نالائق وزیراعظم

ہفتہ 20 مارچ 2021

Arshad Sulahri

ارشد سلہری

بڑے پاپاجب پی ایم تھے تو انہوں نے خاندانی روایت کو تقویت دی اور پندرہ سو کروڑ جمع کررکھے تھے۔چھوٹے پاپا جب سی ایم بنے تو خاندانی بیلنس میں 2500 کروڑ کا اضافہ ہوا تھا۔ ایم پی ایز کو بھی سو سو کروڑ کے خصوصی فند دیئے گئے۔ پارٹی کے لوگ اور عوام بڑے پاپاکے دور حکومت سے بھی زیادہ خوش تھے۔چھوٹے پاپا نے پل ،سٹرکیں،اوور برج اور تعمیرات کا جال بچھا دیا تھا۔

بڑے بڑے میگا پراجیکٹ مکمل کیے تھے۔ 200 ارب کے پلاٹ تقیسم کیے گئے تھے۔ ہر طرف طوطی بولتا تھا۔اسمبلی میں ہر بل پاس ہوتا اور کابینہ ہر پالیسی منظور کرتی تھی۔پارٹی ورکروں اور عہدے داروں کی سرکاری اداروں میں سنی جاتی تھی۔پولیس اشاروں پر ناچتی تھی۔
اب کیا ہے ۔کابینہ کا کوئی ممبر خوش نہیں ہے۔

(جاری ہے)

ایم این ایز الگ ناراض ہیں۔ ایک پائی کا فنڈ ریلیز نہیں کیا جارہا ہے۔

اسمبلی میں کوئی بل منظور نہیں ہو رہا ہے۔پارٹی میں انتشار ہے۔مخالفین میں اضافہ ہورہا ہے۔اپوزیشن کا دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔احتجاجی مارچ کی کال دے دی گئی ہے۔مہنگائی دن بدن بڑھ رہی ہے۔عوام بھوک سے مرنے لگے ہیں۔مگر یہ نالائق وزیر اعظم ملک کی سمت درست کرنے اور کرپشن کا خاتمہ کرنے کے جنون میں مبتلا ہے۔
کھلاڑی ہے مگر سیاست سےاناڑی ہے۔

سلیکٹیڈ ہے۔چنتخب ہے۔یہودی ایجنٹ ہے۔سیاسی وژن سے کورا ہے۔اسے کیا معلوم سیاست کیا ہوتی ہے۔ برگر کھانے والے اور جینز پہنے والے سیاست کریں گے۔ اپنے ہی لوگوں پر نیب کے چھاپے پڑتے ہیں۔سرکاری زمین قبضہ مافیا سے واگزار کرائی جاررہی ہے۔یہ کیا کھیل کھیلا جارہا ہے۔باعزت اور معزز پارلیمنٹیرین کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔پگڑیاں اچھالی جارہی ہیں۔


 این آر او نہیں دوں گا۔سمجھوتا نہیں کروں گا۔ان باتوں سے ملک چلتے ہیں۔تین سال ہوگئے ہیں ۔اک منصوبہ مکمل نہیں ہوا ہے۔کرپشن کی ریکوری بھی کوئی خاص نہیں ہے۔صرف ڈھائی دوسو ارب ریکور کیے ہیں۔نیا کستان ،ریاست مدینہ سب ڈھکوسلے ہیں۔کہاں ہیںملازمتیں،گھر کہاں ہیں۔تین سال میں بس پانچ سو گھر تعمیر ہوئے ہیں ۔
نالائق وزیراعظم قابل قبول نہیں ہے۔

وزرات سے ہٹانا ہی سب کےلئے بہتر ہے۔حد ہوتی ہے۔جولوگ ہمارے دروازوں کے سامنے سے گزرنےکی ہمت نہیں رکھتے تھے۔اس نے انہیں اسمبلیوں میں لا بیٹھایا ہے۔ کئی تووفاقی وزیر بن گئے ہیں۔ٹکے ٹکے کے لوگ ٹی وی ٹاک شوز میں برابر بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔ یہ کسی تبدیلی ہے۔ ہر چیز کا بیڑا  غرق کردیا ہے۔اپوزیشن متحد ہے۔لانگ مارچ پر سب کا اتفاق ہے۔فاشسٹ حکومت کو گھر بھیج کر دم لیں گے۔


ایوان بالا کے انتخابات ہی دیکھ لیں ۔کہتا ہے ووٹوں کی خرید و فروخت ہوتی ہےمگر خود جان کے لالے پڑے ہوئے تھے۔پارٹی میںکھلبلی مچی تھی ۔ ایم این ایز اورایم پی ایز  سنبھالے نہیں جارہے تھے۔ آخر کار بڑے پاپا کو ہی آگے بڑھ کر معاملات سنبھالنے پڑے تھے۔ نظام کے ساتھ چلنا پڑتا ہے۔ ایسے نہیں ہوتا ہے۔سیاست سیکھنا پڑتی ہے۔کرکٹ کھیلنے اور سیاست کرنے اورملک چلانے میں بہت فرق ہے۔


 نظام خاک بدلنا یا درست کرنا ہے۔نظام سے جڑے لوگ جب ساتھ نہیں دیں گے تب تک نظام بدل سکتا ہے اور نہ ملکی سمت درست ہو سکتی ہے۔اس سے کرپشن ختم نہیں ہوسکتی ہے۔عقل سے کام لینا ہوگا۔مقدمات ختم کریں۔ٹرائیل بند کیا جائے۔نیب کا ادارہ ختم کردیا جائےبصورت دیگر استعفا دیں اور گھر جائیں۔ہم ملک و قوم پر نالائق وزیراعظم مزید برداشت نہیں کرسکتے ہیں۔عوام کی حالت دیکھ کر اب تو رونا آتا ہے۔ہم عوام کے ساتھ  اور ظلم برداشت نہیں کریں گے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :