر سخت رد عمل کا اظہار کیاتھا کہ میاں نواز شریف جھوٹ بول رہے ہیں ۔

بارہ اکتوبر 1999ء کے بعد میاں نواز شریف کے بیانیے کی فوج کے بعض فوجی افسروں نے بھی تائید کی تھی ۔ان میں ایک تو لیفٹینٹ جنرل شاہد عزیز ہیں جن کے بارے میں اب کہا جارہا ہے کہ وہ نائن الیون کے بعد پاکستان کی جانب سے امریکہ کا ساتھ دیئے جانے پر اپنی ”خطاوں “ کا کفارہ ادا کرنے کے لیئے پہلے شام کی لڑائی میں شامل ہوگئے تھے اور پھر یہ خبریں بھی آئیں کہ وہ افغانستان میں طالبان کے ساتھ مل کر ” جہاد“ کررہے تھے اور ڈرون اٹیک میں وہ شہید ہوچکے ہیں۔

جنرل صاحب نے اپنی کتاب”یہ خاموشی کہاں تک؟ “ میں کارگل کے حوالے سے ہوشربا واقعات سے پردہ اٹھایا اور یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ کارگل ایک ایڈونچر تھا جو جنرل مشرف کی ایما پر تین چار جرنیلوں نے مل کر تیار کیا تھا ۔اس وقت وہ ڈائریکٹر جنرل تجزیاتی ونگ تھے ۔کارگل پر انہوں نے بہت سے تجزئیے کئے تھے ۔انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے ” مجھے اس وقت پتہ چلا جب میرے سامنے بھارتی وائرلیس مواصلات کی انٹر سیپٹ شدہ یہ رپورٹیں رکھی گئیں جو اس امر کی غماز تھیں کہ کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے انڈین فوج افراتفری کا شکار ہے اور اس میں کھلبلی مچی ہوئی ہے۔

اس وائرلیس انٹر سیپشن نے مجھے اس لئے پریشان کر دیا کہ جو باتیں بھارتیوں کو پریشان کر رہی ہیں ان کا پتہ ہم پاکستانیوں کو کیوں نہیں؟ مَیں نے اپنے دو ماتحت افسروں کی ڈیوٹی لگائی کہ پتہ کریں کہ معاملہ کیا ہے۔ اگلے روز مجھ پر یہ حقیقت عیاں ہوئی کہ کسی نے پاکستان کی طرف سے لائن آف کنٹرول پر بعض بھارتی چوکیوں پر قبضہ جما لیا ہے اور یہ قبضہ دراس کارگل سیکٹر میں کیا گیا ہے۔

لیکن یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ لوگ مجاہدین تھے یا ریگولر پاک آرمی کے ٹروپس تھے…چنانچہ مَیں نے ان انٹر سیپٹ شدہ وائرلیس مواصلات کا پلندہ اْٹھایا اور اپنے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ضیا الدین بٹ صاحب کے دفتر میں جا پہنچا اور ان سے پوچھا کہ سر یہ کیا ہو رہا ہے؟… تب مجھے جنرل بٹ نے بتایا کہ آرمی نے کارگل ایریا میں چند چوکیوں پر قبضہ کر لیا ہے۔

اس پر مَیں نے جنرل صاحب کو یہ کہا کہ یہ ٹھیک نہیں ہوا۔ مجھے یہ سب کچھ آپ نے پہلے بتایا ہوتا تاکہ مَیں اپنا تجزیہ آپ کو پیش کر دیتا“
کتاب میں انہوں نے واشگاف الفاظ میں جنرل مشرف سمیت کئی جرنیلوں کو رگڑ دیا اور انہیں کارگل کا قصوروار قرار دیا تھا ۔انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کو اس آپریشن کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا ۔

کیا ستم ظریفی اور تجاہل عارفانہ ہے کہ جنرل صاحب انٹرسپشن کی رپورٹ لیکر جس جنرل کے پاس پہنچے وہ جنرل ضیا الدین بٹ تھے جنہیں بعد میں میاں نواز شریف نے جنرل مشرف کی جگہ آرمی چیف بنانے کی کوشش کی تھی ۔اب کیا کہیں کہ میاں نواز شریف کو جنرل مشرف کا آپریشن کارگل کرنا انتہائی برا لگا تھا مگر اس آپریشن کے ایک اہم کردار جنرل ضیا الدین بٹ پر وہ اندھا اعتماد کرنے پر تیارتھے۔

خیر کچھ ایسا ہی دعویٰ کرنل اشفاق حسین نے اپنی کتاب ”استغفراللہ جنٹلمین “میں بھی کیا تھا ۔لیکن کیسی ستم ظریفی ہے کہ بھارتی وزیر اعظم واجپائی کے ساتھ فروری 1999ء میں لاہور میں جھپی ڈال کر انہیں پاکستان کی جانب سے مکمل امن کی ضمانت دیکر میاں نواز شریف چند جرنیلوں سے دھوکہ کھا گئے اور بعد میں دعویٰ کردیا کہ جنرل مشرف نے انکی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا تھا ،انہیں کارگل کے بارے میں بتایا ہی نہیں ۔

یہ بحث تواتر سے جاری ہے کہ کارگل کی جنگ سے لاعلمی اور مکمل معلومات کے حوالے سے میاں نوزاشریف کا کردار 1999سے ہی فوج سمیت کئی اور سٹیک ہولڈرز کی نظر میں متنازعہ کیوں ہے ۔اسکا سبب یہی بیان کیا جاتا ہے کہ میاں نواز شریف کو اس بارے میں مکمل معلومات تھیں اور انہیں کارگل کے مورچوں تک بھی لے جایا گیا تھا ۔اس حوالے سے انکے اس دورہ کی کئی تصاویر بھی شائع ہوچکی ہیں ، لیکن میاں نواز شریف اسکو مکمل سچ نہیں مانتے ۔

ابھی تک ان کا یہی موقف ہے ۔لیکن ایک سوال تاہم انکی کارگل آپریشن سے حیرانی کا سبب بن جاتا ہے ۔ جب کارگل ایڈونچر ہورہا تھا اور عالمی سطح پر میڈیا نے خبریں بریک کرنا شروع کردی تھیں تو انہوں نے ملک کا سربراہ ہونے کے ناطے جنرل مشرف سمیت باقی جرنیلوں کے خلاف سخت ایکشن کیوں نہ لیا اور بارہ اکتوبر کے سانحے کا ہی انتظار کیوں کیا ؟ خیر میاں صاحب کی سیاست کو سمجھنا اتنا سہل نہیں ہے۔

اسی سیاسی بصیرت کے ہاتھوں وہ قیدو بند اور رسوائی کی ذلتیں برداشت کررہے ہیں ۔ان کا کہنا ہے وہ ملک کی خدمت کی پاداش میں یہ جبر سہہ رہے ہیں لیکن ان کے ناقدوں کا خیال اسکے برعکس ہے کہ وہ اپنی ”موٹی عقل“ کے باعث اس انجام تک پہنچے ہیں ۔
میاں نواز شریف کے سیاسی تدبر اور ان کی بصیرت کا معیار کیا تھا ،اس کا اندازہ آپ اس واقعہ سے بھی لگا سکتے ہیں جو میں آپ کو سنانے جارہا ہوں ۔

یہ واقعہ مجھے ایک ریٹائرڈ بریگیڈئر نے سنایا ہے جو کارگل آپریشن کے دوران جی ایچ کیو میں میجر تھے ۔بعد میں آئی ایس آئی میں کئی اہم ذمہ داریاں نبھاتے رہے ہیں ۔دہشت گردی کی جنگ سمیت کم از کم ایک ہزار سے زائد خطرناک آپریشن کرکے غازی کا درجہ رکھتے ہیں۔خود کئی بڑے سیاستدانوں کے کرتوتوں کے گواہ ہیں ۔
ایک دن کارگل کے ایشو پر بات ہوئی اور میں نے کہا کہ میاں نواز شریف کو تو کارگل بارے کچھ علم ہی نہیں تھا ،جنرل خود ہی فیصلے کرتے اور پھر انجام برا نکل آئے تو اس کا بوجھ وزیر اعظم پر ڈال دیتے ہیں ۔

وہ ہنسے اور کہا” میاں نواز شریف جھوٹ بولتے ہیں ۔میں خود اس بات کا گواہ ہوں کہ جنرل پرویز مشرف سمیت چند دوسرے جنرلز کے ساتھ انہیں جی ایچ کیو میں کارگل آپریشن کے حوالے سے پریزینٹیشن دی گئی تھی ۔اس وقت میں میجر تھا ۔یہ سلائیڈز وغیرہ میں خود چلا رہا تھا ۔اس وقت ماحول ایسا تھا کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف کے دائیں بائیں جنرلز بیٹھے تھے ۔

ان کے سامنے تپائی پر چائے اور دیگر لوازمات کے ساتھ برفی کی پلیٹ رکھی تھی ۔
ماحو ل انتہائی حساس اور سنجیدہ نوعیت کا تھا ۔میں بریفنگ سلائیڈز چلا رہا تھا اور ڈی جی ملٹری آپریشن انہیں بریف کررہے تھے کہ اچانک میاں نواز شریف آگے جھکے اور پلیٹ میں رکھی چاندی کے ورق میں لپٹی برفی کی ایک ڈلی اٹھائی اور منہ میں رکھتے ہوئے ستائشی نظروں سے جنرل مشرف کی جانب دیکھتے ہوئے بولے جنرل صاحب برفی بڑی مزیدار ہے ،کہاں سے منگوائی ہے ۔

وزیر اعظم کا یہ جملہ سنتے ہی یکایک سناٹا چھا گیا ،جنرلز نے بڑی حیرانی سے اپنے وزیر اعظم کی طرف دیکھا کہ اور سوچا کہ یہ کیسا سربراہ مملکت ہے جو برف زاروں میں مورچہ زن اپنے وطن کی حفاظت پر مامور جوانوں اور اس آپریشن کی اہمیت اورنوعیت کو سمجھنے سے قاصر ہے ۔ اسے صرف برفی کی پڑی ہے ۔“کارگل کی جنگ سے لاعلمی رکھنے والے سابق وزیر اعظم اور کوٹ لکھپت کے قیدی میاں نواز شریف کو شاید یہ برفی ابھی یاد ہو کیونکہ وہ کھانے کے بے حد شوقین ہیں اور جب کھانے کی کوئی مزیدار چیز سامنے ہوتو برف زاروں میں مورچہ زن کیپٹن کرنل شیر خان جیسے جوانوں کو وہ کیونکر یاد رکھیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

mian Nawaz shareef aur kargil ki Barfi is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 19 February 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.