نیازی صاحب جلد بتائیں گے‎

ہفتہ 26 دسمبر 2020

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

ملکِ خداداد میں چند برسوں سے ریٹائرڈ صاحبان کی غلطیوں اور گناہوں کے اعترافات پر مبنی کتابیں لکھنے کا رواج چل نکلا ہے ۔ ذمہ دار اور حساس عہدوں سے ریٹائرڈ افراد اپنی کتابوں میں اپنی ملازمت کے دوران اپنی کمزوریوں اور دباو کے باعث ہونے والے ایسے فیصلے لکھ کر قوم کو آگاہ کر رہے ہیں جس باعث ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ چکا ہے اور تا حال پہنچ رہا ہے ۔

ریاست کے ذمہ دار ملازمین کی غلطیوں اور کمزوریوں کے اعترافات پر مبنی کتابوں اور کہانیوں کی اشاعت سے تاریخ اور قوم ان کے پاپ معاف کرے گی یا نہیں ،اس سے قطع نظر یہ بات کان کھڑے کر کے سن لیں کہ عمران احمد نیازی صاحب اقتدار سے ہٹائے جانے کی صورت میں کسی ایسی اعترافی کتاب لکھنے کے تکلف میں پڑنے کے بجائے شہر شہر اور ملک ملک جا کر اپنے سہولت کاروں کی بینڈ بجائیں گے ۔

(جاری ہے)

یہی وہ خوف اور خطرہ ہے جس باعث نیازی صاحب کو اقتدار میں لانے والے ان کے سہولت کار اپنے مہرے اور کٹھ پتلی وزیرِا عظم کی نا اہلیوں اور تاریخی نالائقیوں کے باعث اپنی بدنامی اور تاریخی بے عزتی مسلسل تین سالوں سے برداشت کر رہے ہیں۔
ٹی وی اینکرز،کالم نگاروں اور سیاسی تجزیہ کاروں نے تو اپنے اپنے ضمیر پر اشٹبلشمنٹ کے پڑے بھاری بوجھ کو اتارنے کے لیئے اب کھلے الفاظ میں دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن کے نتیجے میں موجودہ حکومت کے ’’ طریقہ کار ‘‘ کو تفصیل سے بتانا شروع کر دیا ہے،اب انتظار کیجئے اس دن کا جب نیازی صاحب بھی وقفے وقفے سے قوم کو اپنے سہولت کاروں کی اس سہولت کاری سے آگاہ کریں گے جس کے باعث انہیں اقتدار میں لایا گیا اور پھر انہیں ہمیشہ کے لیئے پاکستانی سیاست سے بے دخل کرنے کی کوششیں کی گئیں ۔


آپ انتظار کیجئے کہ جب اشٹبلشمنٹ کی جانب سے قوم پر مسلط کیئے گئے عمران خان نیازی تفصیل سے بتائیں گے کہ کس طرح انہیں ٹریپ کر کے ان کی سیاسی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کو ہائی جیک کیا گیا، ان کی بائیس سالہ سیاست کا بیڑہ غرق کیا گیا اور کس طرح انہیں بے اختیار وزیرِ اعظم بنا کر قوم اور دنیا کے سامنے بے آبرو اور رسوا کر کے کٹھ پتلی اور تابعدار مشہور کروایاگیا ۔

کس طرح سہولت کاروں کے اشاروں پر ایک منتخب حکومت کو کمزور کرنے کے لیئے انہیں کنٹینر مہیا کیا گیا، ان کے جلسے سجائے گئے اور سہولت کاروں کی ہدایت پر انہوں نے وقت کے حکمرانوں کی زاتیات پر حملے کیئے ،جس پر وہ شرمندہ ہیں ۔ نیازی صاحب بتائیں گے کہ کن طاقتوں کے کہنے پر چین کے صدر کو اسلام آباد کے سرکاری دورے پر آنے سے روکا گیا اور سی پیک منصوبے کو ناکام بنانے کے لیئے سازشیں کی گئیں ۔

نیازی صاحب اعترافی کتاب لکھنے کے بجائے اپنی پریس کانفرنسوں اور ٹویٹس میں قوم اور دنیا کو بتائیں گے کہ کس طرح آر ٹی ایس سسٹم جام اور انتخابات میں دھاندلی کر کے انہیں اقتدار پیش کیا گیا اور ساتھ میں یہ بھی واضع کریں گے کہ پی ٹی وی کی عمارت پر اور جیو کے دفتر پر حملے کے لیئے ان کے کارکنان کو نامعلوم افراد نے استعمال کیا اور بدنام ان کے سیاسی جماعت ہوئی جبکہ نواز حکومت کے آخری دنوں میں خادم رضوی مرحوم کے فیض آباد دھرنے میں بھی ان کا کوئی کردار نہیں تھا بلکہ وہ دھرنہ اسپانسرڈ تھا ،جسے سہولت کار براہِ راست کنٹرول کر رہے تھے ۔


نیازی صاحب آہیں بھرتے ہوئے قوم کو بتائیں گے کہ ان کی تو خواہش تھی کی پارٹی منشور کے مطابق ان کی حکومتی کابینہ مختصر ہوتی لیکن حجم کے لحاظ سے ان کی بڑی تاریخی کابینہ میں ماسوائے چند وزارء کے باقی کے تمام وزیر مشیر خود ان کی جانب سے نہیں لگائے گئے تھے بلکہ اشٹبلشمنٹ کی جانب سے لگائے گئے تھے اور وہ بے بس تھے ۔ موصوف بتائیں گے کہ ان کی نواز شریف سے کسی قسم کی زاتی دشمنی یا رنجش نہیں تھی، انہیں نواز شریف کے بارے میں غلط بریف اور بے بنیاد رپورٹس دکھا کر گمراہ کیا گیا تھا ۔

نواز شریف کے خلاف مقدمات سہولت کاروں کی فرمائش اور مطالبے پر نیب کے زریعے قائم کیئے گئے تھے اور نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کے خلاف بدترین انتقامی کاروائیاں کی گئیں جن کا انہیں ہمیشہ افسوس ر ہے گا ۔ وہ نواز شریف ان کے خاندان اور مسلم لیگ ن کے ان بے گناہ لیڈروں اور کارکنان سے معافی مانگتے ہیں جنہوں نے ان کے دورِ حکومت یعنی حکومتِ عمرانیہ میں بے بنیاد اور جھوٹے مقدمات کا سامنا کیا اور جیلیں کاٹیں ۔


نیازی صاحب ٹیوٹر اکاونٹ سے اپنے لاکھوں فالورز اور قوم کو یہ بھی آگاہ کریں گے کہ غریب پاکستانی قوم کے لیئے کورونا وائرس کے حوالے سے ملنے والے اربوں ڈالرز ان کے لیئے کیوں شجرِ ممنوعہ تھے اور مذکورہ بھاری رقوم براہِ راست کس کس کی جیب میں گئیں اور کن کن کے بینک اکاونٹس میں عالمی مالیاتی اداروں سے ملنے والے بھاری اور تاریخی قرضے گئے ۔

خارجہ پالیسی کے حوالے سے نیازی صاحب فرمائیں گے کہ’’ میں چاہتاتھا کہ اقوامِ متحدہ میں کشمیر پر پاکستان کا مقدمہ مذید مضبوط ہو مگر میں مجبور تھا ۔ مجھے ملک کی خارجہ پالیسی میں دخل اندازی کرنے یا اسے اپنی مرضی یا وژن کے مطابق چلانے کرنے کا اختیار حاصل نہیں تھا، میرے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کو بھی ان طرح بے بس کر دیا گیا تھا‘‘ ۔

صاحب مذید فرمائیں گے کہ ان کی خواہش تھی کے چین، بھارت اور دیگر علاقائی ممالک کے ساتھ تعلاقات مذید بہتر ہوں لیکن انہیں امریکہ کے آگے سجدہ زیر ہونے پر مجبور ہونے اور پاکستان میں امریکہ اور اس کے زیرِ اثر مالیاتی اداروں کی عوام کش پالیسیاں لاگو کرنے کا پابند کر دیا گیا ۔
سعودیہ اور دیگر خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات کی خرابی کے وہ ذمہ دار نہیں بلکہ اس کے براہِ راست وہ غیر سیاسی قوتیں یعنی سہولت کار ذمہ دار ہیں جو ہمیشہ سے اس ملک میں وزارتِ خارجہ چلا تی رہی ہیں اور جن کے دفتروں میں بیرونی ممالک سے آنے والے غیر ملکی سرکاری اور نجی وفود ملاقاتیں کرتے رہے ہیں ۔


اب زرامندرجہ بالا متوع صورتِ حال کا دوسرا رخ بھی ملاحظہ فرما لیں ۔ نیازی صاحب بخوبی جانتے ہیں کہ ان کی زاتی زندگی، کردار اور ملک کے حساس اداروں کے حوالے سے ویڈیوز اور ڈھیروں متنازع مواد انہیں اقتدار میں لانے والی قوتوں کے پاس موجود ہے ، جس باعث انہیں اپنا منہ بند رکھنے کے لیئے بلیک میل کیا جا سکتا ہے ۔ ایسی صورتِ حال میں متذکرہ بالا حقائق اور مجبوریاں ، ڈٹ کر کھڑے رہنے والے نیازی صاحب قوم کو بنانے کی ہمت اور جرات کر پائیں گے یا نہیں ،اس کا فیصلہ نیازی صاحب کی بہادری پر منحصر ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :