حکومت کی ناکامی

پیر 12 جولائی 2021

Aasim Irshad

عاصم ارشاد چوہدری

ہم دنیا سے کیوں پیچھے ہیں کیونکہ ہم باتیں زیادہ اور عمل کم کرتے ہیں ہم ہر موضوع پر بات کر لیتے ہیں لیکن جب کام کرنے کی باری آتی ہے تو ہم خاموش ہو جاتے ہیں کیونکہ ہمیں اس کا علم ہی نہیں ہے، عمران خان صاحب نے حکومت بنانے سے پہلے جو دعوے کیے جو وعدے کیے ان میں سے ایک بھی پورا ہوتا نظر نہیں آرہا یہ اب بھی اپنی پرانی تقریروں کو دہراتے رہتے ہیں یہ اپنی حکومت کی ہر غلطی کا ملبہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی پر ڈالتے ہیں یہ ان کو چور ڈاکو بھی کہتے ہیں لیکن ان سے پیسہ وصول نہیں کر سکے یہ ان کو باہر جانے کی اجازت بھی دے دیتے ہیں پھر کہتے ہیں میں ان کو نہیں چھوڑوں گا، عمران خان اپنی اتحادی جماعتوں سے بھی بلیک میل ہو رہے ہیں یہ اپنے ہاتھ سے کسی صورت پنجاب نکلتا نہیں دیکھ سکتے یہ اپنے اتحادیوں کی ہر درست، غلط بات مان لیتے ہیں یہ عثمان بزدار کو بھی ہٹانا نہیں چاہتے تو آخر کیا چاہتے ہیں یہ عوام کو ریلیف دینا چاہتے ہیں لیکن پھر کوئی مجبوری آڑے آجاتی ہے،
عمران خان نے پیدائش سے اب تک چار بہترین کام کیے ہیں جن میں پہلے نمبر پر پاکستان کو ورلڈکپ جتوایا جس میں قوم کی بہت دعائیں شامل تھیں دوسرا کارنامہ شوکت خانم کینسر ہسپتال بنانا یہ بلاشبہ قابلِ ستائش کام تھا اس کے ساتھ ہی نمل یونیورسٹی کا قیام ایک بہترین منصوبہ تھا عمران خان کا چوتھا اور آخری بہترین کام پاکستانی قوم کو بیدار کرنا تھا کہ آپ کو لوٹا جارہا ہے اٹھو اور اپنے حق کے لیےلڑو، بس اب تک عمران خان نے یہ چار کام کیے اور ابھی تک عمران خان اپنے ان کاموں کی اپنے منہ سے تعریف کرتے رہتے ہیں، اگست میں عمران خان کی حکومت کو تین سال مکمل ہو جائیں گے عوام کو کوئی ریلیف نہیں مل سکا مہنگائی کی شرح بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے غریب مزدور باہر نکلتا ہے سارا دن کام کرتا ہے شام کو اسے جو پیسے ملتے ہیں ان میں گھی آٹا چینی بھی نہیں ملتا، اور عمران خان کے وزراء اور مشیران بالکل درست کی رپورٹ عمران خان تک پہنچا دیتے ہیں، عمران خان میں چند باتیں بہت اچھی ہیں جن میں پہلی یہ کہ عمران خان خود کرپٹ نہیں ہیں، یہ سچے ہیں بلا کے محنتی ہیں اور جس کام کو کرنے کا سوچ لیتے ہیں وہ کام کر کے چھوڑتے ہیں، ان کی بائیس سال کی محنت ان کو وزیراعظم تو بنا گئی لیکن بائیس ایسے وزیر نہ دے سکی جو ایماندار ہوں اوربالکل کرپشن سے پاک ہوں، عمران خان کی ناکامی کی چند وجوہات ایسی ہیں جن پر قابو پا لیا جائے تو ممکن ہے ملک مستحکم ہو جائے، عمران خان ماضی کی حکومتوں کو برا بھلا کہنا بند کر دیں اور اپنی کارکردگی پر توجہ دیں پاکستان کے عوام مان لیتی ہے کہ سابقہ حکومتیں کرپٹ تھیں لیکن صرف انہی کو غلط کہتے جانا کہاں کی دانشمندی ہے، ہمارے غریب مزدور کو اس بات سے بالکل غرض نہیں ہے کہ نواز شریف یا زرداری نے کتنی کرپشن کی یا عمران خان کتنا سچا ہے مزدور کو صرف مہنگائی قابو میں چاہیے تا کہ وہ سکون سے اپنے بچوں کا پیٹ پال سکے، ہر دوسرے دن اخبار پر مہنگائی میں اضافے کی خبر پڑھتے ہیں اور دعا کرتے ہیں اللہ رحم فرما، غریب عوام کو اس بات سے غرض نہیں ہے کہ نواز شریف پر کیس چل رہے ہیں  یا نواز شریف نے کرپشن کتنی کی ہے، وہ چاہتا ہے کہ بے شک تمام لٹیروں کو پھانسی لگا دیں لیکن مہنگائی کم کر دیں، عمران خان اپوزیشن کو چور ڈاکو کہتے رہتے ہیں لیکن پھر عوام دیکھتی ہے کہ نواز شریف پچاس روپے کے اسٹامپ پیپر پر لندن چلا جاتا ہے اسحاق ڈار الیکشنز سے پہلے کا لندن میں بیٹھا ہے ابھی تک اسے واپس نہیں لا سکے ہمارے ملک کی بد قسمتی دیکھیئے کہ صوبائی اسمبلی کا ممبر تین سال بعد اپنی سیٹ کا حلف اٹھا رہا ہے اور کوئی شخص چوہدری نثار سے پوچھنے کی ہمت نہیں کر رہا کہ آپ نے حلف تین سال بعد کیوں اٹھایا؟ آپ عمران خان حکومت کی ناکامی دیکھیں کہ اب تک چوتھا وزیرخزانہ آچکا ہےپھر عمران خان کہتے ہیں کہ سابقہ حکومتیں ذمہ دار ہیں ،کم از کم اپنی نااہلی کا ذمہ دار سابقہ حکومتوں کو تو نہ ٹھہرائیں،
اصل مسلئہ سسٹم کا ہے جب تک ہمارے ملک کا سسٹم کا ٹھیک نہیں ہو گا آپ کوئی فرشتہ بھی وزیراعظم لگا دیں گے ملک مستحکم نہیں ہو گا چین کی مثال لیجئے گا کہ چین کی کمیونسٹ پارٹی نے بیجنگ میں ایک انسٹی ٹیوٹ قائم کررکھا ہے جہاں پارٹی کے اراکین کومتعلقہ شعبوں میں وزیر‘ مشیر بنانے اور چین کے لئے نئی قیادت تیار کرنے کی تربیت دی جاتی ہے۔

(جاری ہے)

تربیت مکمل ہونے کے بعد ان کو سر ٹیفکیٹ دیا جاتا ہے۔ اگر کسی شخص کے پاس اس انسٹی ٹیوٹ کا سر ٹیفکیٹ نہ ہو تواسے وزیر یا مشیر کے قابل نہیں سمجھاجاتا، اور ہمارے ملک میں ایسے لوگوں کو وزارتیں دی جاتی ہیں جن کو اس کی "الف،ب" کا علم نہیں ہوتا ہمارے کرکٹ بورڈ کا چیئرمین ہم شوگر مل کے مالک کو لگا دیتے ہیں تو ملک میں کیسے ترقی ہو، ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسلۂ سسٹم کا ہے ہمارے ملک میں دس سال بیسویں سکیل کے افسر رہنے کے بعد پتا چلتا ہے کہ ڈگریاں جعلی تھیں، ہمارے ہر شعبہ میں سفارش چلتی ہے، ہمارے ان پڑھ لوگ ہم پر حکمرانی کرتے ہیں، چینی لوگوں کا قول ہے کہ اگر آپ ایک سال کی منصوبہ بندی کرنا چاہتے ہو تو مکئی لگاؤ،اگر تم دس سال کی منصوبہ بندی کرنا چاہتے ہو تو درخت لگاؤ، اگر تم صدیوں کی منصوبہ بندی کرنا چاہتے ہو تو لوگوں کی تربیت کرو اور تعلیم دو، اور ہمارے تعلیمی نظام کی بد حالی آپ کے سامنے ہے، ہم ابھی تک خود سمجھ نہیں پا رہے کہ ہم کیا چاہتے ہیں ہمارے حکمران کیا کرنا چاہتے ہیں وہ پچھلی حکومتوں کی خرابیاں سنا کر عوام کو مست کرنا چاہتے ہیں یا اپنی کارکردگی بہتر کر کے عوام کو سکون کا سانس لینے کی اجازت دیں گے،
عمران خان کے پاس دو سال باقی رہ گئے ہیں یہ اگر ان دو سالوں میں بھی اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ صرف دشمنی نبھاتے رہے تو اگلے الیکشن میں عمران خان کا نام نہیں ہو گا، عمران خان کو چاہیے کہ سب سے پہلے اپنے وزراء کو ٹھیک کریں سینٹ الیکشن میں یوسف رضا گیلانی کو جتوانے میں حکومتی اراکین شامل تھے جنہوں نے پہلے حفیظ شیخ کو ناکام کیا پھر اس کے بعد عمران خان کو اعتماد کا ووٹ دے دیا عمران خان صاحب اسی میں راضی ہو گئے اور پھر سب کو گلے لگا لیا سب سے پہلے ایسے لوگوں کو خود سے دور کرنا ہو گا جو پارٹی کے لیے نقصان دہ ہیں یہ اگر ساتھ چلتے رہے تو حکومت، عوام اور تحریک انصاف کو شدید نقصان ہو گا، عمران خان عوام کے مسائل کو خود دیکھیں اور پھر ایکشن لیں اپنے وزراء اور مشیران کی باتوں پر یقین نہ کریں مہنگائی کی شرح میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے اس کو کم کریں، جنہوں نے ملک کو لوٹا ہے انہیں واپس پاکستان لائیں اور پیسہ واپس لیں، اس طرح اسمبلی میں ان کو چور ڈاکو کہنا چھوڑ دیں، اگر عمران خان ان دو سالوں میں کچھ ایسا کر جاتے ہیں یہ عوام کو ریلیف دینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو 2023ء کے الیکشن میں بھی عمران خان حکومت بنا جائیں گے اور اگر یہ اسی طرح صرف باتیں کرتے رہے اور خو پسندی میں مبتلا رہے تو یہ دو سال بھی مشکل ہو جائیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :