’’مضبوط یا کمزور عمران خان‘‘‎

اتوار 19 اپریل 2020

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

جن عقلمندوں کے نزدیک وزیرِا عظم عمران خان بے وقوف ہیں ، نا سمجھ ہیں ، کمزور وکٹ پر کھیل رہے ہیں ، سیاسی طور پر کمزور ہیں ےا جیسے ان کی حکومت محض سات آٹھ ووٹوں کے سہارے پر کھڑی ہے، ایسے دانشور احمقوں کی کسی جنت کے مکین لگتے ہیں ۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر یقینا عمران خان بحثیت سیاستدان اور ایک پارٹی سربراہ کے اپنی پاکستان تحریک انصاف کا از خود تیاپانچہ نہ کرتے، نہ ہی اپنی کابینہ میں آدھے سے زیادہ غیر منتخب افراد کو مشیر یا وزیر بھرتی کرتے او ر نہ ہی اپنی پارٹی کے بانی اراکین کو اقتدار میں آ کر شجرِ ممنوعہ سمجھتے ہوئے انہیں نکال باہر کرتے ۔

اس کے باوجود،
 اب یہ حقیقت بھی جان لیجئے کہ عمران خان اب سیاسی نہیں بلکہ انفرادی طور پر بھی پہلے سے زیادہ مضبوط ہو چکے ہیں ان کا اب سیاست یا اپنی سیاسی جماعت تحریکِ انصاف سے اتنا لینا دینا نہیں جتنا کہ انٹرنیشنل اشٹبلشمنٹ سے ان کے روابط مضبوط ہو چکے ہیں ۔

(جاری ہے)


آج صورتِ حال یہ ہے کہ انہیں ذرہ برابر بھی اپنی حکومت کے جانے یا کمزور پڑنے کا کھٹکا نہیں کیونکہ ان کی حکومت کو بچانے اور مستحکم رکھنے کی خود ان سے زیادہ ان کے تمام لوکل اور انٹرنیشنل سہولت کاروں کو زیادہ فکر ہے، لہذا اگر کوئی پارٹی رکن استعفی دیتا ہے ےا ان پر تنقید کرتا ہے تو انہیں اس کی زرہ بھر بھی پرواہ نہیں ۔

یہ کہنا بھی بے جا نہ ہو گا کہ اگر خان صاحب از خود بھی کسی موقع پر اپنے عہدے سے استعفی دینا چاہیں تو بھی نہیں دے سکیں گے،جیسا کہ ان دو سالوں میں تین مرتبہ ہو بھی چکا ہے اور جو سبھی کے علم میں ہے ۔ یہ امر بھی عین ممکن ہے کہ عمران خان نے ایک حد سے زیادہ اپنے آپ کو استعمال ہونے سے بچانے اور اپنی جان چھڑانے کے لیئے از خود اپنی ناکامی کے اسباب پیدا کیئے ہوں لیکن انہیں اس چنگل سے آذادی نصیب نہ ہوئی ہو جس میں انہیں پھنسایا گیا ہے ۔


ان حقائق سے بھی کون بشر واقف نہیں کہ عمران خان کو اقتدار تک لانے میں کون کون سی قوتیں سرگرمِ عمل رہیں ؟، عمران خان کو اقتدار میں لانے کے لیئے فارن فنڈنگ کن کن نا پسندیدہ ممالک سے بھی ہوتی رہی؟،کس کس ان کے اقتدار کے لیئے طرح کلعدم قرار دی گئی اور ناپسندیدہ جماعتوں کو دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات میں استعمال کیا گیا؟،کس طرح سے کے پی کے میں دہشت گردی کا خوف پھیلا کر قوم پرست جماعتوں بلخصوص اے این پی کو انتخابی عمل سے دور رکھنے کی کوشش کی گئی؟، الیکشن کی شام آر ٹی ایس سسٹم کو کیسے فیل کیا گیا؟، کس طرح مسلم لیگ ن کا ووٹ بینک توڑنے کے لیئے اس کے امیدواروں پر بے بنیاد مقدمے بنا کر انہیں دن دہاڑے ان کی الیکشن مہم سے اٹھا کر جیلوں میں ڈالا گیا؟ یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ بے گناہ ہیں اور عمران خان کو وزیرِا عظم بنوانے کے لیئے کس طرح ان کے سیاسی مخالفین پر دباو ڈالنے کے لیئے ان پر مذہبی فتووں کا بھی استعمال کیا گیا؟ ۔


 یہ سارا عمل وہ قوتیں کود اپنے ہاتھوں سے کرتی رہیں جو عمران خان کو اقتدار میں لے کر آئی ہیں ۔ تو کیا عمران خان پر اس قدر بھاری سرمایہ کاری کرنے والے اتنی جلدی عمران خان کو کمزور ہونے دیں گے ؟۔
عمران خان یہ بھی بخوبی اور اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ان کی حکومت کو کیسے اورکس طرح لایا گیا،کس طرح اتحادی ملا کر انہیں اسمبلی میں سادہ اکثریت اکثریت دلوائی گئی اور پھر کس طرح تا حال انہیں اپنے لانے والوں کی حمایت اور تائید حاصل ہے؟ ۔

اسی لیئے عمران خان  آج مکمل ریلیکس محسوس کر ہے ہیں بلکہ وہ تو اب اس گاڑی کے سوار ہیں جو خود کار نظام یعنی آٹو موڈ پر چل رہی ہے اور ان کی تمام پریشانیاں اور مشکلات انہیں لانے والے فیس کر رہے ہیں ،خواہ وہ معاشی اور اقتصادی بحران ہو ےا ملک کی ناکام خارجہ پالیسی کے امور ہوں ۔
آج ملک میں غریب عوام کے اربوں روپے پر دن دیہاڑے جو ڈکیتیاں ڈالی جا رہی ہیں اور ملک مءائل کی جس چکی میں پس رہا ہے تو انگلیاں عمران خان اور ان کے ساتھیوں پر نہیں بلکہ انہیں لانے والوں پر اٹھ رہی ہیں اورملک کو درپیش تمام مشکلات اور مصائب کا دوش انہیں ہی دیا جا رہا ہے جبکہ عمران خان اس تاثر کو آئے روز گہرا کرنے کی کوششوں میں کامیابی سے مصروفِ عمل ہیں ۔

لہذا عمران خان کو سادہ اور بے وقوف سمجھنے والے ان حقائق کوبھی جاننے کی زحمت کریں ۔
امر واقع یہ ہے کہ عمران خان اب وہ طوطا نہیں رہے کہ جس کی کی جان ان کے مالکوں کے ہاتھوں میں ہے بلکہ حقیقتِ حال تو یہ ہے کہ عمران خان کو لانے والے مالکوں کی جان اب عمران خان کی ہاتھوں میں ہے ۔ عمران خان یہ بات بھی بخوبی جانتے ہیں کہ وہ اقتدار ملنے کے بعد کسی طور بھی ڈیلیور نہیں کر پائے لیکن وہ کمال ہوشیاری سے اس امر کا تاثر دیتے ہیں کہ اصل ناکامی ان کی نہیں بلکہ اسی خلائی مخلوق یا پولیٹیکل انجینئرز کی ہے جو انہیں اقتدار میں لائے ہیں ۔

اسی بناء پر وہ ہر کچھ عرصہ بعد اپنے کسی وزیر کے زریعے پریس کانفرنس کروا کر اس بات کا تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ کہ’’فوج ان کے ساتھ کھڑی ہے‘‘ یا’’عمران خان کہیں نہیں جا رہے سیکورٹی ادارے ان کے ساتھ ہیں ‘‘
اس ساری کہانی کو مذید آسانی سے سمجھنے کے لیئے عمران خان کے ماضی میں اشٹبلشمنٹ کے بارے میں خیالات ،نظریات اور پھر ان کے تقاریر اور انٹرویوز سنے اور دیکھے جا سکتے ہیں ۔

جن میں انہوں نے براہِ راست ملکی مسائل حل نہ ہونے کا ذمہ دار ملکی اشٹبلشمنٹ کو ٹہرایا ہے،لہذا کل کلاں اگر انہیں سہولت کاروں کی ہی جانب سے اقتدار سے نکال باہر کیا جاتا ہے تو وہ اشٹبلشمنٹ کے خلاف اپنا سابقہ بیانیہ لے کر میدانِ عمل میں موجود ہوں گے ۔ جو انہیں لانے والوں کے لیئے بہت برا سر درد ہو گا ۔
دوسری جانب اپوزیشن بھی اسی لیئے عمران خان کو عدم اعتماد یا کسی اور زریعے اقتدار سے باہر نکالنے کے حق میں نہیں ، ۔

اس کے خیال میں اشٹبلشمنٹ اور ان کے پولیٹیکل انجینئرز کو زیادہ سے زیادہ ایکپوز کیا جانا چاہیئے، وگرنہ محض سات یا آٹھ ووٹوں کے سہارے کھڑی اس حکومت کو گرانا پی پی پی اور ن لیگ کے لیئے کوئی اتنا برا مسعلہ بھی نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ نواز شریف اور آصف زرداری حکومت کو گرانے کے حق میں نہیں ۔ ان کی "حکمتِ عملی" بھی یہی ہے کہ عمران خان اور ان کے سہولت کاروں کو عوام میں اس قدر بے نقاب اور کھجل خراب کیا جا ئے کہ اگلے انتخابات میں اشٹبلشمنٹ کی زرا برابر بھی حمایت رکھنے والے امیدواروں یا سیاسی جماعتوں کو چاروں شانے گرانے میں کوئی دقت نہ رہے ۔


اس لیئے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اگلے عام انتخابات میں اشٹبلشمنٹ مخالف سیاست دانوں ، نوا زشریف،آصف زرداری، محمود خان اچکزئی،مولانا فضل الرحمان،سردار اختر مینگل،میر حاصل بزنجو ،اسفند یار ولی اور ملک کی دیگر قوم پرست سیاسی جماعتوں کا براہ راست مقابلہ عمران خان کی تحریکِ انصاف سے نہیں بلکہ ان کے سہولت کاروں سے براہِ راست ہو گا ۔

بات آگے نکل گئی،اصل موضوع کی جانب واپس آتے ہیں ۔
نواز شریف کو صرف’’ یس سر‘‘ نہ کہنے کی پاداش میں پانامہ اور اقامہ کے نام پر نا اہل کروا کر اقتدار سے بے دخل کیا گیا اورپوری منصوبہ بندی اوربھاری سرمایہ کاری کر کے عمران خان کو کٹھ پتلی سمجھ کر اقتدار میں بٹھایا گیا لیکن حالات کی ستم ضریفی دیکھیئے کہ آج سہولت کار نا چاہتے ہوئے بھی اپنی کٹھ پتلی کو ’’یس سر‘‘ کہنے پر مجبور ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اسی کٹھ پتلی میں اب ان کی جان پھنسی ہے اور اگر ان کی کٹھ پتلی نے سارا کٹھا چٹھا کھول کر رکھ دیا تو وہ دنیا کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے ۔
اب بتایئے کہ عمران خان سیاسی طور پر کمزور واقع ہوئے یا کہ مضبوط ؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :