پی ڈی ایم کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟

جمعہ 18 دسمبر 2020

Ahtsham Ijaz Bhalli

احتشام اعجاز بھلی

پاکستان میں اس وقت سیاسی دھماچوکڑی مچی ہوئ ہے۔حزب اختلاف کی کم و بیش گیارہ کے قریب جماعتوں نے مل کر پی ڈی ایم کا اتحاد قائم کیا ہے جس کے تحت پاکستان کے مختلف مقامات پر جلسوں کا انعقاد کیا گیا۔اس اتحاد میں دراڑ پڑنے کے قوی امکانات موجود تھے مگر ابھی تک یہ اتحاد پوری قوت سے قائم ہے۔اس اتحاد کے اہداف کے بارے میں بھی شروع میں مختلف قیاس آرائیاں کی گئیں مگر اب سب کچھ کھل کر سامنے آ چکا ہے۔

اس کا پہلا مقصد تو عمران خان کی حکومت کو گرانا ہے،یا گرانے کی کوشش کر کے اپنے مطالبات منوانا ہے جس میں اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ سے لے کر کیسز کے خاتمے تک سب کچھ شامل ہو سکتا ہے۔
آج کل ہر طرف جمہوریت خطرے میں ہے کا راگ الاپا جا رہا ہے۔مجھے تو ابھی تک یہ سمجھ نہیں آسکا کہ اپوزیشن کے لحاظ سے جمہوریت کب خطرے میں نہیں آئ؟جس کو حکومت مل جاتی ہے اس کی جمہوریت خطرے سے باہر آ جاتی ہے جبکہ سب اپوزیشن والوں کی جمہوریت ہمیشہ خطرے کی زد میں ہی دکھائ دی ہے۔

(جاری ہے)


پاکستانی سیاست کی موجودہ صورتحال دیکھ کر اگر منافقت کا دوسرا نام کہیں تو مضائقہ نہ ہو گا۔ایک دوسرے کو سڑکوں پر گھسیٹنے کے نعرے لگانے والے، مسٹر ٹین پرسنٹ کے لقب سے پکارنے والے اور عورت کی حکمرانی کو حرام قرار دینے والے ایک ہی پلیٹ فارم پر کندھے سے کندھا ملا کر یا تو خود کھڑے ہیں اور یا پھر ان کی اگلی نسل کھڑی ہے۔وہ جو مشرف کو بیماری کے بہانے بیرون ملک فرار ہونے کا طعنہ دیتے تھے اب خود بیماری کے بہانے لندن جا کر بیٹھے ہیں اور عدالتوں کا سامنا کرنے کی بجاۓ ملک کے اداروں کو لتاڑنے میں مصروف ہیں۔


موجودہ جمہوری اتحاد کے مطالبات یا اہداف کو مدنظر رکھ کر اگر ماضی کے دریچوں میں جھانکا جاۓ تو مسلم لیگ ن اور پی پی پی کی جماعتیں تقریباً پچھلی تین دہائیوں سے ایک دوسری کی جڑیں کاٹتی نظر آئیں اور ایک دوسرے کی جمہوری حکومتوں کو گرانے کے لیۓ اسی اسٹیبلشمنٹ کو معاملات کے حل کی درخواستیں کرتی رہیں اور اب اسی اسٹیبلشمنٹ سے یہ حکومت نہ ملنے اور کرپشن کیسز کھلنے کے بعد نالاں نظر آ رہے ہیں۔


موجودہ اتحاد میں نسلی،لسانی اور مذہبی سب رنگ موجود ہیں۔اپنے مفادات کے لیۓ سب ایک پلیٹ فارم پر یکجا نظر آ رہے ہیں۔کرونا کی موجودگی کے باوجود سب اپنی اور عوام کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال کر سیاسی ہلڑ بازی میں مصروف ہیں۔بڑے میاں صاحب جن کے بقول ان کا علاج ابھی تک چل رہا ہے (اور یوں لگتا ہے کہ عمران حکومت کی موجودگی تک وہ علاج چلتا ہی رہے گا)، وہ لندن سے خطاب فرما کر ملک کے عسکری ادارے کے سربراہان کی کرپشن اور جانبداری کا رونا رونے میں مصروف ہوتے ہیں ان کے اس عمل کو دیکھ کر بے ساختہ الطاف حسین کی یاد تازہ ہو جاتی ہی۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عسکری ادارے کے اعلی عہدیداروں کی کرپشن یا جانبداری میاں نواز شریف کی حکومت میں موجود نہیں تھی؟
اگر موجود تھی تو اس وقت میاں صاحب نے اس پر ایکشن کیوں نہ لیا؟
اگر اس وقت موجود نہیں تھی تو کیا اس طرح بیرون ملک بیٹھ کر تقریریں کر کے ان کی جانبداری یا کرپشن ختم ہو جاۓ گی؟
جناب اگر جو الزام آپ نے لگاۓ ہیں اور وہ درست ہیں تو ثبوتوں کے ساتھ بات کریں،چنانچہ اعلی عدلیہ پر بھرپور اعتماد ہے آپ کا تو آپ کو چاہیۓ کہ اس مسئلہ کو پارلیمنٹ سے کر اعلی عدلیہ تک سب جگہوں پر قانون کے مطابق حل کریں۔


اپوزیشن کا اتحاد موجودہ حکومت کو گھر بھیجنے کا اعلان کر چکا ہے اور جنوری میں حکومت کو مستعفی ہونے کا بولا گیا ہے۔مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسے جلسے،جلوس اور دھرنے کی سیاست کرنے سے جمہوری حکومت کا خاتمہ ممکن ہے؟
کیا ایسی کوئ کامیاب مثال پاکستان میں موجود ہے؟
جناب پہلے مدت پوری کرنے کا جائزہ لیا جاۓ تو گزشتہ دو دہائیوں میں زیادہ تر پارلیمان اور صوبائی اسمبلیوں نے آئینی مدت پوری کی ہے۔

یہاں یہ بھی یاد رہے کہ آئینی مدت اسمبلی نے پوری کرنی ہوتی ہے نہ کہ وزیراعظم نے۔
اگر دھرنے سے حکومت گرنے لگے تو علامہ قادری صاحب اور عمران خان نے پاکستان کی تاریخ کا بڑا دھرنا اسلام آباد میں دیا تھا جو کہ 126 دن پر مشتمل تھا اور جس کے بارے میں پی ڈی ایم کا فرمانا ہے کہ اس دھرنے کو اسٹیبلشمنٹ کی بھی مدد حاصل تھی۔اب یہ سوچنے والی بات ہے کہ اتنا طویل دھرنا اور اسٹیلبشمنٹ کی مدد بھی حاصل ہو مگر پھر بھی اس وقت کی میاں صاحب کی جمہوری حکومت کو نہ گرا سکے۔


اب بقول پی ڈی ایم کے ان کو کسی کی مدد بھی حاصل نہیں اور میرے خیال میں وہ عمران خان اور قادری صاحب جتنا طویل دھرنا دینے کی استطاعت بھی نہیں رکھتے، تو کیا اس کے باوجود وہ خیال کرتے ہیں کہ حکومت کو گرا سکیں گے؟
پہلے عمران خان اور قادری صاحب کی دھرنا سیاست سے دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائ ہوئ اور اسی طرح اب نواز شریف کی لندن بیٹھ کر اداروں اور شخصیات کے حوالے سے اعتراضات پر مبنی تقاریربشمول اپوزیشن کی جلسہ اور دھرنا سیاست سے پاکستان کی مزید جگ ہنسائ ہو رہی ہے۔


اس سب کا حاصل تو پتا نہیں کیا ہو گا اور یہ سلسلہ کہاں جا کر رکے گا مگر جمہوری حکومتوں کے اقتدار کا فیصلہ عوام کے منتخب کردہ پارلیمان میں ہو تو بہتر ہے۔ورنہ موجودہ وبا اور معاشی صورت حال کے پیش نظرعوام کو دھرنا کلچر کا سب سے زیادہ نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :