قرضے دبا کر سیاسی وفاداری بدلنے کی علت

پی ٹی آئی کی معاشی ٹیم کو چاہئے کہ ملک کو درپیش مسائل کو دو حصوں میں تقسیم کر دیں اور ان مسائل کے حل کو ترجیحات میں شامل کریں جن کا حل ہو جانا دیگر مسائل کے خاتمے میں مددگار ہو سکتا ہے۔

جمعہ 28 ستمبر 2018

qarzay daba kar siyasi wafadaari badalny ki illat
رانا زاہد اقبال
پاکستان کی معیشت خطرات میں گھرتی چلی جا رہی ہے، معیشت کی شرح نمو، ٹیکسوں کی وصولی، بچتوں و سرمایہ کاری کی شرحیں، برآمدات، غذائی قلت اور غربت کی صورتحال گزشتہ برسوں اور خطے کے دوسرے ممالک کے مقابلے میں خراب ہوتی چلی جا رہی ہے۔ افراطِ زر، مہنگائی، عوام کی تکالیف و محرومیاں اور ملک پر قرضوں کا بوجھ ناقابلِ برداشت حد تک بڑھ چکا ہے۔

ایسے حالات میں تحریکِ انصاف کو حکومت بناتے ہی بہت سے چیلنجز کا سامنا ہو گا۔ سب سے اہم معیشت کی بحالی کا ہے۔ اس وقت قومی خزانہ بالکل خالی پڑا ہے۔ ملک پر اس وقت 94بلین ڈالر کا قرضہ ہے۔ تجارتی خسارہ خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ ملک کے پاس 12ارب ڈالر کے زرِ مبادلہ کے ذخائر رہ گئے ہیں جب کہ اگلے چند دنوں میں امپورٹ بل کی مد میں 12ارب ڈالر ہی چاہئے ہیں۔

(جاری ہے)

عوام کی اکثریت اقتصادی امور کی پیچیدگیوں کو سمجھنے سے قاصر ہے لیکن الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے تبصروں نے انہیں کنفیوذ کیا ہوا ہے۔ اس مشکل صورت سے نکلنے کے لئے وسائل کی ضرورت ہو گی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وسائل کیسے پیدا کئے جائیں گے کہ تحریکِ انصاف کی حکومت اقتصادی بحران پر قابو پا سکے۔ ایک عام طریقہ یہ ہے کہ عوام پر بھاری ٹیکس لگائے جائیں لیکن عوام پہلے ہی بھاری ٹیکسوں تلے دبے ہوئے ہیں۔

وسائل کے حصول کا دوسرا طریقہ عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لیا جائے۔ لیکن یہاں یہ مشکل ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے کڑی شرائط اور بھاری سود کے بغیر قرض نہیں دیتے اگر قرض لیا گیا تو ہر حال میں ان کی شرائط پوری کرنا پڑیں گی۔ شرائط پوری کی جاتی ہیں تو عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہم عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھائے اور عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لئے بغیر اپنی معیشت کو ترقی نہیں دے سکتے؟ یقینا ہم ملکی وسائل سے معیشت کو ترقی دے سکتے ہیں۔

لیکن اس حوالے سے جن اقدامات کی ضرورت ہے کیا ہم ایسے اقدامات کر سکتے ہیں؟ مثلاً بجٹ سے مختلف ترقیاتی پروگراموں کے لئے اربوں روپے مختص کرتے ہیں کیا یہ اربوں روپے واقعی ہی ترقیاتی کاموں پر خرچ کئے جاتے ہیں؟ عام تاثر یہ ہے کہ قومی بجٹ اور غیر ملکی قرضوں سے جو اربوں روپے کے وسائل اکٹھے کئے جاتے ہیں اس کا بڑا حصہ اراکینِ اسمبلی حکمران اشرافیہ کی نظر ہو جاتا ہے۔


سوال یہ ہے کہ وسائل کی فراہمی کیسے ممکن ہو، اس کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ملک و قوم کی اپنی دولت واپس لائی جائے۔ پاکستانیوں کے بیرونِ ملک کاروبار، جائیدادیں اور بنک اکاؤنٹس ہیں۔ جن لوگوں نے قومی وسائل لوٹ کر یا ٹیکس بچانے کے لئے دولت بیرونِ ملک منتقل کر دی ایسی دولت وطنِ عزیز میں لانے کے لئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح کھربوں روپے ملک کے نامور شرفاء نے قرضوں کی شکل میں بینکوں سے لئے اور بعد میں قرض معاف کروا لئے۔

بینکوںسے بھاری قرضے لینے اور پھر انہیں سیاسی وابستگی کی بنیاد پر معاف کرانے کی داستان بڑی طویل ہے۔ ماضی میں سب سے زیادہ زرعی قرضے ترقی کے نام پر بڑے بڑے جاگیر داروں نے حاصل کئے۔ تاجر، صنعت کار اور کاروباری طبقے کے افراد بھی صنعتی ترقی کے نام پر اس دوڑ میں شامل تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو اپنے قرضوں کی معافی کے لئے سیاسی وفاداریوں بھی تبدیل کرتے رہے۔

اس طرح انہوں نے جمہوری عمل کو نقصان پہنچایا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قومی معیشت کو متزلزل کرنے اور مالیاتی اداروں کو دیوالیہ کرنے میں کون سے عناصر سرِ فہرست تھے۔ لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ ماضی کی کسی بھی حکومت نے اس بد عنوانی اور لوٹ مار کا نوٹس لینے اور قومی سرمائے کی واپسی کے لئے کوئی قدم اٹھانے کی زحمت ہی نہیں کی۔ پاکستان میں براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری بہت کم ہوگئی ہے۔

غیر ملکی سرمایہ کاری کم ہونے کا سیدھا مطلب یہی ہے کہ سرمایہ کاروں کو یہاں کے حالات کی وجہ سے اپنے سرمائے کے محفوظ رہنے کا یقین نہیں ہے۔ اس ساری صورتحال کا تقاضا ہے کہ داخلی سطح پر حالات بہتر بنانے کی کوشش کی جائے، ضروری ہے کہ نہ صرف دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کو جلد از جلد اس کے منطقی انجام تک پہنچایا جائے بلکہ سرمایہ کاری میں کمی کا سبب بنے والے دیگر معاملات پر بھی توجہ دی جائے تا کہ ملک میں پہلے سے جاری مالی بحران کو شدت اختیار کرنے سے روکا جا سکے۔

بیرونِ ملک پاکستانی بھی اس سلسلے میں مددگار ہو سکتے ہیں انہیں ترغیب دے کر ملک میں سرمایہ کاری کرائی جا سکتی ہے یا جو پیسہ انہوں نے باہر کے ملکوں کے بینکوں رکھا ہوا ہے اور وہاں سے وہ جوریٹ آف ریٹرن لے رہے ہیں اس سے زیادہ آفر کر کے ملک میں لانے کے لئے کہا جا سکتا ہے۔ متوقع وزیرِ خزانہ اسد عمر نے کہا ہے کہ سوئس بینکوں میں پڑے 200بلین ڈالرز واپس لانے کے لئے ان کی حکومت ایک ٹاسک فورس بنائے گی۔

یہ ایک اچھی تجویز ہے جس پر حکومت بنتے ہی پراسس سٹارٹ ہو جانا چاہئے۔ حکومت کو ٹیکس وصولیوں میں بھی ناکامی کا سامنا ہے ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کے اقدامات کر کے زیادہ ٹیکس اکٹھا کیا جا سکتا ہے۔ حکومت ان تمام شعبوں پر جو اب تک ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں ٹیکس لگا کر آمدنی بڑھاسکتی ہے۔ دوست ممالک سے بھی مدد لی جا سکتی ہے۔ جو ادارے سٹریٹیجک نوعیت کے نہیں ہیں لیکن خسارے میں چل رہے ہیں ان کی حالت میں بہتری لا کر ان کی نجکاری کی جا سکتی ہے۔

ڈالر بانڈز ایشو کر کے بھی آمدنی بڑھائی جا سکتی ہے۔ زراعت میں بہتری لا کر زرعی آمدنی میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ اس بات سے سبھی آگاہ ہیں کہ پاکستان کی معیشت کا زیادہ تر انحصار زرعی شعبے پر ہے چنانچہ اس کی بہتری پر توجہ دے کر اقتصادی استحکام کی منزل حاصل کی جا سکتی ہے۔ عالمی معیشت کا جائزہ لیا جائے تو تو یہ حقیقت آشکار ہو گی ترقی یافتہ صنعتی ممالک نے بھی یہ معراج زراعت کو ترقی دے کر حاصل کی ہے۔

یہ ممالک آج بھی اپنے زرعی شعبے کو بے تحاشا سبسڈیز فراہم کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی زرعی پیداوار سستی ہوتی ہے اور ملکی معیشت کے استحکام میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ ہمارے اس شعبے کی ترقی کی رفتار ماضی میں قدرے بہتر رہی لیکن اب حالات تشویشناک صورت اختیار کر رہے ہیں اور صورتحال یہ ہے کہ ہمیں اپنی بہت سی غذائی ضروریات زرعی اشیاء درآمد کر کے پوری کرنی پڑتی ہیں۔

زراعت میں تحقیق کا عمل سست رفتاری کا شکار ہے۔
پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہوتے ہی اسے ملکی مسائل حل کرنے کے لئے کمر بستہ ہو جانا چاہئے کیونکہ ان مشکل حالات میں مسائل حل کئے بغیر معاشی استحکام حاصل کرنا ممکن نہیں۔ پی ٹی آئی کی معاشی ٹیم کو چاہئے کہ ملک کو درپیش مسائل کو دو حصوں میں تقسیم کر دیں اور ان مسائل کے حل کو ترجیحات میں شامل کریں جن کا حل ہو جانا دیگر مسائل کے خاتمے میں مددگار ہو سکتا ہے۔

سرِ دست جو معاملات فوری طور پر توجہ کے متقاضی ہیں ان میں توانائی کا بحران، زرعی شعبے کے مسائل، صنعت کی زیادہ پیداواری لاگت، روپے کی قدر میں کمی اور امن و امان کی صورتحال سرِ فہرست ہیں۔ ان میں سے ہر بحران ایسا ہے جو اگر حل ہو جائے تو وہ دوسرے کو از خود حل کر دے گا۔ مثلاً سستی اور وافر بجلی میسر آ جائے تو صنعت کی پیداواری لاگت میں کمی آئے گی اس طرح ہماری مصنوعات بیرونی منڈیوں میں مقابلہ کر سکیں گی اور ہماری ایکسپورٹ میں اضافہ ہو سکے گا۔

زرعی شعبے کے مسائل حل ہو جائیں تو نہ صرف عوام کو زرعی اجناس سستی ملیں گی بلکہ وافر پیداوار برآمد بھی کی جا سکے گی جب کہ ملک کے سب سے بڑے برآمدی شعبے ٹیکسٹائل کو اہم خام مال یعنی کپاس وافر میسر آئے گی۔ اگر ہم مناسب حکمتِ عملی اختیار کر لیں تو امید کی جا سکتی ہے کہ ہمیں اپنی ضروریات کے لئے کسی عالمی اقتصادی ادارے کی طرف نہ دیکھنا پڑے

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

qarzay daba kar siyasi wafadaari badalny ki illat is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 28 September 2018 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.