تیز رفتاری

اس وقت ہمارے ملک میں دہشت گردی سے جان بحق ہونے والے افراد کی شرح کم با نسبت روڈایکسیڈینٹ سے اموات ہونے کی شرح بہت زیادہ ہے

 SajawaL Bajwa سجاول باجوہ پیر 4 مارچ 2019

taiz raftari
تیز رفتاری زندگی کے کچھ معاملات میں ہونی چاہیے، کیونکہ زندگی میں نہ تو بہت تیز دوڑنا ہے نہ ہی رُک جانا ہے بلکہ چلتے ہی رہنا ہے اور اسی کا نام زندگی ہے ۔ہمارے معا شرے کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہمیں جن کاموں میں تحمل اور صبرکا مظاہرہ کرناچاہیے وہاں ہم جلد بازی سے کام لیتے ہیں اور جہاں پر ہمیں جلد با زی سے کا م کرنا چاہیے وہاں پرہم مستقل مزاجی اورخود کو بہت آرام دہ رکھ کر کام کرتے ہیں ۔

جس کہ نتائج میں ہم ناکام ،بے بس اور لاچار ہوجاتے ہیں۔جیسا کہ نقل و حمل کے تمام ترذرائع میں مستقل مزاجی اورصبر سے کام لینا چاہیے،کیونکہ یہی وہ ذرائع ہیں جس میں انسان تیزی کی و جہ سے بہت سی زندگیوں سے ہا تھ دھو بیٹھا ہے۔ 
ہمارے معاشرے میں آئے دن ہونے والے حادثات کی بڑی وجہ تیز رفتاری ہے۔

(جاری ہے)

کیونکہ ہم لوگ جب بھی کسی کام کے لیے نکلتے ہیں تو اس کام کہ کچھ وقت پہلے نکلتے ہیں جس کی وجہ سے ذہن میں یہ بات ہوتی ہے کہ جلدی پہنچنا ہے اور اسی وجہ سے ہم اگر موٹر سائیکل پر سفر کر رہے ہو ں تو بہت تیز رفتار سے سفر کرتے ہیں تاکہ وقت پر پہنچا جا سکے اور وقت پر پہنچتے ہوئے بہت سے لوگ روڈ حادثات کی وجہ سے اپنی زندگی کھو دیتے ہیں ۔

روڈ حادثات کی شرح پہلے سے بہت بڑھ چکی ہے چند سال پہلے اس کی شرح بہت کم تھی لیکن حالیہ سروے کے مطابق شرح اموات بہت بڑھ چکی ہے جس میں سڑک کے حادثات میں وقوع پذیرہونے وا لی اموات کی شرح سر فہر ست ہے۔ہمیں چاہیے کہ نقل وحمل کے کسی بھی ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے اطمینان قلب سے کام لینا چاہیے،تا کہ حادثات سے بچا جا سکے اور سڑکوں کا ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونا بھی سڑکی حادثات کی بڑی وجہ ہے۔

ہم سب کو چاہیے کہ خود کو حادثات سے بچائیں سب کی یہی کوشش ہونی چاہیے۔
پر اس وقت ہمارے ملک میں دہشت گردی سے جان بحق ہونے والے افراد کی شرح کم با نسبت روڈایکسیڈینٹ سے اموات ہونے کی شرح بہت زیادہ ہے۔کیونکہ آئے دن حادثات سے لاشوں کے انبار لگے ہوتے ہیں جس میں پوری قوم میں خوف و حراس پیدا ہوجاتی ہے، گھروں کے گھر اجڑتے دیکھنے کو ملتے ہیں۔

اللہ تعالی سب کو خیرو عافیت سے رکھے کیونکہ اس طرح کی صورت حال میں جب کسی بھی انسان کا اپنا بیچھڑ جا تا ہے تو اس کا غم ،تکلیف اور دکھ صرف وہی جانتا ہے ۔اسلام آبادمیں ایک سال میں نیشنل ہائی وے رپورٹ کے مطا ق ٹریفک حادثات سے 16000--15000کی تعداد میں لوگ وبال جان بن رہے ہیں ۔ اس کہ علاوہ پورے ملک میں ایک سال کی شرح اموات پرکھی جائے تولاکھوں نکلے گی۔

بڑے شہروں میں زیادہ تر حادثات صرف ڈرائیور کی غلطیوں سے پیش آتے ہیں ،اور پھر اس میں بھی لوگ ایک دوسرے پر الزام تراشی کر رہے ہوتے ہیں جو کہ بہت غلط بات ہے غلطی ہوجانے پر یا غلطی کرنے والے کو اپنی غلطی تسلیم کرنی چاہیے ۔اور ایک سروے کے مطابق یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ زیادہ تر لوگوں کی اموات 15--29 سال کی عمر میں ہورہی ہیں۔ جوکہ نوجوان طبقہ ہے اور نوجوان طبقہ ہی ہر قوم کا بہترین سرمایہ ہوتا ہے اگر اسی کی زیادہ تعداد ختم ہوتی جائے تو وہ قوم پستی کی طرف چلی جاتی ہے اور زوال کا شکار ہوجا تی ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن 2014 کے سروے کے مطابق ہر سال 30310 لو گ مر رہے ہیں جس کا اگر فیصد نکالا جائے تو پاکستان کا2.69% بنتا ہے۔اس سروے کے مطابق آبادی کے حصے میں ہر 100000میں سے بیس لوگ جان بحق ہو رہے ہیں ۔ جس کی مد میں اگر دیکھا جائے تو پوری دنیا میں پاکستان روڈایکسیڈینٹس میں 67نمبر پر آرہا ہے۔حالانکہ 2013 میں رپورٹ کے مطابق 2030سڑکی حادثات شمار کیے گئے ہیں۔

بہ نسبت صوبہ سندھ،بلوچستان اور خیبر پختونخوا،صوبہ پنجاب ان حادثات کی شرح میں سر فہرست ہے کیونکہ صوبہ پنجاب کی آبادی ایک سروے میں بارہ کروڑہے۔پاکستان بیورو شماریات کی 2014 کی رپورٹ کے مطابق پولیس تھانہ میں 8885 سڑکی حادثات کے بیان درج ہوئے جس میں4672 جان بحق تھے۔
 اس کے علاوہ ایک دوسری رپورٹ 2004--2013کے مطابق 97739 ملک میں حادثات ہوئے جس میں 51416 وبال جان بنے تھے، اس محاسبہ کے مطابق اگر دیکھا جائے تو صوبہ پنجاب میں اموات کی تعداد 29524 ،سندھ میں 9639 ، خیبر پختونخوا میں 9494 اور بلوچستان میں 2250شمار کی گئی۔ لیکن گزشتہ سال 2018 کے اعدادو شمار کے مطابق ان تمام شماریا ت سے چھ گناہشرح بڑھ چکی ہے جو کہ تعداد کے حوالے سے حد سے بھی زیادہ تجاوز کر چکی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

taiz raftari is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 04 March 2019 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.