محترمہ بے نظیر بھٹو کے قاتل کون ؟

پیر 28 دسمبر 2020

Ahmad Khan Leghari

احمد خان لغاری

کہا جاتا ہے کہ فاروق لغاری ی صدارت محترمہ بے نظیر بھٹو کی کوششوں کا حاصل تھی ۔ فاروق لغاری کے پیش رو غلام اسحاق خان ، بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی حکومتیں بر طرف کر چکے تھے ۔ تاہم صدر فاروق لغاری کے صدر بننے کے بعد جب یہ دعویٰ کیا ”ایوان صدر سازشوں سے پاک رہے گا “ تو محترمہ بے نظیر بھٹو کی خوشی دیدنی تھی ۔ صدر فاروق لغاری کی تقریب حلف برداری میں محترمہ بنیظر بھٹو کے چہرے کی طمانیت ان کے دِل کی خوشی کا اعلان کر رہی تھیں ۔

اب 5B-2B کی تلوار نیام میں رہے گی بلکہ بے نظیر بھٹو نے اِس موقع پر یہ بھی کہا تھا انہیں اتنی خوشی اپنے وزیر اعظم بننے کی نہیں جتنی فاروق لغاری کے صدر بننے کی ہے ۔ سابق صدر فاروق لغاری کے انٹرویوز کے مندرجات کے تذکرے سے قبل ایک دو واقعات یہاں بیان کرنا نا گزیر ہیں جن سے محترمہ بے نظیر بھٹو اور فاروق لغاری کے تعلقات کی کشیدگی کے محرکات سے آگاہی ہو سکے گی ۔

(جاری ہے)

محترمہ بے نظیر بھٹو سے کہا گیا تھا کہ فاروق لغاری مسفعی بیوروکریٹ ہونے کے علاوہ بلوچ سردار بھی ہیں اُنہیں بچہ سمجھا عاقبت نا اندیش ہے ۔ ضرورت پڑنے پر مستعفی بیورو کریٹ کے بعد ایوان صدر میں پہنچ چکے تھے ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو بھی وہاں موجود تھیں ۔ ہر سو خوشیاں بکھری ہوئی تھیں ۔ اچانک صدر فاروق لغاری نے کہا آج شام میں قوم سے خطاب کروں گا ۔

“ بے نظیر بھٹو کے خوشیوں سے شاداں چہرے پر اچانک خزاں کے آثار نمودار ہوئے ۔ پہلے وہ چُپ رہیں مگر کچھ دیر بعد صدر فاروق لغاری سے کہا فاروق بھائی میں نے آپ کو صدر پاکستان بنایا ہے ۔آپ اپنے عہدے کو انجوائے کریں ۔ شکار کھیلیں ۔ غیر ملکی دوروں پر جائیں خطاب کرنے کے لیے میں ہوں نا ۔ “ اہل محفل کا کہنا ہے محترمہ بے نظیر بھٹو کا یہ کہنا تھا ۔

قہقہے معدوم اور سقوط طاری ہو گیا ۔ سیاست کے اسرار و رموش کے جان کار یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ۔ ”بہن بھائی “ کے درمیان انتشار کا یہ آغاز ہے ۔
معروف صحافی کی کتاب ”نواز شریف اور بینظیر بھٹو جتنا میں اُنہیں جانتا ہوں “ کے مطابق سابق صدر فاروق لغاری نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ اپنے اختلاف کی ابتدا کے حوالے سے بتایا محترمہ بے نظیر بھٹو بطور وزیر اعظم میراج طیاروں کی خریداری اور قادر پور گس کا آغاز کا اونے پونے داموں بیچنے کے لیے جو سودے کر رہی تھیں اس سے پاکستان کو چار پانچ ارب کا نقصان ہو رہا تھا ۔

حکومتی پوزیشن سے اتنی بڑی ایمپائر بنائی اور سرے محل اور سوئس اکاونٹس کے الزامات بھی عائد کیے ۔ فاروق لغاری بتاتے ہیں کہ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو ایک سکے کے دورُخ ہیں ۔
نواز شریف اس حوالے سے بڑے ماہر ہیں وہ عوامی ترجیحات پر عمل کے بھی قائل نہیں تھے ۔ نواز شریف اُن پرو گراموں کو اوّلیت دیتے جن میں انہیں کمشن اور کک بیکس زیادہ ملتی تھیں ۔

سیاسی عقل سے عاری ان لوگوں نے ہمیشہ پاکستان کے مفاد کے خلاف کام کیا ۔ فاروق لغاری کہتے ہیں نواز شریف دور میں لاہور ائیر پورٹ 100ملین ڈالر کا پراجیکٹ تھا ۔ جبکہ اُس میں 30ملین ڈالر کمشن تھی بقول فاروق لغاری نوازشریف مارشل لاء کی پیداوار اور رشوت کا قبضہ گروپ تھے ۔ ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے سابق صدر فاروق نے مرتضی قتل کیس کے حوالے سے بتایا کہ ایک دِن میرے ملٹری سیکرٹری نے مجھے بتایا کہ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو آپ سے ملنے آرہی ہیں ۔

حالانکہ کوئی میٹنگ شیڈول نہیں تھی اُن کے ستو ر آصف زرداری بھی ساتھ تھے ۔ انہوں نے مجھے کہا میر مرتضی بھٹو ہمیں بہت تنگ کر رہا ہے ۔ جیسا کہ آپ کو پتہ ہے وہ شراب بہت پیتا ہے اور نشے میں دُھت ہو کر تھانے چلا جاتا ہے اور پویس سے اپنے بندے چھڑا لیتا ہے ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو بھی شکاتیں کرتی رہیں ۔ آصف زرداری نے بیچ میں بے نظیر بھٹو کی طرف اشارہ کر کے مجھے انگریز ی میں کہا انہیں ہمارے کلچر کا پتہ نہیں ہے لیکن آپ جانتے ہیں اب میں رہوں گا یا میر مرتضی بھٹو رہے گا ۔

سابق صدر فاروق لغاری بتاتے ہیں کہ انہوں نے دونوں کو سمجھایا کہ آپ اُسکا خیال رکھیں اور پھر انہوں نے کہا کہ ایک رات اُنہیں فون آیا جس میں میر مرتضی کی تشویشناک حالت کا بتایا گیا اور یہ بھی بتایا گیا ۔ کہ بے نظیر ایئر پورٹ جاری ہیں وہ بھی چلے گئے تو بے نظیر بھٹو غم سے نڈھال تھیں اُنہیں سہارا دیکر لا یا جا رہا تھا ۔ آصف زرداری نے مجھے پرے لے جا کر بتایا کہ وہ مر گیا ہے اسے نہ بتانا اور وہ پھر مر گیا ۔

صدر فاروق لغاری نے بتایا کہ وہ اپنی اہلیہ کے ہمراہ نو ڈیرو گئے تو بے نظیر بھٹو دل گرفتہ تھیں اور با ر بار کہی رہی تھیں انہوں نے میرے بھائی کا قتل کر دیا ہے پتہ نہیں چل رہا تھا ۔ کہ وہ کس کا کہہ رہی ہیں ۔ میر مرتضی کی تفتیش میں ایک تھانیدار کو قتل کر دیا گیا اُس کے بعد پولیس افسران ک ترقیاں دی گئیں ۔ جو میر مرتضی کے قتل کے وقت سندھ میں تعینات تھے ۔

“ ( منیر احمد منیر کی کتاب اور سابق صدر کے انٹرو یو
ملک کے سابق وزیر اعظم کے بیٹے ، حاضر سروس وزیر اعظم کے بھائی اور ایک پارٹی کے سر براہ کے بہمیانہ قتل کا سراغ ملتا تھا اور نہ ملا ۔ اِس بڑھ کے المیہ یہ ہوا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی لیاقت باغ راولپنڈی میں قتل کر دیا گیا اور عام انتخابات میں پی پی پی کامیاب لڑی اور پانچ سال تک محترمہ کے ستو ہر نا مدار ملک کے صدر رہے ۔

قاتلوں کا سراغ نہ ملنا تھا اور تا حال نہ مل سکا ۔ محترمہ کی برسی انتہائی عقیدت سے منائی گئی جس میں تمام جماعتوں کے نمائندگان شامل تھے جنہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومتوں کے خاتمہ پر مٹھایاں تقسیم کیں ۔ وُہ سب لو گ سٹیج پر نمایاں تھے ۔ جو اُنہیں ملک کے لیے سیکورٹی رسک قرار دیتے رہے ۔ محترمہ کی اِس برسی پر اُس کی روح سے اور کیا مذاق کیا جا سکتا ہے ۔ ایک ہی سٹیج پر قاتل بھی اور مقتول بھی برا جمان رہے ۔ اُسی اسٹیج پر اگر نظر نہیں آئے تو وہ فارو ق لغاری کے صاحبزادے تھے ۔ جو مریم نواز کی جماعت کا حصہ ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :