شفاف انتخابات کے انعقاد میں اپوزیشن کا تعاون ناگزیر

قومی اتفاق رائے سے ہی درپیش مسائل سے چھٹکارہ حاصل ہو گا

جمعہ 17 دسمبر 2021

Shafaf Intekhabat Ke Ineqad Mein Opposition Ka Tawun Naguzeer
رحمت خان وردگ
تحریک انصاف کی حکومت کی ناکامی میں بہت بڑا حصہ بیوروکریسی کے رویے اور عدم دلچسپی کا بھی ہے جو یہ سمجھتی ہے کہ موجودہ حکومت کے فیصلے درست نہیں یا کئی جگہ جان بوجھ کر مسائل کے حل کے معاملے تعطل کا شکار کئے گئے ہیں تاکہ موجودہ حکومت ناکام ہو لیکن بیوروکریسی کی ان تمام تر کوششوں کے بعد حکومت بھی بیوروکریسی کو لگام دینے میں مکمل طور پر ناکام و بے بس نظر آتی ہے۔

بیوروکریسی کے پاس کوئی کام روک لینے کا سب سے بڑا بہانہ تو ”نیب“ کا ڈر ہے اور اسی بنیاد پر عوامی فلاح کے کئی منصوبے طویل عرصے سے تعطل کا شکار ہیں۔عوام اسلام آباد میں وفاقی وزراء،سیکریٹریز اور ڈپٹی سیکریٹریز کے دفاتر میں سارا سارا دن بیٹھ کر آجاتے ہیں لیکن بیوروکریسی کے اعلیٰ افسران انہیں مل کر مسائل سن لینے کیلئے ہی تیار نہیں مسائل کا حل تو دور کی بات ہے۔

(جاری ہے)

گزشتہ دنوں ایک کام سے میں خود اسلام آباد گیا اور ملک امین اسلم نے ایک بیوروکریٹ کو فون کرکے کہا کہ میں رحمت خان وردگ کو آپ کے پاس بھیج رہا ہوں اور اس کا مسئلہ سمجھ کر حل کرا دیں میں اس بیوروکریٹ کے دفتر دوپہر 12 بجے پہنچ گیا اور انہوں نے اپنے سیکریٹری کو کہا کہ 10 منٹ بعد بلاؤں گا لیکن یہ 10 منٹ 3 گھنٹے میں پورے ہوئے جب ملاقات ہوئی تو ان کا رویہ ایسا تھا کہ وہ مسئلہ سننے کیلئے ہی تیار نہیں تھے‘اس کو حل کرنا تو دور کی بات ہے۔

وفاقی حکومت کو چاہئے کہ ہر وزارت کے دفتر میں اپنی پارٹی کا ایک نمائندہ بھی بیوروکریسی کو کنٹرول کرنے کیلئے بیٹھائیں جو عوام کے مسائل کے حل کے لئے تیز پیشرفت کرانے کا ذمہ دار ہو اور بیوروکریسی سے کام لے سکے اگر تاریخ میں تحریک انصاف کی ناکامی کی دیگر وجوہات کے بارے میں لکھا جائے گا تو ایک وجہ بیوروکریسی کا عدم تعاون بھی ہو گا اور بیوروکریسی کے پاس نیب سے ڈر کا بہانہ موجود ہے اسی لئے اب تک ملک بھر میں کوئی قابل قدر کام نہیں ہوا۔

حکومت کی ناکامی میں اپوزیشن کا کوئی کردار نہیں بلکہ اپنی کابینہ کے اراکین ہی اس حکومت کی بدترین کارکردگی کی وجہ ہیں جو ٹیلی ویژن پر بیٹھ کر بھڑکیں تو مارتے ہیں لیکن عملی طور پر بیوروکریسی ان کے کنٹرول میں نہیں اور ان کی حکومت کے عوام سے کئے گئے کسی وعدے پر عملی طور پر عمل نہیں ہو سکا۔حکومت میں بلدیاتی نظام کو اہمیت نہیں دی گئی اسی لئے بھی بیوروکریسی بے لگام ہے اور عوام کے مسائل بڑھ رہے ہیں۔


جنرل مشرف کے دور حکومت میں بیوروکریسی مکمل طور پر فعال تھی اور ہر کام فوری طور پر مکمل کرکے عملدرآمد کو یقینی بنایا جاتا تھا۔مشرف دور حکومت میں بیوروکریسی کسی کام کو سرخ فیتے کا شکار نہیں کر سکتی تھی کیونکہ جنرل مشرف نے مقامی حکومتوں کا ایک بااختیار نظام ملک بھر میں رائج کیا تھا جس میں ڈپٹی کمشنرز اور ڈی سی اوز براہ راست ناظمین کے ماتحت تھے اور عوامی نمائندے ان سے عوام کے مسائل کے حل کے تمام کام لیتے تھے۔

کسی ڈپٹی کمشنر یا ڈی سی او کی جرات نہیں ہوتی تھی کہ وہ عوام کے مسائل کے حل کیلئے یقینی منصوبوں کو روک سکیں یا تعطل کا شکار کر سکیں۔جنرل مشرف دور حکومت میں دنیا شاہد ہے کہ پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں سب سے زیادہ ترقیاتی کام ہوئے اور کراچی کے ناظم کو ایشیاء کا بہترین ناظم قرار دیا گیا۔تحریک انصاف کے قائدین نے قوم سے وعدے کئے تھے کہ ہم اقتدار میں آکر عوام کی تمام تر مشکلات جلد از جلد ختم کرکے ملک کو ایک مثالی ملک بنا دیں گے اور انہی دعوؤں پر عوام نے انہیں الیکشن 2018ء میں منتخب کیا اور امید باندھ لی کہ تحریک انصاف کی حکومت آتے ہی پہلے دن سے تبدیلی نظر آئے گی لیکن بدقسمتی سے مثبت تبدیلی کے بجائے منفی تبدیلی آئی اور حکومت حالات بہتری کی جانب لے جانے کے بجائے مہنگائی،بے روزگاری سمیت دیگر بنیادی مسائل میں اضافے کو کنٹرول نہیں کر سکی۔

حالانکہ حکومت کو پہلے تین سال اپوزیشن کی کسی مزاحمت کا سامنا نہیں تھا اور انہیں حکومت کرنے میں کھلی چھوٹ حاصل تھی خیر اپوزیشن تو اب بھی امور حکومت میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں بن سکی۔حکومت کی اب تک کی کارکردگی سے متوسط طبقہ شدید مایوسی کا شکار ہو چکا ہے اور متوسط طبقے میں حکمراں جماعت کی ہمدردی میں زبردست کمی آئی ہے۔بجلی ٹیرف،کھانے پینے کی اشیاء کی مہنگائی،بے روزگاری سمیت مسائل میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور حکمراں جماعت سے عوام کی امیدوں کو زبردست ٹھیس پہنچی ہے۔

وزراء کے پاس ٹی وی پر اپنی کارکردگی بتانے کے لئے کچھ بھی نہیں اور صرف سابق حکمرانوں پر الزام تراشی کرکے تمام مسائل کا ذمہ دار انہیں ٹھہرا کر بری الذمہ ہونے کی کوشش کی جاتی ہے۔
حکومت کی جانب سے عام آدمی کے لئے کوئی آسانی پیدا نہیں ہو سکی اور متوسط طبقہ حکومت سے متنفر ہے۔اپوزیشن سے ملکی مسائل کے حل‘قانون سازی‘نظام میں تبدیلی سمیت اہم ترین ایشوز پر بات چیت کرنے میں کیا مضائقہ ہے؟اس طرز کی بات چیت کو بھی این آر او قرار دینا درست نہیں اگر حکومت اپوزیشن مل بیٹھ کر عوامی مسائل کے حل ،مہنگائی میں کمی،بے روزگاری میں کمی،فوری ضرورت کی موٴثر قانون سازی،بلدیاتی،انتخابی،انتظامی اور عدالتی نظام کی تبدیلی سمیت اہم ترین ایشوز پر بات چیت کرکے قومی اتفاق رائے سے تمام سیاستدان ایک معاہدہ کریں جس پر مل جل کر فوری عملدرآمد کیا جائے اس سے ملک کی معیشت اور عوام کے مسائل پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے اس طرح کی بات چیت سے اپوزیشن میں بھی یہ اعتماد آئے گا کہ حکومت ہم نے اہم قومی ایشوز پر مشاورت کرتی ہے اور آئندہ انتخابات کے ہر صورت شفاف انعقاد کے لئے حکومت کو اپوزیشن کی تجاویز پر غور کرکے قابل عمل تمام تجاویز مان لینی چاہئیں اس طرح کرنے سے اپوزیشن کی تحریک میں تلخی کا عنصر ختم ہو گا۔

عوام کو اپنے مسائل کا حل چاہئے۔ملک کی مضبوطی معیشت کی مضبوطی میں مضمر ہے اور ان تمام چیزوں کے لئے سیاسی افہام و تفہیم ضروری ہے۔حکومت کو چاہئے کہ فوری طور پر جنرل مشرف کی طرح بااختیار بلدیاتی نظام رائج کرکے بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات و وسائل دیئے جائیں اور بیوروکریسی کو عوامی نمائندوں کے ماتحت کیا جائے۔بیوروکریسی کو لگام دیکر عوام کے مسائل حل کرنے کے لئے انقلابی اقدامات نہ کئے گئے تو عوام کے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Shafaf Intekhabat Ke Ineqad Mein Opposition Ka Tawun Naguzeer is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 17 December 2021 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.