پراجیکٹ عمران اور حقائق

جمعرات 9 اپریل 2020

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

"پراجیکٹ عمران" لانچ کرنے کے ساتھ ساتھ مینیجروں کے چند ایک خاص مقاصد بھی سرِ فہرست تھے،جن میں اوّل،سی پیک منصوبے کو سست یا کمزور کرنا، چین کے بجائے امریکہ کی جانب دوبارہ جھکاءو، ملک کی مقبول لیڈر شپ نواز شریف، آصف زرداری اور فضل الرحمان سے گلو خلاصی اور دفاعی،خارجہ ومعاشی پالیسیوں پر اپنی گرفت کو مذید قائم کرنا اور پھر رفتہ رفتہ پالیمانی نظام سے ملک کو صدارتی نظام کی جانب لے کر جانا مقصود تھا،سو اس لیئے پراجیکٹ عمران پر بھاری سرمایہ کروائی گئی اور سو فیصد کامیابی کے امکانات کو دیکھتے ہوئے اپنی واپسی کے لیئے کشتیاں بھی جلا دی گئیں ۔


منصوبے کے عین مطابق پراجیکٹ لانچ ہو گیا لیکن وقت گرزنے کے ساتھ ساتھ پراجیکٹ مینیجروں کو اپنی دو غلطیوں کا شدت سے احساس ہونے لگا ۔

(جاری ہے)

ایک تو یہ کہ باعزت واپسی کے لیئے دروازے کھلے رکھنے چاہیئے تھے ۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو اس قدر نہیں دبانا چاہیئے تھا کہ ان کا مینیجروں پر سے اعتماد ہی اٹھنے لگے اور دوسرا یہ کہ معیشت کی مضبوطی کا تعلق براہِ راست ملکی میں پرامن سیاسی ماحول اور عدم سیاسی کشیدگی سے منسلک ہے ۔


مینیجروں کے دائیں ،بائیں اب دو سوال کھڑے ہیں ، اول یہ کہ مراعات اور مفادات لے کر جن عالمی طاقتوں (امریکہ وغیرہ) کے اشاروں پر مذکورہ پراجیکٹ لانچ کیا گیا انہیں کیا پراگرس دکھائیں؟ اور دوئم یہ کہ تیزی سے خراب ہوتے ملکی معاشی حالات اور عوام میں بڑھتے ہوئے شعور اور غم و غصہ کے باعث اب یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ اب مذید کسی دھوکے یا فریب میں آئیں گے اور اس باعث پراجیکٹ آگے چلتا دکھائی نہیں دے رہا ۔


جہاں تک پراجیکٹ پر بھاری سرمایہ کاری کے ڈوبنے کا سوال ہے تو کاروبار نفع اور نقصان کا ہی نام ہے،اب نقصان برداشت کیئے بغیر کوئی چارہ نہیں اس سے پہلے کے پلّے سے لگانے کی نوبت آن پڑے اس کاروبار سے باہر نکل آنے میں ہی ملک اور قوم کا بھلا ہے جسے تا حال تختہِ مشق بنایا گیا ہے ،اور جن طاقتوں کے اشارے پر یہ سارا کھیل کھیلا گیا انہیں اپنی غلطیاں بتانے میں کوئی حرج نہیں ۔


 ’’سرنڈر‘‘ کرنا منیجروں کے لیئے کوئی پہلی بار کا تجربہ نہیں ہو گا ۔ عالمی طاقتوں سے جو معاہدات کیئے ہیں وہ معطل کر تے ہوئے ملک کے گیم چینجر منصوبے سی پیک کی مکمل بحالی اور ملک کی پاپولر لیڈر شپ کو آذادانہ طور پر سیاسی عمل میں حصہ لینے اور ملک میں از سرِ نو عام انتخابات کا اعلان کیا جائے جو کہ ملک کی تمام تر اپوزیشن جماعتوں کا مطالبہ ہے ۔


ایک سو دن میں انقلاب برپا کرنے کے دعوے داروں کی حکومت کو 600 دن مکمل ہو چکے ہیں ،لیکن آج صورتِ حال یہ ہے کہ صرف ایک سال کے حکومتی قرضے334 کھرب تک جا پہنچے ہیں ،12 ماہ میں مجموعی قرض میں 60 کھرب کا اضافہ کیا(21 فیصد) گیا،سرکلر ڈیٹ 2 ٹریلین تک پہنچا دیا گیا ہے جبکہ حکومت کی مالی اور اقتصادی پالیسیوں کے باعث ٹیکس ریو نیو میں شدید کمی سے قرض کا حجم مذید زیادہ ہونے کا امکان ہے ۔


 یاد رہے اس وقت ملک کے اندرونی قرضوں کے 3600 ارب روپے اور بیرونی قرضے13000 ارب ہیں ،جبکہ چین، دبئی اور سعودی عرب سے ملنے والے 12 ارب ڈالر علیحدہ ہیں ۔ لیکن غیر ملکی قرضاجات کی اقساط ادا کرنے کے لیئے پیسے موجود نہیں لیکن یہ کوئی نہیں بتا رہا کہ آخر یہ کھربوں روپے جا کہاں رہے ہیں ؟، عام عوام روٹی کو ترس رہی ہے لیکن کس کا پیٹ بھرا جا رہا ہے ؟اور عوام کا دیا ہوا ٹیکس کدھر جا رہا ہے ؟۔

خبر ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پاکستان کو کورونا وائرس سے نمٹنے کیلئے آئندہ ہفتے ایک ارب 40 کروڑ ڈالرز کا اضافی قرضہ دے گا ۔ اس سے قبل بھی کئی ممالک کورونا وائرس کے حوالے سے نقد امداد دے چکے ہیں لیکن زمینی حالات یہ ہیں کہ ٹائیگر فورس کی وردی کے لیئے 45کروڑ کا فنڈ جاری کیا جاسکتا ہے لیکن کورونا وائرس سے نبرد آزما سرکاری ڈاکٹروں کے پاس25 روپے والا ماسک تک موجود نہیں ۔

اس لیئے سوال پھر وہی اور ہوتا رہے گا کہ کہ آخر یہ سب پیسہ جا کہاں رہا ہے؟ اور اس کا حساب کون دے گا؟ ۔
ملک کا تمام تر کاروبار بند ہے،سرمایہ کاروں نے قسم کھائی ہے کہ آئے زور پالیسیاں بدلنے والی اس کٹھ پتلی حکومت کے ہوتے ہوئے کسی قسم کی سرمایہ کاری نہیں کی جائے گی ۔ لائق فائق منیجروں کی پرفارمنس کے باعث2 فیصد جی ڈی پی کے باعث بے روزگاری اور 3 فیصدمہنگائی کو13 فیصد کی خوفناک حد تک پہنچ چکی ہے،جس باعث ایک خونی خانہ جنگی دروازوں پر دستک دے رہی ہے اور ان خدشات کی تصدیق ملک کے انٹیلی جنس ادارے بھی کر چکے ہیں لیکن پراجیکٹ عمران لانچ کرنے کے مینیجر ابھی بھی اپنے مہرے عمران خان کے زریعے کسی بڑے معجزے کے منتظر ہیں ۔


اپنی کی گئی غلطی کو نہ ماننا اس سے بھی بڑی غلطی ہے،عمران خان کی صورت میں ایک ناکام گھوڑے کا انتخاب کر کے جو غلطی بلکہ بلنڈر کیا گیا ہے اب اسے نہ ماننے یا چھپانے کی کوششوں میں ملک کے 22 کروڑ عوام کا جینا حرام اور ملک کو کمزور کیا جا رہا ہے ۔ اپنے ناکام مہرے سے بے بنیاد اور جھوٹے الزامات میں جیلوں میں ڈالنے،قوم سے جھوٹے وعدے کروانے ،اپوزیشن کو چور اور ڈاکو کی گردان لگوا کر ملکی سیاست اورقومی سلامتی کے مینیجر اگر یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ وہ ملک کی مقبول سیاسی قیادت کو زلیل اور رسوا کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں تو درِ حقیقت ایسا نہیں ہوا بلکہ ،معاملہ بلکل اس کے بر عکس ہے ۔


 آج ملک کے غریب عوام کے اربوں روپے پر دن دیہاڑے ڈکیتی ڈالنے والے ان کے مہرے عمران خان اور اس کے ساتھیوں کے بجائے اسے لانے والوں پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں اورملک کو درپیش تمام مشکلات اور مصائب کا دوش انہیں ہی دیا جا رہا ہے ۔ آخر میں مینیجرصاحبان کو اطلاع دینی ہے جناب عالی! ملک کے کونے کونے سے اب آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ ملکِ خداداد اور اس کے اداروں کو سیاسی مینیجرز قومی سلامتی کے نام پر اپنے ذاتی ایجنڈے کے لیئے استعمال کر رہے ہیں ۔
ملکِ پاکستان کو درپیش دگرگوں حالات دیکھنے کے باوجود اگر آپ اپنے مہرے عمران خان کی بے جا حمایت ترک کرنے پر آمادہ نہیں تو پھر یہ بھی سن لیں کہ آپ کی اتری ہوئی دھوتی کو پگڑی بنا لینے سے موجود حقائق نہیں چھپیں گے.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :