”اومیکرون“ سے اقوام عالم میں بے چینی کی نئی لہر

پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کیلئے مشترکہ ترقیاتی ایجنڈے کو فروغ دینا ہو گا

منگل 14 دسمبر 2021

Omicron Se Aqwam e Aalam Mein Bechaini Ki Nai Lehar
محبوب احمد
واشنگٹن اور عالمی افق پر اُبھرتے ہوئے سپر پاور چین کے پاس نہ ہی انفراسٹرکچر کی کوئی کمی تھی اور نہ ہی ہسپتالوں میں بنیادی سہولیات کا فقدان لیکن پھر بھی ”کورونا“ نے ان ممالک کو ”دہشت“ میں مبتلا کئے رکھا۔2019ء میں چین سے شروع ہونے والی جان لیوا وباء نے دنیا کو انجانے خوف میں مبتلا کر رکھا ہے کیونکہ سپر پاور امریکہ کی اس موذی وائرس کیخلاف جنگ بھی بے سود ثابت ہوئی اور اب تک جہاں لاکھوں افراد لقمہ اجل بنے وہیں متاثرین کی تعداد بھی کروڑوں میں ہے۔

یورپ اور دیگر ممالک نے جہاں اس وباء سے نجات کیلئے اربوں ڈالرز لگائے وہیں بیجنگ کو بھی ابتداء میں مہلک مرض کے خلاف جنگ میں اربوں ڈالرز مختص کرنا پڑے۔

(جاری ہے)

دنیا کو عالمی ادارہ صحت کے متعین کردہ ایس او پیز کے مطابق ”کورونا“ کا پھیلاؤ روکنے کے لئے احتیاطی اقدامات کرتے ہوئے پابندیوں پر عمل کرنا پڑا جن میں جزوی اور مکمل لاک ڈاؤن بھی شامل تھا جس کے نتیجے میں کاروباری ادارے،مارکیٹس،صنعتیں اور فیکٹریاں بند ہونے سے پیداواری عمل شدید متاثر ہوا،اشیاء کی کامیابی و گرانی اور بے روزگاری نے دنیا کی معیشت کو سنگین کساد بازاری سے دوچار کر دیا۔


مہلک وباء سے جو ممالک شدید متاثر ہوئے ان میں متحدہ امریکہ پہلے،بھارت دوسرے جبکہ برازیل تیسرے نمبر پر رہا جہاں مجموعی طور پر 12 لاک کے قریب لوگ موت کی آغوش میں چلے گئے۔امریکی ریاستوں میں سے نیویارک،نیو جرسی،کیلیفورنیا،ٹیکساس،فلوریڈا،الینوائے،مشی گن،میساچوسیٹس،پنسلوانیا جیسی ریاستیں شدید متاثر ہوئیں۔جان لیوا وائرس سے برطانیہ میں ڈیڑھ لاکھ،فرانس میں 80،سپین میں 75،اٹلی اور جرمنی میں ایک لاکھ سے زائد افراد لقمہ اجل بنے انہی خوفناک حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے دنیا کے بیشتر ممالک جن میں سعودی عرب،برطانیہ،آسٹریلیا،سنگاپور،عمان،کینیڈا،جرمنی سرفہرست ہیں کو حالات کنٹرول میں آنے تک سفری پابندیاں عائد کرنا پڑیں جس نے معیشت کا بھرکس نکال کر رکھ دیا۔

2020ء کے اختتام پر مختلف ویکسینز متعارف ہونے کے بعد ایسا لگا تھا کہ شاید اس ابتر صورتحال پر مکمل قابو پا لیا گیا ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ موذی وائرس کی نئی اقسام سرفہرست ہیں نے عالمی برادری کو اب پھر سے تشویش میں مبتلا ہے کیونکہ تاحال یہ واضح نہیں ہو پا رہا کہ آنے والے دنوں میں اس وباء سے ترقی پذیر ممالک کو کتنا نقصان برداشت کرنا پڑے گا بہرحال ”کووڈ 19“ اور اب ایک نئی موذی وباء سے معیشت بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔


اومیکرون کی صورت میں ”کورونا“ انسانوں کے ساتھ ساتھ عالمی معیشت کو بھی نگل رہا ہے کیونکہ اس وائرس سے دنیا کی کئی بڑی سٹاک مارکیٹس کریش کر گئیں۔چینی قمری سال کے آغاز کے موقع پر پھوٹنے والی وباء کی وجہ سے اقتصادی کارکردگی میں شدید تنزلی دیکھنے میں آئی۔ترقی پذیر ممالک یقینی طور پر اس سے سخت متاثر ہوئے ہیں جسے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے 1930ء کی دہائی کی گریٹ ڈپریشن کہلانے والی کساد بازاری سے اب تک کا سب سے بڑا اقتصادی بحران قرار دیا۔

امریکی جریدے کی ایک رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ دنیا کی بڑی معاشی طاقتوں نے مزید مالی نقصان سے بچنے کے لئے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور گلوبل ہیلتھ سکیورٹی ڈویژن کو خبردار کیا تھا کہ عالمی ہیلتھ ایمرجنسی کے نفاذ کی صورت میں دنیا کے بڑے ممالک اور کارپوریشنز دونوں عالمی اداروں کی فنڈنگ بند کر دیں گے۔ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے اب سالانہ ماحولیاتی فنانس کی مد میں 100 ارب ڈالر کی فراہمی سے اربوں روپے کے غیر قانونی مالیاتی بہاؤ کا خاتمہ اور چوری شدہ اثاثوں کی واپسی ممکن ہو گی۔

اس میں کوئی دورائے نہیں ہیں کہ ترقی پذیر ممالک کے پاس وائرس کی شناخت اور اسکریننگ کے مناسب انتظامات موجود نہیں لہٰذا ایسی صورتحال میں مزید چوکنا رہتے ہوئے عالمی ادارہ صحت نے ”کورونا“ سے بچاؤ کیلئے جو حفاظتی تدابیر جاری کی ہیں ان پر عمل کرنا اشد ضروری ہے تاکہ اس موذی وائرس سے ہر ممکن بچا جا سکے۔
پاکستانی معیشت جو ”کورونا“ سے پہلے ہی بدحالی کا شکار تھی اسے اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لئے پی ٹی آئی حکومت کو سخت مالیاتی پالیسیاں اختیار کرنا پڑ رہی ہیں جس سے جہاں جی ایس ٹی،لیوی اور دوسری محصولات کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے وہیں ڈالر کی اُڑان بھی قابو میں نہیں رہی حالانکہ ان کٹھن حالات میں قومی معیشت کی بہتری کیلئے برادر سعودی عرب،چین اور متحدہ عرب امارات نے مجموعی طور پر 12 ارب ڈالرز کے قریب مالی معاونت کے پیکج فراہم کئے ہیں لیکن اس کے باوجود مہنگائی اور بے روزگاری کی بڑھتی ہوئی لہر نے عام آدمی کی زندگی اجیرن بنا کر رکھ دی ہے یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو اپنے منشور کے بر خلاف بیل آؤٹ پیکج کے لئے آئی ایم ایف سے رجوع کرکے عائد کردہ شرائط کی بنیاد پر ہی عالمی نرخوں سے ہٹ کر حکومت کو پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ کرنا پڑا۔

حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کی اگلی قسط کے حصول کیلئے بعض نئی شرائط بھی قبول کی گئی ہیں جن پر عملدرآمد کے لئے جلد ہی منی بجٹ لانے کا جو عندیہ مل رہا ہے وہ لمحہ فکریہ سے کم نہیں۔
انسانی تباہ کاریوں کا باعث بننے ”کورونا“ وائرس نے گزشتہ 2 برس سے دنیا کی مستحکم معیشتوں کو ہی بری طرح سے متاثر نہیں کیا بلکہ اس سے پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کا بھی اپنے پاؤں پر کھڑے رہنا بھی ناممکن ہو چکا ہے۔

ملک میں کساد بازاری کا عمل اگر ایسے ہی جاری رہا تو مہنگائی کا نیا طوفان غریب عوام کو زندہ در گور کر دے گا لہٰذا حکومت کو مجبور و مقہور انسانوں کو روزمرہ کی مشکلات سے باہر نکالنے کے لئے اپنی مالیاتی پالیسیوں پر بہر صورت نظر ثانی کرنا ہو گی۔ترقی یافتہ ممالک نے اپنی معیشت کو متحرک کرنے اور کووڈ 19 کے بحران سے نکلنے کے لئے 26 ٹریلین ڈالرز سے زیادہ کا پیکج دیا لیکن ترقی پذیر ممالک معاشی بحالی کے لئے درکار 3 سے 4 ٹریلین ڈالرز کا ایک حصہ بھی اکٹھا کرنے میں ناکام رہے ہیں لہٰذا اب یہ بات ذہن نشین رکھی جائے کہ قرضوں کی تنظیم نو اور عالمی معیشت کی بحالی کے لئے مزید وسائل مختص کرنا ناگزیر ہو چکا ہے کیونکہ پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کے لئے مشترکہ ترقیاتی ایجنڈے کو فروغ دیتے ہوئے ترقی پذیر ممالک کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی طرف سے 650 بلین کے نئے سپیشل ڈرائنگ رائٹس (ایس ڈی آرز) دینے کے علاوہ وسیع پیمانے پر رعایتی قرضے بھی فراہم کرنا ہوں گے۔

”کووڈ 19“ کے اثرات سے بحالی کی موجودہ انتہائی ناہموار رفتار کے بالعموم سب کے لئے اور بالخصوص ترقی پذیر ممالک کے لئے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں کیونکہ اس جان لیوا وائرس کے اثرات سے اس وقت تک چھٹکارہ نہیں مل سکے گا جب تک ترقی یافتہ ممالک کمزور ریاستوں کے ساتھ مکمل تعاون کرتے ہوئے ایسی پالیسیاں اختیار نہ کریں جن سے معاشی سرگرمیاں وباء سے پہلے کی رفتار پر واپس آ سکیں۔


پاکستان میں حالیہ دنوں میں ڈینگی بخار نے بھی وبائی صورت اختیار کر رکھی ہے جس کے باعث ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں لیکن یہ خوش آئند امر ہے کہ حکومت پاکستان کے ہنگامی اقدامات اور ایمرجنسی کور کمیٹی کی اب تک کی بہترین حکمت عملی سے ”کورونا“ اور ”ڈینگی“ جیسے مہلک مرض پر کافی حد تک قابو پا لیا گیا ہے کیونکہ ہیلتھ اسٹیبلشمنٹ کا تربیت یافتہ عملی سکریننگ کے نظام کو یقینی بنانے کے علاوہ وزارت صحت میں قائم ایمرجنسی آپریشن سیل بھی صورتحال کو مانیٹر کر رہا ہے۔

پاکستان جسے اب 2021ء کے لئے گروپ آف سیونٹی سیون (جی 77) نامی بین الاقوامی تنظیم کا سربراہ منتخب کیا گیا ہے یہاں بھی دیگر ممالک کی طرح موذی وباء کے باعث جانی نقصان کے ساتھ ساتھ معیشت کو جو زبردست جھٹکا لگا اور اس کی وجہ سے جو مسائل پیدا ہوئے ان سے نکلنے اور اقتصادی بحالی میں ایک لمبا وقت درکار ہو گا لہٰذا ایسے میں عالمی برادری پر اب بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے اس وائرس کے اثرات پر کنٹرول کرنے کے لئے مل کر ایسے پیشگی اقدامات کرے جس سے ترقی پذیر ریاستوں کی ہر ممکن مدد ہو سکے بصورت دیگر عالمی معیشت کو کساد بازاری کی ایک نئی بدتر صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Omicron Se Aqwam e Aalam Mein Bechaini Ki Nai Lehar is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 14 December 2021 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.