یہ جاننا مشکل نہیں !

آج انسانی شعور نے بیماریوں کے پھیلاوٴ اور ان کی روک تھام کا جو علم حاصل کر لیا ہے اس بنا پر وہ اس قابل ہو گیا ہے کہ ان وباوٴں کا بروقت سد باب کر سکے ۔ اس وبا کے پھیلاوٴکے اسباب پر بات ہو سکتی ہے مگر اس کے ساتھ ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ اللہ نے انسانوں کو علم و شعور کی جو دولت عطا کی ہے اسے معطل نہیں چھوڑاجاسکتا

Muhammad Irfan Nadeem محمد عرفان ندیم پیر 10 فروری 2020

yeh janna mushkil nahi !
آ پ تصورکریں اگر کرونا وائرس آج سے پانچ چھ سو سال قبل دنیا پر حملہ آور ہوتا تو کتنی تباہی پھیلاتا۔ اس تباہی کا اندازہ آپ بلیک ڈیتھ یا طاعون سے لگا سکتے ہیں ، 1330 میں وسطی ایشیا اور چین میں پسو نے انسانوں کو کاٹنا شروع کر دیا ، پسو کے پیٹ میں پرسینیا پیسٹس نامی جرثومہ پرورش پاتا تھا ، پسو کے کاٹنے سے یہ جرثومہ انسانوں میں منتقل ہونا شروع ہو گیا، انسانوں سے یہ جراثیم حشرا ت الارض اور چوہوں تک پہنچے اوران کے ذریعے سے یہ پورے یورپ ،ایشیا اور شمالی افریقہ میں پھیل گئے۔


 کچھ ہی عرصے میں ایشیا اور یورپ کی ایک چوتھائی آبادی موت کے منہ میں چلی گی۔اس وبا سے متاثر ہونے والے افراد کو پہلے تیز بخار ہوتا تھااور پھر جسم پر کپکپی طاری ہوجاتی تھی۔ بدن میں شدید درد اورجلد پر پھوڑے، پھنسیاں اور گلٹیاں بننا شروع ہوجاتیں تھیں، رگیں پھول کر باہر آجاتی تھیں ، جسم کا رنگ بدل جاتا تھا اور مریض سوکھ کر ہڈیوں کا ڈھانچہ بن جاتاتھااور آخر میں ہڈیاں اور ہاتھ پاوٴں کے ناخن سڑ کر سیاہ ہو جاتے تھے۔

(جاری ہے)

 چودہویں صدی کے اختتام تک یورپ اور ایشیا میں دس کروڑ افراد بلیک ڈیتھ کا نشانہ بنے۔سولہویں صدی میں یہ وبا استنبول میں آئی اور چالیس فیصد آبادی کو اپنے ساتھ لے گئی ، اس وبا کا شکار ہونے والوں میں سلطان سلیمان عالیشان کے وزیراعظم ایاز پاشااور نائب امیر البحر مصطفی پاشا سمیت کئی اعلیٰ حکام بھی شامل تھے۔
 انیسویں صدی کے آخر میں یہ وبا ایک ڈائن کی شکل میں ہندوستان پر حملہ آور ہوئی اورممبئی اور کراچی کے لاکھوں لوگوں کو اپنے ساتھ لے گئی۔

آپ چیچک کی وبا کو دیکھ لیں ، پانچ مارچ 1520کو ایک ہسپانوی بحری بیڑا کیوبا سے میکسیکو روانہ ہوا ، اس بحرے بیڑے میں نو سوسپاہی ، گھوڑے ، ہتھیار اور چند افریقی غلام شامل تھے ، ایک افریقی غلام فرانسسکو ڈی ایکویا کے جسم میں اربوں کھربوں خلیات کے ساتھ چیچک کا وائرس بھی ساتھ سفر کر رہا تھا ، جب یہ بحری بیڑا میکسیکو کے ساحل پر اترا تو فرانسسکو کے جسم پر خوفناک دانے نکل چکے تھے ، یہ چیچک کا وائرس تھا ، فرانسسکوکو ایک مقامی ریڈ انڈین کے گھر ٹھہرایا گیا ، وہاں سے یہ وائرس اس گھر کے افراد ، محلے اور بعد ازاں پورے علاقے میں پھیل گیا ، شہر کے شہر اس بیماری کا شکار ہوئے ، ستمبر 1520تک یہ بیماری پورے میکسیکو اور اکتوبر تک ازٹیک کے دارا لحکومت ٹینوخ ٹٹلان تک پہنچ گئی ، ڈھائی لاکھ لوگوں کایہ عظیم الشان شہر آنا فانا ہلا ک ہوگیا اور ہلاک ہونے والوں میں ازٹیک کا بادشاہ کوئیٹ لاواک بھی شامل تھا ۔

چیچک بھی ایک وبائی مرض تھا، اس بیماری میں جسم پر چھوٹے بڑے دانے اورپھنسیاں نکل آتی تھیں، اس کے ساتھ سردرد ، بخار اور کمر درد بھی شروع ہوجاتاتھا، یہ دانے ابتدا میں سرخ اور بعد میں سفیدی مائل ہوجاتے تھے اور ان میں پیپ پڑ جاتی تھی۔ اگر مریض زندہ بچ جاتا تو اس کی کھال پر چیچک کے دانوں کے نشانات زندگی بھر موجود رہتے تھے۔
 ایک اندازے کے مطابق بیسویں صدی تک تقریبا 30 سے 50 کروڑ لوگ اس بیماری سے ہلاک ہوئے۔

میکسیکو کی تباہی کے صرف دو صدیاں بعد اٹھارہ جنوری 1778میں برطانوی مہم جو کپتان جیمز کک جزیرہ ہوائی پہنچا ، جزیرہ ہوائی ایک خوبصورت جزیرہ تھا جو دنیا سے الگ تھلگ مکمل تنہائی میں آباد تھا ،اس کی آبادی پانچ لاکھا فراد پر مشتمل تھی اور یہاں کے باشندے انتہائی صحت مند تھے لیکن پھر جیمز کک یہاں پہنچا اور جزیرہ ہوائی بیماریوں کا گڑھ بن گیا ، جیمز کک نے پہلی بار یہاں فلو اور تپ دق کے جراثیم متعارف کروائے ، اس کے بعد آنے والے یورپی سیاحو ں نے یہاں بخار اور چیچک کے جراثیم پھیلادیے اور انیسویں صدی کے وسط تک یہاں پانچ لاکھ میں سے صرف ستر ہزار باشندے زندہ بچے، باقی چار لاکھ تیس ہزار ان بیماریوں اور وباوٴں کا شکار ہو گئے ۔

 1918میں دنیا کو ایک عالمگیر وبائی فلو کا سامنا کرنا پڑا ، یہ بیماری اتنی خوفناک تھی کہ ہر دوسرا شخص سامنے کھڑے شخص کو متوحش نظروں سے دیکھتا تھا کہ کہیں اس کو چھینک نہ آجائے اور یہ بیماری اس میں منتقل نہ ہو جائے ۔پوری دنیا ایک انجانے خوف میں مبتلا تھی، جنگ عظیم اول جاری تھی اور شمالی فرانس میں خندقوں میں موجود ہزاروں فوجی اس وبا کا شکار ہو چکے تھے ، جنگ کی وجہ سے میڈیا پر پابندیاں تھیں ، اسپین جنگ کا حصہ نہیں تھا اس لیے میڈیا بھی آزاد تھا اور سب سے پہلے اسپینش میڈیا نے اس وبا کی خبریں شائع کرنا شروع کیں جس کی وجہ سے اسے اسپینش فلو کا نام دیا گیا۔

آنا فانا یہ وبا دنیا بھر میں پھیل گئی ، لوگ بیمارہوتے اور چند ہی گھنٹوں بعد موت کے منہ میں چلے جاتے تھے ، یہ وبا 1918 سے 1920تک رہی، صرف ہندوستان میں ڈیڑھ کروڑ افراد ہلاک ہوئے ، جنگ عظیم اول میں چار سے پانچ کروڑ افراد ہلاک ہوئے تھے مگر اس بیماری سے تقریبا دس کروڑ افراد موت کے منہ میں چلے گئے ۔
 آپ ملیریا کو دیکھ لیں ،ماضی میں ملیریا کو انسانی تاریخ کی سب سے ہولناک بیماری تصور کیا جاتا تھا،یہ وبا صرف شہریوں کو نہیں بلکہ پورے پورے شہر اجاڑ کر رکھ دیتی تھی، اس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ کرہ ارض پر اب تک جتنے انسان بھی پیدا ہوئے ان میں سے کم و بیش 50 فیصد ملیریا کے ہاتھوں ہلاک ہوئے ۔

چنگیز خان اور اٹیلا ہن کے لشکروں میں ملیریا کی وبا نے تباہی مچائی،جارج واشنگٹن، تھیوڈور روزویلٹ، ابراہام لنکن اور جان ایف کینیڈی جیسے مشہور امریکی صدور ملیریا کا شکار ہوئے اور ملیریا کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں میں سکندرِ اعظم اور فرعون توتنخ آمون تک کے نام شامل ہیں۔
سات جنوری 2020کو دنیا ایک بار بھر کرونا وائرس جیسی وبا کا شکار ہو گئی لیکن 2020کی یہ وبا وہ تباہی نہ لا سکی جو اس سے پہلے وبائیں لاتی تھیں ، کرونا وائرس فلو، کھانسی اور سانس کی بیماریوں کا سبب بننے والی وائرس فیملی سے تعلق رکھتا ہے جس میں سوائن فلو اور سارس جیسے وائرس شامل ہیں۔

31 دسمبر کو چین کے شہر ووہان میں نمونیے کی شکایات سامنے آئیں اورسات جنوری کو نویل کرونا وائرس کی تشخیص ہوگئی،یہ وائرس وبائی مرض کا موجب بنتااور جانوروں سے انسانوں اور پھر انسانوں سے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے۔
یہ وائرس بلیوں اور اْونٹ کے ذریعے بھی انسانوں میں منتقل ہو سکتا ہے لیکن چین میں پھیلنے والا وائرس شہر کی ہول سیل گوشت مارکیٹ میں سامنے آیا۔

اس مارکیٹ میں گدھے، خنزیر، اْونٹ، بھیڑیں، لومڑیاں، بھیڑیے، چوہے، سانپ اور سمندری جانوروں کا گوشت فروخت کیا جاتا تھا، یہ بھی کہا جا رہاہے کہ یہ وائرس چمگادڑ کے سوپ اور زندہ چوہے کھانے سے پھیلا۔یہ وبا ماضی کی طرح اتنی ہلاکت خیز کیوں ثابت نہیں ہوسکی اور اس پر جلد کیسے قابو پالیا گیا ، اس کی وجہ انسان کا بڑھتا ہوا شعور، سائنس اور ٹیکنالوجی ہے ۔

 
آج انسانی شعور نے بیماریوں کے پھیلاوٴ اور ان کی روک تھام کا جو علم حاصل کر لیا ہے اس بنا پر وہ اس قابل ہو گیا ہے کہ ان وباوٴں کا بروقت سد باب کر سکے ۔ اس وبا کے پھیلاوٴکے اسباب پر بات ہو سکتی ہے مگر اس کے ساتھ ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ اللہ نے انسانوں کو علم و شعور کی جو دولت عطا کی ہے اسے معطل نہیں چھوڑاجاسکتا۔اس کائنات کی دیگر مخلوقات پر انسانی فضیلت کا معیار علم و شعور ہے اورجو قومیں علم و شعور اور سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں تہی دست ہیں ان کی قسمت یہی ہے کہ وہ مجبور ، لاچار اور محکوم بن کر زندگی گزاریں اورآج اس محکومی و لاچاری کا عملی مظہر کون ہے یہ جاننا چنداں مشکل نہیں ۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

yeh janna mushkil nahi ! is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 10 February 2020 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.