بحر اوقیانوس کے کنارے

پیر 20 جولائی 2020

Amjad Hussain Amjad

امجد حسین امجد

لائبیریا  مغربی  افریقہ کا ملک ہے جو   کہ دنیا کے دوسرے بڑے سمندر اوقیانوس کے کنارے واقع ہے۔اس کے ہمسایہ ممالک میں سیرالون، گینیا اور آئوری کوسٹ شامل ہیں۔آبادی تقریباً 5 ملین ہے۔رقبہ تقریباً ایک لاکھ گیارہ ہزار مربع کلومیٹر ہے۔کولمبس  نے  بحر اوقیانوس ( Atlantic Ocean  ) کے راستے جا کر ہی امریکہ دریافت کیا تھا۔ا مریکہ میں سیاہ فام  غلامی  کے خاتمے کے سلسلے میں  1916 میں قائم ہونے والی ’’امریکن کالونائزیشن سوسائٹی‘‘ نے اس مقصد کے لیے افریقہ میں نوآبادی بنانے کی کوششیں شروع کر دیں۔

انہیں کوششوں کے نتیجے میں بالآخر افریقہ کا ملک لائبیریا وجود میں آیا۔ اس سوسائٹی میں مستقبل کے امریکی صدور جیمز مونرو اور اینڈریو جیکسن بھی شامل تھے۔

(جاری ہے)

یہ امریکا میں غلامی کے خاتمے سے 50 برس قبل کی بات ہے۔ 1821ء میں سوسائٹی نے مغربی افریقہ کے مقامی رہنماؤں سے ایک معاہدہ کیا اور زمین کی ایک پٹی حاصل کر لی۔ اگلے برس سوسائٹی نے آزاد ہونے والے لوگوں کو یہاں بھیجنا شروع کر دیا۔

ان میں زیادہ تر خاندان تھے۔ 40 برسوں میں 12 ہزار کے لگ بھگ سیاہ فام امریکی اس نئی نو آبادی میں پہنچے۔  لائبیریا   پاکستان سے ایک سو سال پہلے 1847 میں آزاد ہوا تھا۔ لائبیریا  کے دارالحکومت کے پاس 1926  سے قائم فائر سٹون قدرتی ربڑ کمپنی ہے۔جو کہ امریکی کمپنی  برج سٹون کا حصہ ہے۔اس میں  6000 سے زائد ملازمین ہیں۔ اور یہ  تقریبا 200 مربع میل پر محیط ہے۔

دنیا کا سب سے بڑا واحد قدرتی ربڑ آپریشن ہے ۔ فائرسٹون  کمپنی  کے مالک ہاروے سیموئل فائرسٹون ، تھامس ایڈیسن اور ہنری فورڈ کا دوست تھا۔ ہاروے سیموئل فائرسٹون نے ایک کتاب        (     Man on the Move  ) بھی لکھی۔جس میں اس نے 1920 کی دہائی میں لائبیریا میں سفر اور فائر سٹون  کمپنی کے بارے میں لکھا ہے۔
20 ویں صدی کے دوران ، لائبیریا نے امریکہ کی دوسری جنگ عظیم کی کوششوں میں ایک کردار ادا کیا ، افریقی ربڑ نے لائبیریا کی بندرگاہوں سے امریکی فیکٹریوں کا سفر کیا۔

سرد جنگ کے گرم ہوتے ہی دارالحکومت منروویا کے ہوائی اڈے پر امریکی فوجی طیارے کو 24 گھنٹے ایک دن لینڈنگ کے حقوق فراہم کیے۔ لائبیریا سے ، امریکہ نے وائس آف امریکہ کے پروگراموں کا نام لیا اور براعظم کے ارد گرد اپنے سفارت خانوں تک ریڈیو مواصلات جاری کردیئے۔اس لئے  لائبیریا   کے لوگ امریکیوں کو  بڑا بھائی  کہتے ہیں۔امریکہ نے لائبیریا کو 1862 میں تسلیم کیا تھا۔

  لائبیریا  کا جھنڈا بھی امریکہ کے  جھنڈے کی  طرز پر بنا ہے ،وائس آف امیریکہ (  VOA ) مونروویا میں اقوام متحدہ مشن کے اہم دفاتر بھی تھے ۔ لائبیریا  کا انتظامی ڈھانچہ امریکہ کی طرح ہے۔ ۔امریکہ اور برما کی طرح  لائبیریا میں بھی کوئی پیمائش کا عالمی نظام( SI     (لاگو نہیں ہے۔ مونروویا صدر مقام ہے اور یہ پانچویں امریکی صدر جیمز مینرو  کے نام پر رکھا گیا۔

۔زبان انگریزی اور بڑا مذہب عیسائی ہےملحد بھی ہیں۔مسلمان بھی موجود ہیں۔کرنسی لائیبرین  ڈالر ہے۔ پٹرول پمپ کو امریکہ کی طرح گیس سٹیشن کہتے ہیں۔
لائبیریا  کے موجودہ صدر ا جارج ویا  1995 میں بیلن ڈی اور جیتنے والے پہلے غیر یورپی کھلاڑی رہ چکے ہیں۔ ان کے 18 سالہ فٹبال کریئر کا اختتام 2003 میں ہوا تھا۔اور اس کے بعد وہ سیاست میں داخل ہو گئے ۔

فٹبال کلب چیلسی، مانچیسٹر سٹی اور اے سی میلان کے سابق کھلاڑی رہے ہیں۔
پاکستان سے 18 گھنٹے کی ڈائریکٹ فلائیٹ ہے۔حضرت انسان جہاز میں بیٹھ کر بھی تھک جاتا ہے۔ جاتے ہوئے راستے میں سوڈان کے دارالحکومت  خرطوم میں 2 گھنٹے کا سٹاپ تھا۔ہم واپسی پر لیبیا کے شہر طرابلس میں رکےتھے۔ لائبیریا   کا وقت برطانیہ کے ساتھ ہے۔پاکستان میں فون کرتے وقت اس چیز کو بھی مد نظر رکھنا پڑتا تھا۔

خط استوا پر واقع ہونے کی وجہ سے موسم تقریباً سارا سال ایک جیسا  رہتا ہے۔ لائبیریا    کا شمار لیگ آف نیشن اور اقوام متحدہ کے بانی ممالک میں ہوتا ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ بحری جہاز لائبیریا   میں رجسٹرڈ ہوتے ہیں۔نرم قوانین کی وجہ سے سہولت کا جھنڈا (Flag of Convenience  )        لائبیریا  کے پاس استعمال ہوتا ہے۔یہاں بارش کے جنگلات بہت زیادہ ہیں۔

اور ہیلی کاپٹر میں سفر کرتے ہوئے ملک سبز قالین کی طرح دکھائی دیتا ہے۔
2010 اور 2011  کے دوران اقوام متحدہ کے مشن کے دوران ہمیں اس ملک کو  ایک سال تک دیکھنے کا موقع ملا۔انٹرنیشنل ماحول میں کام کرنے کا تجربہ بہت اہم رہا۔ عید ،دیوالی اور کرسمس کی تقریبات ہوتی تھیں۔
کندیجہ ہوٹل دارالحکومت   کے پاس ساحل سمندر پر ایک خوبصورت تفریح گاہ ہے۔

ایک دفعہ دوستوں کے ساتھ لبنانی ریسٹورینٹ سے ناشتہ کیا  تھا جو کہ  انتہائی لذیذ تھا۔سول جنگ کی تباہی کے آثار جگہ جگہ نظر آتے ہیں ، کیمپ کلارہ کے پاس  ایک عظیم الشان ہوٹل کے  کھنڈرات نظر آتے ہیں ، لکڑی کا فرنیچر بہت اچھا ہوتا ہے اس پر جانوروں کی تصویریں بھی بنی ہوتی ہیں۔ ویسٹرن یونین رقم بھیجنے کا قابل اعتماد ذریعہ تھا۔
دوستانہ میچ اور کھانے ہوتے تھے ۔

شام کی سیر عام معمول تھا اور والی بال کھیلتے  تھے ۔ہم نے امن فورس کے لئے  کنفلکٹ مینیجمنٹ کا کورس بھی  کیا۔ اور لاجسٹک آفیسر کی ڈیوٹی سر انجام دی۔چائینہ کے ڈاکٹروں کے ہسپتال میں بہت اعلی علاج ہوتا تھا۔مشن کے دوران لوٹس  ( lotus  )میل سسٹم استعمال کیا۔مضا فاتی علاقوں میں پٹرولنگ ہوتی تھی  اور میڈل پیریڈ اہم  سال کے آخر میں اہم  تقریب تھی۔

ہارپر میں کیترینا   نامی شپ میں خوراک کا سامان آتا تھا۔ اور تمام لوگوں کو اس کا شدت سے انتظار رہتا تھا۔ایک دفعہ ہم  نے ہارپر کی چھوٹی سی بندرگاہ پر لنچ کا اہتمام کیا اور خوب لطف اندوز ہوئے۔کساوا  اور کوکونٹ عام پائے جاتے ہیں۔موٹر سائیکل بطور ٹیکسی استعمال ہوتا ہے۔صاف پانی کا حصول اہم مسئلہ ہےاورتعلیم کا تناسب  60فیصد ہے۔مسلمان مشرق کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے ہیں کیوں کہ یہ  ملک سعودی عرب کے  تقریباًمغرب میں واقع ہے۔

شروع شروع ہمارے لوگوں سمت کے لحاظ سے مشکلات پیش آئیں۔ سر سبز ملک ، خانہ جنگی کا شکار رہاہے۔لکڑی کی خصوصی کشتیاں  
( Canoe  )  استعمال ہوتی ہیں۔چھوٹی پہاڑیا ں اور دلدلی علاقہ جات بھی موجود ہیں۔کیوالا دریا سب سے لمبا دریا ہے۔منگروز کے درخت عام پائے جاتے ہیں۔ہمارا ہیڈکوارٹر میری لینڈ کے شہر ہارپر میں تھا۔وہاں جیل کو کریکشن سیل کہا جاتا ہے۔

ہارپر میں ایک یونیورسٹی بھی موجود ہے۔لکڑی کے کھمبے موجود تھے۔چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں گھر زیادہ تر ہٹ کی شکل میں بنے ہوئے ہیں۔کیلے پکا کر بھی کھائے جاتے ہیں۔لائبیریا میں رسومات اور کلچر  ہمارے ملک سے کافی مختلف ہے۔ مونروویا  ٹمنبرگ،بانگا،بچنان،زویڈرو،بارکلے،پلیبو،ہارپر اور گرین ول اہم شہر  ہیں۔
بچے سارا دن سکول آتے جاتے رہتے ہیں۔

فٹبال شوق سے اور سارا دن کھیلا جاتا ہے۔ہیلی کاپٹر اور اقوام متحدہ کے چھوٹے جہاز اہم شہروں تک جاتے ہیں ۔بار شیں اکثر ہوتی ہیں۔رابرٹ انٹرنیشنل ائیر پورٹ سب سے بڑاہے۔قدرتی معدنیات میں  لوہا، ہیرے بلیک گولڈ  وغیرہ شامل ہیں۔ربڑ پلانٹ عام پایا جاتاہے۔فارم ہاؤس موجود ہیں ۔ساحل سمند ر کے کنارے خوبصور ت بیچ سیاحوں کی دلکشی کا سامان مہیا کرتے ہیں۔

انڈسٹری نہ ہونے کے برابر ہے۔بجلی زیادہ تر جنریٹر کے ذریعے حاصل کی جاتی ہے۔سنٹرل بجلی گھر موجود نہیں ہیں۔ہارپر سے مونروویا  تک چھوٹے سمندری شپ آتے ہیں۔ہارپر میں لائیٹ ہاؤس بھی موجود ہے۔فری میسن کے پرانے آفس بھی ہیں اور کئی ایک چرچ۔ ہارپر  جیسے چھوٹے شہر میں بیشمار بین الاقوامی اداروں کے دفاتر موجود ہیں ۔ اقوام متحدہ کا  لائبیریا کا مشن 2018 تک قائم رہا ۔اور قیام امن  میں گراں قدر خدمات سر انجام دیں جسے بین الاقوامی سطح پر سراہا گیا ہے۔ہم تقریباً ایک سال مکمل کرنے کے بعد واپس آگئے لیکن  لائبیریا  کے قیام کی یادیں ہمیشہ ساتھ رہیں گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :