قابل برداشت جب رہتا نہیں درد حیات

خودکشی عالمی سطح پر انسانی سماج کے لئے ایک بہت سنگین مسئلہ اختیار کر چکا ہے۔ دنیا میں ہر چالیس سکینڈ میں ایک شخص خود کشی کا ارتکاب کرتا ہے اس حساب سے مجموعی طو رپر تعداد لاکھوں میں شمار کی جا سکتی ہے

کنول زریں بدھ 28 اگست 2019

qabil e bardasht jab rehta nahi dard e hayat
انسان اپنی نفسی خواہشات کا غلام بن چکا ہے۔ بچہ، نوجوان اور بوڑھا ہر بندہ کسی نہ کسی طرح اپنی خواہشات کے حصار میں قید ہے۔ انسان جسے اشرف المخلو قات کا درجہ عطا کیا گیا ہے۔ تمام دوسری مخلوقات سے اسکو اسکی طرز زندگی، سوچ و افکار کے وسیع و مختلف انداز کی بدولت فو قیت حاصل ہے۔ اسکا دماغ اور ذہن بہت وسیع ہے اسکی یہی خاصیت اسکو باقی تمام مخلوقات سے ممتاز بناتی ہے۔

انسان اپنے اچھے، برے صحیح اور غلط میں تمیز کر سکتا ہے۔ لیکن اسکے باوجود اسکی عقل و شعور کے تمام دروازے بند ہو چکے ہیں اور وہ خدا کی دی ہوئی نعمت ِ زندگی سے چھٹکارا پانے کے لئے خودکشی جیسے گناہ کا مرتکب ہو رہا ہے۔ موجودہ دور جسکو سائنس و ٹیکنالوجی کا دور بھی کہا جا تا ہے۔ اس میں انسان خودکشی کی طرف مائل ہو رہا ہے اور اس کے رحجان میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

(جاری ہے)


خودکشی عالمی سطح پر انسانی سماج کے لئے ایک بہت سنگین مسئلہ اختیار کر چکا ہے۔ دنیا میں ہر چالیس سکینڈ میں ایک شخص خود کشی کا ارتکاب کرتا ہے اس حساب سے مجموعی طو رپر تعداد لاکھوں میں شمار کی جا سکتی ہے۔ اگر اعدادو شمار کیا جائے تو دنیا میں سالانہ دس لاکھ لوگ خود کشی کے نیتجے میں ہلاک ہو جاتے ہیں۔ خود کشی کی کوشش کرنے والوں میں ہر بیس میں سے ایک شخص اپنی زندگی کا دیا بجھانے میں کامیاب ہو جاتا ہے جبکہ باقی انیس افراد ناکام رہتے ہیں۔

خود کشی کے ذریعے اپنی زندگی کو ختم کرنے کا رحجان پندرہ سے پچیس سال کی عمر یعنی ٹین ایجر اور نوجوانوں میں زیادہ دیکھنے میں آیا ہے۔
دنیا میں 2020 ء تک خود کشی کے نتیجے میں ہونے والی اموات کی تعداد پندرہ لاکھ سے بھی تجاوز کر جائے گی۔ دنیا میں سب سے زیادہ خودکشی کی شرح ساوٴتھ کوریا میں ہے۔ اگر ترقی یافتہ ممالک کی بات کی جائے تو یہ بھی اس دور میں پیچھے نہیں ہیں۔

یورپ جسکو دنیا سے بھی تشبہیہ دی جاتی ہے کہ بہت سے ممالک میں خودکشی کو قانونی حیثیت حاصل ہے اور وہاں باقاعدہ خود کشی سینٹرز قائم ہیں جہاں خود کشی کرنے والے کو آسان طریقے سے موت کو گلے لگانے کے لئے سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ مغربی ممالک میں خودکشی کی زیادہ تر رحجان عمر رسیدہ افراد، غریب اور کم تعلیم یافتہ شہریوں میں پایا جا تا ہے۔ دوسری طرف تیسری دنیا میں بھی خودکشی معمول سی بن گئی ہے۔

عالمی سطح پر خود کشی کی سب سے بڑی وجہ ڈپریشن کو قرار دیا گیا ہے۔ لیکن اسکی اور بھی بہت سی وجوہات ہیں مالی پریشانیاں اور گھریلو جھگڑے، بیماری، معاشی بحرانوں کے باعث بے روزگاری، امتحان و محبت میں ناکامی، وغیرہ کے باعث انسان کی قوت برداشت ختم ہونے کے سبب مذکورہ رحجان میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
دیکھا جائے تو ہر طبقہ اقدام خودکشی کا حریص نظر آتا ہے۔

2008ء میں ایک انگریزی میگزین The Week میں کئے گئے سروے کے مطابق 72 فیصد مصنفین،42 فیصد فنکار،41 فیصد سیاست دان اور36 فیصد مفکر حضرات اقدام خود کشی کرتے ہیں۔ چونکہ ڈپریشن کو خود کشی کی سب سے بڑی وجہ قرار دیا گیا ہے۔ عالمی سطح پر ایک نگاہ دوڑائی جائے تو ہر پانچ افراد میں سے تیسرا شخص اس بیماری کے سبب ڈاکٹر سے رجوع کرتا ہے۔ WHO نے ڈپریشن کو اکیسویں صدی میں امراض کی فہرست میں پہلے نمبر پر رکھاہے۔

یونیسکو کے مطابق پو ری دنیا میں 50 فیصد بچے تناوٴ بھرے ماحول میں پرورش پاتے ہیں، جو آگے چل کر ان کے لئے ڈپریشن کا سبب بنتا ہے۔ ہندوستان میں 72 فیصد طلبہ ڈپریشن سے کیسے نمٹا جائے اس سے ناواقف ہیں اور یہی ناواقفیت ان کے اقدام ِ خودکشی کا باعث بنتا ہے۔
خود کشی کی بہت سی وجو ہات میں دورِ حاضر کی اہم وجہ سمارٹ فون کا کثرت سے استعمال بھی ہے۔

امریکہ کی ایک یونیورسٹی کے محققین نے اپنی تحقیق میں اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ نو عمروں کا موبائل اسکرین پر گزارا جانے والا وقت ان میں ڈپریشن اور خود کشی کے خطرات کو بڑھا دیتا ہے۔ ایک اور جگہ تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وہ نوجوان جو موبائل اور کمپیوٹر اسکرین سے ہٹ کر کھیل کود، دوستوں سے روبرو ملاقاتوں، گھریلو کاموں میں زیادہ دلچسپی لینا اور اپنی فیملی کو زیادہ وقت دیتے ہیں وہ نسبتاً زیادہ خوش رہتے ہیں۔

اور اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 48 فیصد نو عمر بچے جو پانچ یا اس سے زیادہ گھنٹے الیکٹران آلات کا استعمال کرتے ہیں ان میں خودکشی کی ذہنیت کو واضح طور پر محسوس کیا گیا ہے۔ پر تشدد مناظر یاس و قنوطیت اور بالآخر خودکشی پر ابھارنے والے گیمز بچوں کو نفساتی طور پر بالکل تباہ کر رہے ہیں۔ بلیو وھیل اور اب مومو گیم چیلنج، جیسی گیمز نو عمروں کو اپنی طرف راغب کر رہی ہیں۔

بلیو وھیل گیم جس نے کئی لوگوں کی جان لی ہے اور اب ایک نئی گیم مومو گیم چیلنج نے بھی اپنے پنجے گاڑنے شروع کر دیے ہیں جسکا نشانہ کولمبیا میں 48 گھنٹوں کے دوران ایک16سالہ لڑکے اور ایک 12 سالہ لڑکی کی خودکشی کی صورت میں سامنے آئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق یہ دونوں بچے ایک دوسرے کو جانتے تھے اور لڑکے نے ہی اس لڑکی کے ساتھ گیم شئیر کیا تھا بچوں کے ساتھ ساتھ ہمارے بڑوں کو بھی اس سے آگاہی ہونی چاہیے کہ ان کے بچے کس قسم کی گیمز کھیل رہے ہیں۔

مومو گیم دراصل سوشل میڈیا اکاوٴنٹس یعنی واٹس ایپ، یوٹیوب اور فیس بک پر لنک کے ذ ریعے شئیر کیا جاتا ہے اس میں ایک خوفناک آرٹ تصویر کو استعمال کیا جاتا ہے جسے Mother bird by link factory)) کہا جا رہا ہے تاکہ بچوں میں تجسس پیدا کر دیا جائے۔ا س کے لنکس سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہو ر ہے ہیں جو کہ جان لیوا ثابت ہو رہے ہیں۔ ان لنکس میں کچھ مختلف چیلنجز ہیں جنھیں پورا نہ کرنے کی صورت میں دھمکایا جاتا ہے اور بچوں کو خودکشی کرنے پر مائل کیا جاتا ہے۔

اگر ذہن پر زور دیا جائے تو گزشتہ برس بلیو وہیل گیم وائرل ہوا تھا جو 50چیلنجز پر مشتمل تھا جسکا آخری چیلنج خودکشی تھا۔ اس چیلنج کے نیتجے میں بہت سے نو عمر اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ تاہم ان دونوں گیمز پر وزارت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) نے پاکستان میں پابندی عائد کر رکھی ہے۔ بہرحال پھر بھی ان جیسی گیمز کو ایک خطرے کی گھنٹی کے طو ر پر دیکھا جانا چایئے۔

دورحاضر میں ہونے والے بہت سی تحقیقات سے ثابت ہو چکا ہے کہ نوجوان نسل میں خود کشی کے رحجانات گزشتہ کئی دہائیوں کی نسبت بہت بڑھ چکے ہیں۔ بلکہ نوجوان طبقے میں کوخود کشی کرنے والوں میں زیادہ تعدا لڑکیوں کی ہے۔ امیرکہ میں اسکا تیسرا نمبر ہے۔ ایران کے مغربی صوبے عیلام کے شہر ایوان کو خود کشی کے وسیع رحجان کے سبب شہرت حاصل ہے۔ اسکا یہ شہر جسکی ایک تہائی آبادی خودکشی کر چکی ہے۔

لمحہ فکریہ ہے۔ پاکستان میں کوئی آفیشل نیشنل ڈیٹا ریکارڈ موجود نہیں کہ جس سے اندازہ ہو سکے کہ پاکستان میں سالانہ بنیادوں پر ہونے والی خود کشیوں کی شرح کیا ہے۔
 1995 میں ریکارڈ کئے گئے ایک ڈیٹا کے مطابق عورتوں کی شرح 25۔65 فیصد اور مردوں کی شرح 10سے25 فیصد ہے۔ جبکہ پنجاب اور سندھ میں یہ شرح دوسرے صوبوں کی نسبت زیادہ ہے۔ صوبہ پنجاب میں ہر برس 6 ہزار افراد سے زائد اقدامِ خود کشی کرتے ہیں۔

پچھلے سال کے صرف اگر پہلے7 ماہ کو دیکھا جائے تو اس دوران 2458 سے زائد مردوں و خواتین نے موت کو گلے لگایا۔ صوبائی دارالحکومت میں گزشتہ 7 ماہ کے دوران خودکشی کے 412 جبکہ ا قدام خودکشی کے1800 سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے۔ ذرائع کے مطابق خود کشی اور اقدامِ خودکشی کے متعدد واقعات رپورٹ نہیں ہوئے یا شہریوں نے بدنامی کے ڈر سے اور بعض دیگر وجوہات کی بنا پر یہ واقعات منظر عام پر نہیں آنے دئیے۔

۔ پاکستان میں خود کشیوں کے رحجان کے حوالے سے کراچی پہلے اور لاہور دوسرے نمبر پر ہے۔
حکومت پاکستان نے 2001ء میں مینٹل ہیلتھ آرڈینس جاری کیا لیکن آج تک اس آرڈینس کو صحیح معنوں میں نافذ نہیں کیا جا سکا۔ اگر ہم اس بات کا جائزہ لیں کہ ایسے کتنے افراد ہیں جو اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کی شمع گل کر لیتے ہیں تو حقیقی اعدادو شمار کا ملنا شائد نا ممکن ہو کیونکہ اس طرح کے تمام واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے اور جو ہوتے ہیں ان کی شرح انتہائی کم ہے۔

عالمی غیر سرکاری اداروں کی جانب سے جاری کردہ رپورٹوں کے مطابق دنیا بھر میں خودکشی کرنے والے نوجوانوں کی تعداد ایک چوتھائی سے زیادہ ہے جبکہ پاکستان میں خود کشی کرنے والے افراد میں نوجوانوں کی شرح میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے اور اجتماعی خودکشیوں کے واقعات بھی رونما ہو رہے ہیں۔
اقوام متحدہ نے 1990 میں خودکشی سے بچاوٴ کے لئے بین الاقوامی پالیسی کو منظوری دی۔

اور 10 ستمبر2003 کو پہلی مرتبہ خودکشی سے بچاوٴ کا عالمی دن قرار دیا گیا۔ اس کے بعد اس دن کو دنیا بھر میں لوگ اپنے گھروں کی کھڑکیوں کے پاس ایک عدد شمع جلا کر خود کشی کے نیتجے میں ہلاک ہونے والوں کو یاد کر نے کے علاوہ خود کشی کرتے ہوئے بچنے والے افراد کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتے ہیں اور ساتھ ہی اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اس سماجی مسئلہ سے متعلق رائے عامہ کو ہموار کیا جائے اور خودکشی سے روک تھام کے لئے مختلف سرگرمیاں، پالیساں اور منصوبے بنا کر سماج سے اس لعنت کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔

اقدامِ خود کشی کو پوری دنیا میں قانونی جرم تسلیم کیا جاتا رہا ہے لیکن اب عالمی سطح پر اس با ت کی کو شش کی جا رہی ہے کہ اقدامِ خودکشی کو جرم کی فہرست سے نکال دیا جائے۔ ہندوستان سمیت تقریباً 58 ممالک نے اس ضمن میں پیش رفت دکھائی ہے۔انڈین پینل کوڈ کی دفعہ 309 کے تحت اقدمِ خود کشی کرنے والے شخص کو ایک سال تک جیل میں رکھنے کا قانون تھا لیکن 8اگست 2016 کو حکومتِ ہند نے مینٹل ہیلتھ کئیر بِل کو منظوری دے دی ہے لہذا اب اقدمِ خود کشی کرنے والے شخص کو مجرم سمجھنے کی بجائے ذہنی صحت کی بہتری کے لئے علاج و معالجہ کی سہولت فراہم کی جائے گی۔

ہندوستان میں اعدادو شمار کے مطابق 2014 سے 2016 کے درمیان 26600 طلبہ نے خودکشی کی۔سال 2015 میں 8934طلبہ نے اور سال 2014 میں 8068 طلبہ نےء خودکشی کی۔2016 میں طلبہ کی خودکشی کے سب سے زیادہ واقعات 1350 مہاراشٹر میں واقع ہوئے جبکہ مغربی بنگال میں 1147، ٹملناڈو میں 981 اور مدھیہ پردیش میں 938 واقعات رونما ہوئے۔2015 میں خودکشی کرنے والے مہاراشٹر میں,1230ٹملناڈو میں 955، چھتیس گڑھ میں 730 اور مغربی بنگال میں 676 واقعات رونما ہوئے۔

بعض گوشوں سے ایسی بھی خبریں گردش کر رہی ہیں کہ ہندوستان میں ہر گھنٹے میں ایک طالب علم موت کو گلے لگاتا ہے جسکے لئے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے 2015 کے اعدادو شمار کا بھی تجزیہ کیا گیا۔ خودکشی روبروز ایک ناسور کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔ اسلام نے خودکشی جیسے گھناوٴنے فعل کو حرام قرار دیا ہے اور فرمایا کہ جو کوئی بھی یہ عمل کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا نافرمان اور جہنمی ہے خدا نے انسان کی تخلیق کی اور اسکو زمین پرا پنا نائب مقرر کیا۔

ہماری زندگیاں خدا کی دی ہوئی امانت ہیں۔ بنی نوع انسان کو اس کو ختم کرنے کا کوئی حق نہیں۔اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ:۔”اور اپنی جانوں کو ہلاکت میں مت ڈالو۔ بے شک اللہ تعالیٰ تم پر مہربان ہے اور جوکوئی تعدی اور ظلم سے ایسا کر ے گا تو ہم عنقریب اسے دوزخ کی آگ میں ڈال دیں گے اور یہ اللہ پر بالکل آسان ہے۔“
ہمارا مذہب اسلام خودکشی کو درکنار مایوسی اور جو خود کشی کی طرف بڑھنے والا پہلا قدم ہے اس کو بھی حرام قرار دیتا ہے۔

اسلا م خود کشی کی کسی تو جیہ کو قبول نہیں کرتا حتی کہ شدید بیماری اور معذوری کی حالت میں بھی نہیں۔ حضرت ایوب علیہ اسلام نے کئی برس بیماری کی شدت میں گزارے لیکن صبر کا دامن اس یقین کے ساتھ نہیں جانے دیا کہ جس خدا نے اس آزمائش میں ڈالا ہے وہ ضرور اس میں سرخرو بھی کرے گا۔ اور ان کے اس یقین کی بدولت خدا نے ان کو شفا ئے کامل عطا فرمائی۔ حضرت جندب ? سیروایت ہے کہ ایک شخص جو غزوے میں بڑی بہادری سے لڑ رہا تھا لیکن جب زخمی ہوا تو اس نے خود کشی کر لی۔

اللہ تعالی نے فرمایا کہ”میرے بندے نے اپنے اوپر موت میں جلدی کی سو میں نے اس کے لئے جنت کے دروازے بند کر دیئے۔“ نہ تو اسکی بہادری کسی کے کام آئی اور نہ اسکی شجاعت۔ خود کشی نے اس کے سارے اعمال ضائع کر دئیے۔یہاں تک کہ اسکا جہاد بھی ضائع ہو گیا۔ حدیث نبوی? کی رو سے جس نے خود کو جس طرح ہلاک کیا وہ دوزخ میں اسی طریقے سے مارا جائے گا۔ نبی اکرم کا رشاد ِ مبارک ہے کہ”جس نے خود کو لوہے کے ٹکڑے سے مارا اسے دوزخ میں اسی لوہے کے ٹکڑے سے مارا جائے گا۔

“ اسلام اپنی تعلیمات، افکار کے اعتبار سے امن و سلامتی، خیرو عافیت اور حفظ و امان کا دین ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں صبر کو ذہنی و نظریاتی مسائل کے حل کے طو ر پر پیش کیا ہے۔ قرآن میں فرمایا جا تا ہے کہ”ور نہ ہم ضرور تمھیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدینوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے آزمائیں گے۔ ان حالات میں جو لوگ صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں گے اور مصیبت میں صرف اللہ پر ہی تو کل رکھیں گے کہ ہماری جان و مال سب خدا کی امانت ہے، اسی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

تو انہیں خوشخبری دے دو کہ ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایت ہو ں گی۔(البقرہ) اس آیت میں رجوع الی اللہ اور صبر کو خود کشی کے سد باب کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ خود کشی کے متبادل کے طور پر صبر کی بہترین مثال ہمیں حضرت ایوب علیہ السلام کے اسوہ مبارکہ میں دیکھنے کو ملتی ہے۔
نہ صرف اسلام بلکہ مختلف مذاہب میں خود کشی جیسے حرام فعل کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔

ہندوازم میں اپنے آپ کو مار نے کا گناہ کسی اور کو مارنے کے گناہ کے برابرہے۔ کچھ لکھنے والوں کا یہ عیسائیوں کے مطابق انسان کی زندگی اسکے خدا کی ملکیت ہے۔گویا اسلام سمیت کوئی بھی مذہب خود کشی جیسے قبیح و حرام فعل کی قطعاً اجازت نہیں دیتا۔ خود کشی کی بہت سی وجوہات ایسی ہیں جو ہر خطے میں یکساں پائی جاتی ہیں۔جیسے والدین کی نافرمانی، دین سے دوری، ڈپریشن، گھریلو جھگرے، ناچاقیاں، بے روزگاری، غربت و افلاس، امتحان و محبت میں ناکامی وغیرہ ایسے اہم و جو ہات ہیں جن کی بنا پر نوجوان طبقہ زندگی جیسی انمول نعمت کو ٹھکرا کر کفران ِ نعمت کر رہا ہے۔

خود کشی کے رحجانات کو کم کرنے کے لئے سب سے پہلے والدین کو اپنے بچوں پر خصوصی توجہ دینا ہو گی۔ ان کو مذہب سے مکمل آگاہی دی جانی چاہئے، غلط اور صحیح میں تمیز کرنی سیکھائی جائے گھریلو ناچاقیوں کو بچوں پر ہر گز ظاہر نہ ہونے دیا جائے۔ بچوں کو زندگی کے نشیب و فراز، سرد و گرم، تلخ و ترش حالات کا مکمل طو ر پر علم فراہم کریں۔ بچوں کو مسائل کاڈٹ کر مقابلہ کرنے اور انہیں حل کرنے کا ہنر سکھائیں، بچوں پر کسی بھی قسم کا دباوٴ ڈالنے کے بجائے ان میں امید، حوصلہ اور ہمت کو جاگزیں کریں۔

والدین کے ساتھ ساتھ اساتذہ پر بھی یہ ذمہ داری مکمل طو رپر عائد ہوتی ہے کہ وہ بچوں کے مسائل اور ان کی ذہنی حالت کا صحیح ادراک کریں ان کے ذہنوں میں محنت اور جستجو کی اہمیت کو اجاگر کریں۔ بتا ئیں کہ مسلسل محنت و جستجو سے مشکل اور ناممکن سے ناممکن کام کو آسان اور ممکن بنا یا جا سکتا ہے۔ موت کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہوتی۔یہ ایک بزدلانہ اور حرام فعل ہے ان کو بتائیں کہ زندگی میں جتنی بھی مشکلیں آئیں ان کا ڈٹ کر مقابلہ کریں ان سے فرار اختیار کرنے کے لئے اپنی جان گنوانا کوئی بہادری نہیں ہے بلکہ اپنی زندگی سے مسائل و مشکلات کو فرار ہونے پر مجبور کر دینا ہی اصل بہادری ہے۔

۔ اساتذہ اور والدین طلبہ اور نوجوانوں کی ذہن سازی کو اولیت دیں اور بتائیں کہ ہر مشکل سے باہر نکلنے کاراستہ موجود ہے لیکن نوجوانوں کو وہ راستہ تلاش
کرنے کی ضرورت ہے۔ والدین، اساتذہ اور سماجی ذمہ داران ان نئی نسل کو نا امیدی، ڈپریشن اور ذہنی تناوٴ کو کم کرنے اور اس سے نجات پانے کے طریقوں کی تعلیم و تربیت فراہم کریں۔ اذیت ناک و واقعات، تکالیف سے باہر نکلنے کا حوصلہ اور طریقے، معاشی، معاشرتی اور سماجی دباوٴ کو کنٹرول کرنے کے گر سکھائیں۔

خود کشی کے واقعات پر مکمل قابو پانا یقیناً ناممکن ہے۔ لیکن اس میں کمی ضرور لائی جا سکتی ہے۔ شعور و آگہی، کونسلنگ و رہنمائی جیسے اقدام خود کشی کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے بے جا استعمال سے آج کا انسان تنہائی کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ اکثر تنہائی و اکیلے پن کی بدولت انسان خودکشی اور شدت پسندی کی جانب خاموش پیش قدمی کرتا ہے۔

اس لئے ٹیکنالوجی کے بے جا استعمال اور اس کے مضر اثرات سے نوجوان نسل کو آگاہی فراہم کی جائے۔ جدید ٹیکنالوجی کے باعث کھیل کے میدان و یران اور دیگر تفریحی سرگرمیاں ماند پڑتی جا رہی ہیں۔ نوجوان نسل کو گھٹن اور اضطراب سے باہر نکالنے کے لئے کھیل کود اور اسپورٹس کے شعبوں کو فعال بنانے کی ضرورت ہے تاکہ طلبہ کھیل کو تفریح اور ورزش کے ذریعے اپنی زندگی کی مسرتوں کا لطف اٹھا سکیں۔

نوجوانوں کو بھی اپنے عقل کے دوار کھول کر فہم و فراست سے کام لے کر آئندہ زندگی کے لئے لائحہ عمل تیار کرنا چایئے۔ ان کو صحیح اور غلط میں پہچان کرنی چاہئے۔ اپنی سوچوں کے رخ بدلتے ہوئے ایسے راستوں کا انتخاب کریں جو لاکھوں کے حجم غفیر میں بھی انہیں صحیح سمت اور منزل کی جانب لے جاتے ہوں۔ مثبت اور صحیح سمت صرف طاقت میں پنہاں ہے۔ خود کشی مایوسی اور دینی تعلیم سے دوری کا نیتجہ ہے۔

اسلام ہمیں سادہ اور تضع و بناوٹ سے پاک زندگی گزارنے کا حکم دیتا ہے اور تلقین کرتا ہے کہ تاحیات صبر استقلال کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔
مشہور سوشل میڈیا نیٹ ورک ویب سائٹ ،فیس بک نے خود کشی کے رحجان کو سمجھنے کے لئے بعض ایسے انتظامات کئے ہیں کہ جس کی مدد سے خود کشی کے رحجان رکھنے والے افراد کی شناخت کر کے انہیں بر وقت مدد فراہم کی جائے گی تا کہ وہ اس قدم سے محفوظ رہیں۔ فی الوقت یہ تجربات امریکہ اور کچھ دیگر ترقی یافتہ ممالک میں کئے گئے ہیں۔ عالمی سطح پر بھی یہ سہولت پہنچانے کی کوش کی جا رہی ہیں۔ یہ تمام تجربات کس حد تک خود کشی کی روک تھام کر پائیں گے اسکا تعین تو آنے والا وقت ہی کر ے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

qabil e bardasht jab rehta nahi dard e hayat is a social article, and listed in the articles section of the site. It was published on 28 August 2019 and is famous in social category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.