’’کورونا وائرس اور حکومتی نا اہلی‘‘‎

بدھ 18 مارچ 2020

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

چیف جسٹس آف پاکستان کے ان واضع ریمارکس کے بعد کہ’’حکومت نے کورونا وائرس سے متعلق کوئی اقدام نہیں کیا اور اس کی نا اہلی کے باعث یہ وباء بیرونِ ملک سے پاکستان میں داخل ہوئی‘‘کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا کہ حکومت ملک کو لاحق کورونا وائرس سے متعلق صورتِ حال کی پوری طرح ذمہ دار ہے ۔
حقیقتِ حال یہ ہے کہ تقریباً ایک ماہ قبل جب ایران اور چین میں کورونا وائرس کے مریض منظرِ عام پر آنے لگے اوران کی اموات کی  تصدیق بھی ہونے لگی اور یہ بھی کنفرم ہو گیا کہ ان کا تعلق انہی ممالک سے ہے تو اسی وقت ہمارے لائق فائق حکمرانوں کے کان کھڑے ہو جانے چاہیئے تھے،لیکن ایران سے روزانہ کی بنیاد پر کورونا وائرس سے متاثرہ افراد قافلوں کی صورت میں تفتان بارڈر کے راستے پاکستان مین داخل ہوتے رہے، کسی کے کان پر جوں نہیں رینگی ۔

(جاری ہے)

اسی دوران اٹلی اور دیگر ممالک سے بھی مذکورہ وائرس سے متاثرہ افراد کی ہلاکتوں کی خبریں آنا بھی شروع ہو گئیں جس پر ایران سے پاکستان میں داخل ہونے والے افراد کو تفتان بارڈر پر روکنا شروع کیا گیا  لیکن لیکن ایک مرحلے پر وزیرِ اعظم عمران خان کے معاونَ خصوصی اور رازداں برٹش پاسپورٹ ہولڈر زلفی بخاری کی خصوصی ہدایت پر سینکڑوں کی تعداد میں افراد کو  بغیر کسی ٹیسٹ کے گھروں کو جانے دے دیا گیا ۔

جن میں سے اکثریت کا تعلق صوبہ سندھ سے تھا ۔ ملک میں کورونا وائرس کے تیزی سے پھیلنے کے حوالے سے ساری پریشان کن صورتِ حال وہیں سے بگڑی ہے ۔ اگر ان آٹھ ہزارزائرین کو وہیں روک کر ان کے ٹیسٹ کر لیئے جاتے تو آج یہ وائرس اس قدر نہیں پھیل چکا ہوتا ۔
یاد رہے مذکورہ زائیرین میں ساٹھ فیصد  کرونا وائرس کا شکار تھے جنہیں دہشت گردی کے خطرے کے پیشِ نظر بلوچستان حکومت کی سکیورٹی میں کوءٹہ اور سکھر پہنچایا گیا ۔

یقینا وفاق کے نمائندے گورنر بلوچستان اور وفاقی حکومت اس ساری صورتِ حال سے باعلم تھی ۔ ابھی بھی حالات یہ ہیں کہ تفتان سرحد پر کورونا وائرس کے متاثرہ افراد کے لیے بنائے گئے قرنطینہ مرکز کی حالت زار سے متعلق سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس مرکز میں درجنوں خواتین اور بچوں سمیت تمام افراد بھیڑ بکریوں کی طرح بغیر کسی حفاظتی تدابیر ایک ہی جگہ رہ رہے ہیں ، لیکن حکومت پھر بھی ٹس سے مس نہیں ۔


اس قوم کے ساتھ اس سے بھیانک مذاق اور کیا ہو سکتا ہے کہ چین میں دو سو سے زائد پاکسانی طلباء کو بے آسرا چھوڑ دیا گیا لیکن ایران سے ہزاروں زائرین کو بغیرا سکریننگ یا کرونا ٹیسٹ کے پاکستان میں داخل کر لیا گیا ۔ یعنی جب پوری دنیا کے علم میں ہے کہ ایران سے زیادہ متاثرہ افراد یا کرونا وائرس کے شکار افراد کی ہلاکتیں ہو رہی ہیں تو اس آفت کے شکار ملک کے ہمسائے ہونے کے ناتے حکومتِ وقت کو پہلے سے ہی حفاظتی انتظامات کر لینے چاہیئے تھے جو دنیا بھر مین ہو رہے تھے ۔

حکمتِ عملی یا دور اندیشی کا تقاضہ تو یہی تھالیکن اپوزیشن کو کچلنے اور دبانے کے واحد ایجنڈے میں مصروفِ عمل حکمرانوں کی آنکھیں تب کھلیں جب کرونا وائرس اسلام آباد کے پمز ہسپتال میں جا پہنچا اور ملک بھر میں مذکورہ وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد دو سو ساٹھ تک جا پہنچی ۔ ( یاد رکھیئے گا یہ تو وہ تعداد ہے جو کورونا وائرس ٹیسٹ کے عمل کے بعد سامنے آئی ہے جبکہ اصل تعداد ہزاروں میں ہے) ۔

پھر کالج،اسکول،یونیورسٹیوں اور پبلک مقامات کو بند کرنے اور دیگر احکامات دھڑا دھڑ جاری ہونے اور وزیرِا عظم کی جانب سے عوام کو بار بار ہاتھ دھونے کے نایاب مشورے دیئے جانے لگے ۔
ملک کے وزیرِ اعظم عمران خان کل قوم سے اپنے خطاب میں ایک’’ شکست خودرہ وزیرِ اعظم‘‘ نظر آئے ہیں جنہوں نے اپنی ناکامی تسلیم کرتے ہوئے برملا کہا کہ’’ اگر کرونا وائرس زیادہ پھیلا تو اس سے نبٹنے کے لیئے ہمارے پاس صلاحیت نہیں ہے‘‘ ۔

اسی لیئے ان کی زیادہ توجہ عالمی بینک سے قرضے معاف کروانے میں مرکوز ہے اور ان کے وزیروں اور مشیروں کی دلچسپی عوام کو رلیف دینے کے بجائے باہر سے ماسک منگوانے اور کمیشن کھانے میں زیادہ ہے ۔ عمران خان کے مشیر ِ صحت ڈاکٹر ظفر مرزاکے باہر سے منگوائے گئے’’ ماسک اسکینڈل‘‘ کی سیاہی ابھی خشک نہیں ہوئی کہ بیرونِ ممالک سے وینٹی لیٹرز منگوانے کا آڈر جاری کر دیا گیا ہے امید ہے ایف آئی اے حکومت کے اس "سودے" پر بھی کڑی نظر رکھے گی ۔


ایک جانب کہتے ہیں کہ کورونا وائرس سے نبرد آزما ہونے کے لیئے حکومت کے پاس مالی وسائل نہیں ہیں تو دوسری جانب دو دن قبل ہی جناب نے سرکاری خزانے سے پانچ کروڑ روپے سے اپوزیشن کے خلاف سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم سے پراپوگنڈہ مہم شروع کرنے کا اعلان کیا جبکہ دوسری جانب حالات اس قدر دگرگوں ہیں کہ سندھ حکومت کی کارکردگی پر آئے روز تنقید کرنے والوں کے اپنے وسیم اکرم پلس کے صوبے پنجاب کے ڈاکڑوں کے پاس ماسک اور حفاظتی کپڑے تک موجود نہیں جسے پہن کر وہ مریضوں کا علاج کر سکیں ۔

ان کا احتجاج اسی بابت جاری ہے جسے اپوزیشن یا ن لیگ کا احتجاج قرار دیا جا رہا ہے ۔
یہ بھی پڑھیئے، عام پبلک کے لیئے بنائے گئے سرکاری ہسپتالوں میں کرونا وائرس ٹیسٹ درکار ہیں لیکن چین کی جانب سے پاکستان کو عطیہ کے طور پر دیئے گئے کرونا ٹیسٹ کٹس شوکت خانم ہسپتال کو دے دی گئی ہیں کیونکہ وہ اس لاڈلے وزیراعظم عمران کا ذاتی ہسپتال ہے جسے پوچھنے والا کوئی نہیں ۔


عمران خان کی وفاقی حکومت کی نا اہلیوں کی داستان ابھی جاری ہے لیکن کرونا وائرس کے خلاف حکومتِ سندھ کی بہترین کارکردگی دکھانے کا ذکر یہاں نہ کرنا بڑی زیادتی ہو گی ۔ لہذا یہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں کہ وزیرِا علی مراد علی شاہ اورا ن کی ٹیم نے نہایت جان فشانی اور انتھک محنت کے بعد نہ صرف کرونا وائرس پر قابو پا لیا ہے جس کا اعتراف عالمی اداروں اور میڈیا نے بھی کیا ہے ۔

یہاں یہ بتاتا بھی ضروری ہے کہ سندھ حکومت سے تین ارب روپے کا فنڈ بھی قائم کر دیا ہے ۔
اب ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے کورونا وائرس سے لڑنے کے لئے پاکستان کے لئے 350 ملین ڈالر اور ورلڈ بینک نے 180 ملین 800 ہزار ڈالر کا اعلان کیا ہے دیکھیں گے یہ ڈالر ملنے کے بعد کون سے نئے تیر چلائے جائیں گے ۔
اس وقت آدھی سے زائد دنیا (163 ممالک) کورونا وائرس کا شکار ہے لیکن اپنی کسی بھی بے بسی کا رونا رونے کے بجائے پوری تندہی کے ساتھ اس موذی وباء سے نبرد آزما ہے ۔ یہ بات ہمارے وزیرِا عظم کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :