روشنیوں کا شہر اندھیرے اور پانی کی لپیٹ میں

منگل 28 جولائی 2020

Afzaal Chaudhry Maleera

افضال چوہدری ملیرا

پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی جسے روشنیوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے گزشتہ کچھ سالوں سے اندھیروں میں ڈوب چکا ہے ایک ایسے وقت میں جب کراچی کے رہائشی بجلی کے بحران کی وجہ سے سراپا احتجاج تھے کراچی کے باسیوں کا کہنا تھا کہ گرمی کی شدت کے دوران لوڈ شیڈنگ نے ان کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے اور کرونا وائرس کی وجہ سے صنعتی سرگرمیاں بند ہونے کے باوجود رہائشی علاقوں میں تقریبا آٹھ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ معمول بن چکی تھی گرمی کے ستائے لوگ مالک حقیقی سے التجا کر رہے تھے کہ اے ہمارے رب گرمی کی اسں شدت سے ہمیں نجات عطا فرما اور بارش کی صورت میں ہم پر اپنی رحمت نازل فرما چونکہ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں جولائی کے شروعاتی دنوں میں کراچی میں رحمت کے بادل برسنا شروع ہوئے بارش کی وجہ سے گرمی کا زور ٹوٹ گیا پہلے پہل تو کراچی کے باسی بارش پر مسرت کا اظہار کر رہے تھے لیکن جیسے جیسے بارش کا دورانیہ بڑھتا گیا گاڑیاں کشتیوں میں اور سڑکیں اور گھر تالابوں میں تبدیل ہونے لگے اموات کا سلسلہ بارش ہونے کے باوجود نہیں تھم  سکا  کیونکہ پہلے لوگ گرمی کی شدت کے سبب مر رہے تھے تو اب بارش کی وجہ سے مختلف واقعات میں لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جہاں پہلے آٹھ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ تھی اب بارش کے سبب بجلی کے فیڈر متاثر ہونے کی وجہ سے 80 فیصد علاقوں کو بجلی کی فراہمی معطل ہو گئی
جب زیادہ بارش آتا ہے تو زیادہ پانی آتا ہے کی تھیوری پیش کرنے والے آئن سٹائن ثانی کی بہن نے حیران کن طور پر پانی کی نکاسی پر سندھ حکومت کا شکریہ ادا کیا آئن سٹائن ثانی کی بہن کا اپنی ٹویٹ میں کہنا تھا کہ "جب بارش آتی ہے تو پانی آتا ہے ساری رات سڑکوں کی نگرانی کرنے پر سندھ حکومت کا شکریہ ادا کرتی ہوں ان کا مزید کہنا تھا کہ آج سب صاف ہو گیا بد قسمتی سے ہم برساتی مینڈکوں کے مسائل حل نہیں کر سکتے جو بارش ہوتے ہی نکل آتے ہیں" لیکن اب اس خاندان کو کون یہ بات باور کروائے کہ جب زیادہ پانی آتا ہے تو اربن فلڈنگ ہوتی ہے اور جب اربن فلڈنگ ہوتی ہے تو بجلی کی فراہمی معطل ہو جاتی ہے اور بدبودار پانی لوگوں کے گھروں میں داخل ہو جاتا ہے اور جن لوگوں کے ٹیکسوں پر تم لوگ پلتے ہو ان کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے
لیکن پانی کے لئے ترستے کراچی کے باسیوں کے لیے آئن سٹائن ثانی نےجو انوکھا منصوبہ تیار کر رکھا تھا وہ یہ تھا کہ لوگوں کو گھروں گاڑیوں اور سڑکوں پر کئی کئی فٹ تک پانی مہیا کیا گیا اب جب سب لوگوں کو گھروں سے نکلتے ہی گردنوں تک پانی دستیاب ہے تو پانی کے بحران کے شکوے کا تو کوئی جواز ہی نہیں بنتا نالوں کے پانی کی نکاسی کے لئے بھی انوکھی منصوبہ بندی کی گئی ہے سندھ حکومت نے نالوں کے پانی کی نکاسی کے لئے لوگوں کے گھروں کا انتخاب کیا ہے اور شاہراہوں پر ٹریفک جام کے مسئلہ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے پانی کی ایک بڑی مقدار کو گاڑیوں اور رکشوں کی راہ دکھائی گئی ہے تاکہ پانی گاڑیوں اور رکشوں کو بہا لے جائے اور مستقبل قریب میں ٹریفک جام کا مسئلہ نہ ہو
وزیر بلدیات سندھ ناصر حسین شاہ کا کہنا تھا کہ نالوں میں طغیانی کی وجہ کرونا وائرس ہے لیکن محترم سے کوئی یہ پوچھے کہ کرونا وائرس سے پہلے بھی تو کراچی میں پانی کی نکاسی کا مسئلہ رہا ہے جب کرونا وائرس کا نام و نشان تک نہیں تھا آخر کب تک سندھ کی عوام کو لوریاں دیتے رہو گے آپ لوگ؟ اور وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ صاحب اگر جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں کہ اگر فرقہ واریت کو فروغ دینے کے لیے کرونا وائرس کے دوران آپ جلوس کی نمائندگی کر سکتے ہو تو پھر کرونا وائرس میں نالوں کی صفائی کیوں نہیں کروا سکتے؟
بہر حال بختاور بھٹو کا سندھ کی عوام کو برساتی مینڈک کہنا اخلاقیات کے منافی ہے کیونکہ یہی برساتی مینڈک الیکشن کے دوران آپ کے پیر و مرشد اور فرشتہ صفت انسان ہوتے ہیں انہی مینڈکوں کے ٹیکسوں پر آپ لوگ عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہو اور بلاول ہاؤس اور سرِ محل کا خرچہ بھی یہی برساتی مینڈک اٹھا رہے ہیں
اب ضرورت اس اٙمر کی ہے کہ مستقبل قریب میں ہونے والے الیکشنز میں سندھ کی عوام ان کو باور کروا دے کہ وہ برساتی مینڈک ہیں یا پھر اشرف المخلوقات...!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :