وزیراعظم مہاتیر بن محمد کا دورہ پاکستان

ترانوے سالہ ڈاکٹرمہاتیر محمد کو اگرجدید ملائشیا کا بانی کہا جائے تو اس میں کوئی مبالغہ آرائی نہ ہوگی- ان کا سیاسی سفر ہمہ جہت کامرانیوں سے عبارت رہا- کامیاب لیڈرشپ کا پیمانہ کھٹن حالات میں درست فیصلہ سازی ہے

Zazy Khan زازے خان پیر 1 اپریل 2019

wazir e azam mahateer bin muhammad ka dora pakistan
ملائشیا کے وزیراعظم اور عالم اسلام کی ممتاز حکمران شخصیت ڈاکٹر مہاتیربن محمد " یوم پاکستان" کے موقع پرسہ روزہ دورے پر تشریف لائے جو کئی حوالوں سے اہمیت کا حامل رہا- وطن عزیز جسے گزشتہ چند سالوں سے سفارتی تنہائی کا سامنا تھا، گراں قدر مہمان کی آمد سے اس تاثر کی نفی ہوئی-
 ڈاکٹرمہاتیر چونکہ عالمی کارزار سیاست میں ایک قدآور شخصیت ہیں لہذا ان کی آمد سے بدخواہوں کے مفادات پرکاری ضرب پڑنے کا امکان ہے- دورے کی اہمیت میزبان ملک میں سرمایہ کاری سے بھی ظاہر ہوتی ہے- شنید ہے کہ ایک ارب ڈالر سرمایہ کاری متفرق شعبہ جات بشمول ٹیلی کام، آٹوموبائل، زراعت، سیاحت، اور حلال فوڈز وغیرہ میں کی جائے گی- اسی سلسلے میں مفاہمت کی کئی یادداشتوں پردستخط کیے گئے- ملائشیا نے پاکستان میں مقامی سطح پر تیارکردہ جے ایف تھنڈر17، حلال گوشت، چاول ودیگر مصنوعات میں خصوصی دلچسپی کا اظہار کیا-
ترانوے سالہ ڈاکٹرمہاتیر محمد کو اگرجدید ملائشیا کا بانی کہا جائے تو اس میں کوئی مبالغہ آرائی نہ ہوگی- ان کا سیاسی سفر ہمہ جہت کامرانیوں سے عبارت رہا- کامیاب لیڈرشپ کا پیمانہ کھٹن حالات میں درست فیصلہ سازی ہے- وزیراعظم مہاتیرمحمد نے ثابت کیا کہ اگر حکمران قیادت دور اندیش اور حکمت شناس ہوتو ترقی کی منازل قلیل مدت میں سرعت سے طے کی جاسکتی ہیں- ملائشیا کی ترقی وخوشحالی ان کی بصیرت اور حکمت کا عملی مظہرہے- 1981ء میں جب مہاتیرمحمد نے ایک جمہوری عمل کے ذریعے عنان حکومت سنبھالی تو ملائشیا کی حیثیت ایک ایسے جزیرہ نما کی تھی جس کی کل معیشت پام تیل اور ربڑ تھی-
محض دو عشرے قبل 1957ء میں برطانوی نوآبادیاتی تسلط سے آزاد نوخیز ریاست ملائشیا کو اپنی بقا کا سوال درپیش تھا- غربت اورعسرت کا دور دورہ تھا- قوم قبائل میں منقسم تھی- واضح رہے کہ ملائشیا 69 فیصد مالے نسل، 23 فیصد چینی النسل جبکہ قریب 7 فیصد ہندوستانی نسل پر مشتمل ایک کثیرالاثقافتی ملک ہے- نسلی تقسیم گہری اور صدیوں سے موجود، جس کے اثرات آج بھی محسوس کیے جاسکتے ہیں- نسلی برتری کے باعث ایک عرصہ تک خانہ جنگی کے بادل بھی منڈلاتے رہے-
غربت، کمیاب وسائل اور منتشرقوم ایسے پیچیدہ مسائل ملائشیا کو وراثت میں ملے- ان چیلنجز کے پیش نظر ڈاکٹر مہاتیرمحمد نے تعمیرو ترقی کا ایک جامع روڈمیپ تیارکیا- ریاست کی پائیدار بنیادوں پرترقی ایک معیاری تعلیمی نظام میں پوشیدہ ہے- اس کلیہ کے تحت تعلیم پر خصوصی توجہ دی گئی- انگریزی زبان اگرچہ برطانوی نوآبادیاتی دور سے سماج کا حصہ تھی مگر اسے سرکاری زبان کا درجہ دے کر تعلیمی نصاب کا لازمی جزو بنا دیا گیا- محض رسمی تعلیم پر زور نہیں بلکہ ووکیشنل ٹریننگ کو مساوی اہمیت دی- نتیجہ ہنرمندوں کی کثیرکھیپ کی صورت برآمد ہوا-
تعلیمی میدان سرکرنے کے بعد ملائشیا نے معاشی اصلاحات کا ڈول ڈالا- ہنرمند تعلیم یافتہ نئی پود، سیاسی استحکام اور انتظامی اہلیت وہ نسخہ ہائے کارگرثابت ہوئے کہ ملائشیا کی سرزمیں بیرونی سرمایہ کاری کے لیے زرخیز تصور کی جانے لگی- ملائشیا نے فقط سرمایہ کی منتقلی پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ سرمایہ کاروں کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ اپنی مصنوعات مقامی طور پر تیار کریں- پالیسی کے دور رس نتائج برآمد ہوئے- ملائشیا محض اسمبلنگ پلانٹ کے طور پر نہیں بلکہ ایک صنعتی طاقت بن کرابھرا- ٹیکنالوجی کی منتقلی سے مختصر عرصہ میں جن اشیاء پرکبھی میڈ ان جاپان یا جرمنی کندہ تھا، وہاں میڈ ان ملائشیا ثبت ہونے لگا- پام تیل اور ربڑ کی برآمدات کی جگہ الیکڑونکس کی مہنگی مصنوعات نے لے لیں- وقت بدلا تو ترجیحات بدلیں- انہیں بدلتے تقاضوں کے پیش نظر مزید جدت واختراعات سے معیشت کو متنوع کیا گیا- اسلامک فنانس اور ٹورازم اس وقت ملائشین معیشت میں ایک بڑا اہم کردار ادا کررہے ہیں- ملکی ترقی کے نتیجے میں برآمدات بڑھیں تو ادائیگیوں کا توازن بھی درست ہوا، زرمبادلہ کے زخائر کے ساتھ رنگٹ کی قدر بھی مستحکم ہوئی-
انفراسڑکچر یعنی ذرائع مواصلات کسی بھی ملک کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں- مہاتیرمحمد اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھے لہذا اس شعبہ کی ترقی پر بھرپورتوجہ دی گئی- سڑکوں، پلوں، عمارتوں، بندرگاہوں کا جال بچھا دیا گیا- مواصلات میں پہم سرمایہ کاری کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ملائشیاء کا انفراسڑکچر پورے ایشیاء میں آٹھویں جبکہ دنیا میں پچسویں نمبرپہ ہے- کوالالمپور کی پہچان ہی پیٹروناس ٹوین ٹاورز، دیدہ زیب عمارتیں اور کشادہ سڑکیں ہیں-
مہاتیرمحمد نے ایک طویل اقتداری ِاننگ کھیلی- 1981ء میں منتخب ہونے والی حکومت کا تسلسل 22 سالوں تک قائم رہا جو حکومتی کارکردگی پر عوامی اعتماد کا مظہرتھا- ان کی زیرقیادت ملائشیا دن دگنی رات چگنی ترقی کرتا رہا- حکومتی پالیسیوں کے سبب معاشی شرح نمو 7 فیصد رہی جو ایشیاء میں چین کے بعد بلند ترخیال کی جاتی ہے- اقتدار کے اس طویل دور میں کئی بحران بھی آئے، سب سے مہلک 1997 کا کرنسی بحران تھا جس میں مشرق بعید کی کئی ریاستیں آ گھریں عالمی بساط پر بچھائی گئی شطرنج کے کھلاڑیوں نے جب سرمایہ نکالنا شروع کیا تو ناپائیدار بنیادوں پرکھڑی معیشتیں منہدم ہوتی چلی گئیں- قبل اس کہ ملائشین معیشت بھی زمین بوس ہوتی، مہاتیرحکومت نے بروقت اقدامات اٹھا کر معیشت کو سنبھالا-
 2003ء میں باوجود عوامی اصرار کے فعال سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور قیادت مروجہ جمہوری اصولوں کے مطابق پارٹی کی سینئر کمان کو منتقل کردی- ملکوں کی تاریخ گواہ ہے کہ دیانت دارقیادت کا ظہور شاز ہی ممکن ہوتا ہے- ڈاکٹرمہاتیرمحمد کی انقلابی قیادت میں جہاں ملائشیا نے ترقی کے جھنڈے گاڑے وہیں ان کے نائبین اقتدار واختیار کے رسیا نکلے- گزشتہ 15 سالوں میں اگرچہ ملائشیا میں ترقی کا عمل جاری وساری رہا مگرکار سیاست میں بدعنوانی، بدانتظامی، اور اپنوں کو نوازنے کا مکروہ عمل بھی عروج پاتا رہا-
حالات جب ناقابل تلافی نہج پہ پہنچے تو اپنی پیرانہ سالی کو پس پشت ڈال کرسیاسی کنوئیں کو مصّفا کرنے کی ٹھان لی- 2018 کے الیکشن میں ایک بارپھر بھاری مینڈیٹ لے کراقتداری نشست پربراجمان ہوئے- حکومتی بھاگ ڈورسنبھالتے ہی کرپٹ عناصر پرعرصہ حیات تنگ کرنا شروع کردیا اگرچہ سیاسی وقانونی قدغنوں کے باعث یہ عمل سست روی کا شکار ہے- گزشتہ حکومتی دور میں کیے جانے والے ایسے تمام کاروباری معاہدے جن کا غیرمنصفانہ بوجھ عوام پہ پڑنا تھا، انہیں کلی منسوخ کیا جارہا ہے یا بااندازدیگر شرائط دہرائی جا رہی ہیں- ابھی جب یہ سطورتحریر کی جارہی ہیں تو عالمی میڈیا پرخبر ہے کہ چین کے ساتھ ریلوے کے ایک معاہدے میں طے شدہ لاگت میں 2.5 ارب ڈالر تک کمی کی جاچکی ہے- ان کا سخت گیر موقف اس بات پر دلیل ہے کہ ملکی وعوامی مفادات سے بالاترکچھ نہیں، ریاستوں سے تعلقات کا محور اسی مقصد کے تحت ہونا چاہیں-
ڈاکٹرمہاتیرمحمد ہمیشہ اتحاد بین المسلمین کے داعی رہے- وہ مسلم ریاستوں کے مابین معاشی، اقتصادی وسیاسی تعاون پرزور دیتے رہے- مسلم امہ کو ناسور کی طرح رستے دو دیرینہ مسائل فلسطین اور کشمیرکے حق میں ہمیشہ صدائے احتجاج بلند کرتے رہے- اسرائیلی جارحیت پران کا موقف امہ کی بہترین ترجمانی کرتا ہے- امریکی وصہیونی ریشہ دوانیوں کو ببانگ دہل آشکار کرتے رہے- گیارہ ستمبر کے تناظر میں دہشت گردی کی جنگ کو مسلم ریاستوں کے وسائل پر قبضے کی ایک منظم سازش قرار دیتے ہیں-
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان انہیں اپنا سیاسی راہنما مانتے ہیں- ان کی دیانت داری، سیاسی تدبر، اور معاشی حکمت عملی کے شدید معترف ہیں- ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے حکمران ان کے سیاسی تجربات سے مستفید ہوں- پاکستان کو لاحق دائمی مسائل غربت، بیروزگاری، غیرمعیاری تعلیم وصحت، اور معاشی بدحالی کے حل میں ان کے تجربات سے فائدہ اٹھائیں تاکہ وطن عزیز بھی سیاسی ومعاشی استحکام کی منازل طے کرسکے- 

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

wazir e azam mahateer bin muhammad ka dora pakistan is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 01 April 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.