"لاہور ہائیکورٹ میں بلند نعرے"‎

منگل 29 ستمبر 2020

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

خاکسار تسلسل کے ساتھ عرض کرتا چلا آ رہا ہے کہ اپنے زاتی اور سامراجی مفادات کے حصول اور پھر ان کے تحفظ کے لیئے قومی سلامتی کے نام پر ایک طویل عرصے تک عوام اور اشٹبلشمنٹ کے درمیان مصنوعی احترام کا رشتہ زیادہ عرصہ تک نہیں چلاےا جا سکتا اور نہ ہی ملک پر بھارت کے حملے کر دینے کا ڈر، خوف یا بھارتی سازش کا چورن پیدا کر کے عوام کو ایک عرصہ تک دھوکہ دیا جا سکتا ہے ۔

بد قسمتی سے کل لاہور ہائیکورٹ میں عسکری قیادت کا نام لے کر جو نعرے لگائے گئے ہیں ،ان کے سننے کے بعد اب یہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں کہ لاچار اور پسی ہوئی عوام میں اب زور زبردستی پر قائم کسی رشتہ کا احترام اور لحاظ کرنے کی سکت باقی نہیں رہی ۔
یا تو عوام کو پیٹ پھر کر روٹی کھانے دی جاتی، تعلیم یافتہ نوجوان بے روزگار نہ ہوتے اور ملک میں خوشحالی کا دور دورہ تو بھی زبردستی احترام نہ کرنے کا گلہ کیا جا سکتا تھا ۔

(جاری ہے)

اب تو عوام سے ان کی سانسیں چھینی جا رہی ہیں لیکن ان کی جانب سے لحاظ اور احترام کرنے کی بھی توقع کی جا رہی ہے جو کسی طور ممکن نہیں ۔ ظاہر ہے جب عوام کو اس بات کا مکمل احساس ہو گا کہ وہ اشٹبلشمنٹ کے مفادات کی محض ایک چراہ گاہ بن چکے ہیں تو پھرکیسا لحاظ اور احترام کا رشتہ باقی رہے گا ۔ ایسے حالات میں یقیناً عوامی جارحیت ہی جنم لیتی ہے جو ایک افسوسناک عمل ہے ۔


لاہور ہائیکوٹ کی حدود میں بلند ہونے والے مذکورہ نعرے اس ملک میں کوئی نئے نہیں یا پہلے مرتبہ نہیں لگائے گئے، یہ نعرے ڈیکٹیٹر جنرل ایوب خان کے دورِ آمریت میں بھی سنے گئے لیکن موجودہ وقت میں حالات اب ان نعروں سے کافی آگے جا چکے ہیں ،فاٹا ،اندرونِ سندھ اور بلوچستان کو چھوڑیئے،یہ نعرے اب اس وفادار پنجاب میں گونج رہے ہیں جو کل پاکستان کا ستر فیصد اور ہمیشہ سے اسٹبلشمنٹ کا گڑھ سمجھا جاتا رہا ہے ۔

اب بتایئے، ہم کیا سمجھیں کہ اس ملک کے کون سے حصے میں اسٹبلشمنٹ کے درد مند یا وفادار بستے ہیں ۔ گزشتہ کالم میں بھی عرض کیا تھا چھ ماہ کے لیئے جیل بھیجنے یا پانچ لاکھ روپے جرمانہ عوام کے بدلتے ہوئے مزاج کا حل نہیں ۔
ذاتی اور عالمی مفادات کے تحفظ اور ان کی تکمیل کی غرض سے، اگر ملکی سلامتی یا ;فرسٹ پاکستان;کے نام پر سرکاری وردی میں قومی ترانے کا وِرد کرتے ہوئے ملکی آئین کوتوڑا جائے اور پھر ایسے گھناونے اقدام پر آواز اٹھانے والے اپنے محکمے کے جونیئرز اور دیگر افراد کے خلاف محکمانہ کاروائی شروع کر دی جائے اور انہیں کال کوٹھریوں میں ڈال دیا جائے، جونیئرز کا حق غصب کرتے ہوئے اپنی ملازمتوں میں ’’ توسیع‘‘ لی جائے، سامراجی ایجنڈے کی تکمیل کے لیئے ریاستی طاقت کے بَل پر من پسند اور جی حضوری کرنے والے عناصر کو ملک کے اقتدار پر بٹھا دیا جائے ، سامراجی ایجنڈے کی تکمیل میں رکاوٹ بننے والی سیاسی طاقتوں کو بند گلی میں دکھیل دیا جائے.
 ملک کے شہریوں کو قانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے اگر اپنے آئینی حقوق مانگنے پر غداری کے طعنے دیئے جائیں اوران کے خلاف ریاستی تشدد کی تمام حدیں عبور کر لی جائیں تو ملک کا کوئی بھی شہری آپ کو عزت اور احترام کی نگاہ سے نہیں دیکھے گا;بلکہ عام شہریوں کے دلوں میں آپ کے خلاف انتہاء درجے کی نفرت اور خوف پیدا ہو گا اور پھر کچھ عرصے بعد اس خوف اور نفرت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتِ حال کے ذمہ دار بھی آپ خود ہوں گے جس کا مظاہرہ کل لاہور ہائیکورٹ کے احاطے میں کیا گیا لیکن شائد ابھی تک اسٹبلشمنٹ کے سر پر جوں نہیں رینگی ۔

کیونکہ ریاستی پالیسیاں بدستور اسی پرانی ڈگر پر چلتی دکھائی دے رہی ہیں ،جن کے باعث بد قسمتی سے آذادی حاصل کرنے کے کچھ ہی عرصہ بعد ملک دو لخت ہوا ۔
ہمارے ہاں بدقسمتی سے ایک جانب ریاست کی جانب سے دی گئی طاقت کے بل بوتے پر اپنا خوف، رعب اور دبدبہ پیدا کر کے عوام سے زبردستی اپنی عزت اور احترام کروانے کی کوشش کی گئی جبکہ دوسری جانب مثبت عملی اور تعمیری کردار کے زریعے عوام کے دل جیتے گئے ۔

جس کا نتیجہ بھی آج ہم سب کے سامنے ہے ۔
اپنی شکلیں معصوم بنانے کی اداکاری کرنے یا صرف کوئی مخصوص لباس زیب تن کر کے شہریوں کے دلوں میں اگر عزت اور احترام پیدا ہونا ہوتا تو آج ملکِ خداداد میں ایسے ایسوں کی برسیاں ضرور منائی جاتیں جنہیں سلامیاں دے کر قومی پرچم میں لپیٹ کر دفن کیا گیا تھا،بلکہ اس کے برعکس قوم صرف انہیں اپنا ہیرو اور رہبر مانتی آئی ہے جنہوں نے اس ملک کا آئین بنایا،عوامی بالادستی کا نعرہ بلند کیا، جن کی ایمبولنس میں پٹرول ختم کر دیا گیا یا خرابی پیدا کر دی گئی، جنہیں پھانسی چڑھا دیا گیا، کئی کئی سالوں جیلوں میں رکھا گیا، جلا وطن کر دیا گیا، یا پھر گولیاں مار کر راستے سے ہی ہٹا دیا گیا ۔


زور زبر دستی کے سرکاری اِحترام کا بل آخر انجام کیا ہوتا ہے، ملک کے طول و عرض اور اب لاہور میں اس کا مظاہرہ دیکھنے کے بعد بھی اگر کسی کی عقل کام نہیں کر رہی تو ایسے مائنڈ سٹ کے لیئے دعا ہی کی جا سکتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :