
"لاہور ہائیکورٹ میں بلند نعرے"
منگل 29 ستمبر 2020

احتشام الحق شامی
یا تو عوام کو پیٹ پھر کر روٹی کھانے دی جاتی، تعلیم یافتہ نوجوان بے روزگار نہ ہوتے اور ملک میں خوشحالی کا دور دورہ تو بھی زبردستی احترام نہ کرنے کا گلہ کیا جا سکتا تھا ۔
(جاری ہے)
لاہور ہائیکوٹ کی حدود میں بلند ہونے والے مذکورہ نعرے اس ملک میں کوئی نئے نہیں یا پہلے مرتبہ نہیں لگائے گئے، یہ نعرے ڈیکٹیٹر جنرل ایوب خان کے دورِ آمریت میں بھی سنے گئے لیکن موجودہ وقت میں حالات اب ان نعروں سے کافی آگے جا چکے ہیں ،فاٹا ،اندرونِ سندھ اور بلوچستان کو چھوڑیئے،یہ نعرے اب اس وفادار پنجاب میں گونج رہے ہیں جو کل پاکستان کا ستر فیصد اور ہمیشہ سے اسٹبلشمنٹ کا گڑھ سمجھا جاتا رہا ہے ۔ اب بتایئے، ہم کیا سمجھیں کہ اس ملک کے کون سے حصے میں اسٹبلشمنٹ کے درد مند یا وفادار بستے ہیں ۔ گزشتہ کالم میں بھی عرض کیا تھا چھ ماہ کے لیئے جیل بھیجنے یا پانچ لاکھ روپے جرمانہ عوام کے بدلتے ہوئے مزاج کا حل نہیں ۔
ذاتی اور عالمی مفادات کے تحفظ اور ان کی تکمیل کی غرض سے، اگر ملکی سلامتی یا ;فرسٹ پاکستان;کے نام پر سرکاری وردی میں قومی ترانے کا وِرد کرتے ہوئے ملکی آئین کوتوڑا جائے اور پھر ایسے گھناونے اقدام پر آواز اٹھانے والے اپنے محکمے کے جونیئرز اور دیگر افراد کے خلاف محکمانہ کاروائی شروع کر دی جائے اور انہیں کال کوٹھریوں میں ڈال دیا جائے، جونیئرز کا حق غصب کرتے ہوئے اپنی ملازمتوں میں ’’ توسیع‘‘ لی جائے، سامراجی ایجنڈے کی تکمیل کے لیئے ریاستی طاقت کے بَل پر من پسند اور جی حضوری کرنے والے عناصر کو ملک کے اقتدار پر بٹھا دیا جائے ، سامراجی ایجنڈے کی تکمیل میں رکاوٹ بننے والی سیاسی طاقتوں کو بند گلی میں دکھیل دیا جائے.
ملک کے شہریوں کو قانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے اگر اپنے آئینی حقوق مانگنے پر غداری کے طعنے دیئے جائیں اوران کے خلاف ریاستی تشدد کی تمام حدیں عبور کر لی جائیں تو ملک کا کوئی بھی شہری آپ کو عزت اور احترام کی نگاہ سے نہیں دیکھے گا;بلکہ عام شہریوں کے دلوں میں آپ کے خلاف انتہاء درجے کی نفرت اور خوف پیدا ہو گا اور پھر کچھ عرصے بعد اس خوف اور نفرت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتِ حال کے ذمہ دار بھی آپ خود ہوں گے جس کا مظاہرہ کل لاہور ہائیکورٹ کے احاطے میں کیا گیا لیکن شائد ابھی تک اسٹبلشمنٹ کے سر پر جوں نہیں رینگی ۔ کیونکہ ریاستی پالیسیاں بدستور اسی پرانی ڈگر پر چلتی دکھائی دے رہی ہیں ،جن کے باعث بد قسمتی سے آذادی حاصل کرنے کے کچھ ہی عرصہ بعد ملک دو لخت ہوا ۔
ہمارے ہاں بدقسمتی سے ایک جانب ریاست کی جانب سے دی گئی طاقت کے بل بوتے پر اپنا خوف، رعب اور دبدبہ پیدا کر کے عوام سے زبردستی اپنی عزت اور احترام کروانے کی کوشش کی گئی جبکہ دوسری جانب مثبت عملی اور تعمیری کردار کے زریعے عوام کے دل جیتے گئے ۔ جس کا نتیجہ بھی آج ہم سب کے سامنے ہے ۔
اپنی شکلیں معصوم بنانے کی اداکاری کرنے یا صرف کوئی مخصوص لباس زیب تن کر کے شہریوں کے دلوں میں اگر عزت اور احترام پیدا ہونا ہوتا تو آج ملکِ خداداد میں ایسے ایسوں کی برسیاں ضرور منائی جاتیں جنہیں سلامیاں دے کر قومی پرچم میں لپیٹ کر دفن کیا گیا تھا،بلکہ اس کے برعکس قوم صرف انہیں اپنا ہیرو اور رہبر مانتی آئی ہے جنہوں نے اس ملک کا آئین بنایا،عوامی بالادستی کا نعرہ بلند کیا، جن کی ایمبولنس میں پٹرول ختم کر دیا گیا یا خرابی پیدا کر دی گئی، جنہیں پھانسی چڑھا دیا گیا، کئی کئی سالوں جیلوں میں رکھا گیا، جلا وطن کر دیا گیا، یا پھر گولیاں مار کر راستے سے ہی ہٹا دیا گیا ۔
زور زبر دستی کے سرکاری اِحترام کا بل آخر انجام کیا ہوتا ہے، ملک کے طول و عرض اور اب لاہور میں اس کا مظاہرہ دیکھنے کے بعد بھی اگر کسی کی عقل کام نہیں کر رہی تو ایسے مائنڈ سٹ کے لیئے دعا ہی کی جا سکتی ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
احتشام الحق شامی کے کالمز
-
حقائق اور لمحہِ فکریہ
ہفتہ 19 فروری 2022
-
تبدیلی، انکل سام اورحقائق
بدھ 26 جنوری 2022
-
’’سیکولر بنگلہ دیش اور حقائق‘‘
جمعہ 29 اکتوبر 2021
-
”صادق امینوں کی رام لیلا“
ہفتہ 2 اکتوبر 2021
-
”اسٹبلشمنٹ کی طاقت“
جمعہ 1 اکتوبر 2021
-
ملکی تباہی کا ذمہ دار کون؟
بدھ 29 ستمبر 2021
-
کامیاب مزاحمت آخری حل
بدھ 1 ستمبر 2021
-
"سامراج اور مذہب کا استعمال"
جمعہ 27 اگست 2021
احتشام الحق شامی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.