اپوزیشن کیا چاہتی ہے؟

منگل 14 جولائی 2020

Aslam Awan

اسلم اعوان

کورونا لاک ڈاون کے آشوب سے نکلنے کے بعد قومی سیاست کے تالاب میں ایک بار پھر اضطراب کی لہریں اٹھنے لگی ہیں اور اس ناقابل پیشگوئی ماحول میں بھی مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ اپوزیشن کی دوبڑی جماعتوں کی لیڈر شپ کے ساتھ مولانا فضل الرحمٰن کی ملاقاتوں کو اہمیت دیکر ایوان اقتدار میں بڑی تبدیلیوں کی پیشگویاں کرنے میں سرگرداں دیکھائی دیتے ہیں۔

اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہاں جمہوری نظام کو ہمہ وقت غیر معمولی تغیرات کے لئے تیار رکھا جاتا ہے لیکن فی الحال کسی وسیع تبدیلی کے امکانات بعیداز قیاس ہیں،البتہ ہامرے پالیسی سازوں کو فی الوقت سیاسی ماحول پہ چھائے جمود کو تحلیل کرنے اور سیاست کے کھیل میں کسی بنیادی ردّ و بدّل کی راہ ہموار بنانے کی خاطر ایک خاص قسم کی سیاسی ہلچل ضرور درکار ہو گی تاکہ اسی جدلیات کی دھند میں قومی سیاست کے وجود سے لپٹے مذہبی،لسانی اور علاقائی تعصبات کے علائم کو جدا کیا جا سکے۔

(جاری ہے)

لاریب ہماری مقتدرہ کی یہی تو اصل خوبی ہے کہ وہ درجنوں برسرپیکار گروہوں کو ایک ساتھ زندگی گزارنے کا فن سیکھا دیتی ہے،بالغ النظر سیاستدان کی حیثیت سے مولانا فضل الرحمٰن بھی اس حقیقت سے بے خبر نہیں ہوں گے کہ کورونا لاک ڈاون،نئیکشمیر پالیسی ،مالیاتی سال دوہزار بیس اکیس کے بجٹ کی منظوری اور اسلام آباد میں مندر تعمیر کرانے کی ڈپلومیسی سمیت قومی سیاست کے فرسودہ نظام میں چند بنیادی تبدیلیوں لانے کی خاطر پی ٹی آئی،مسلم لیگ اور پی پی پی کے مابین کامل اتفاق رائے پایا جاتاہے۔

صحتمند سیاسی مقابلہ کے فطری رجحان اورتمام تر روایتی سیاسی اختلافات کے باوجود سیاست کا یہی تال میل ان تینوں سیاسی جماعتوں کی بقاء میں اہم کردار ادا کرتا ہے کیونکہ ہر سیاسی جماعتیں اپنی حتمی سوچ میں آخرکار عوامی آرزوں کی تسکین کی بجائے ریاست کے وسیع تر مقاصد کا آلہ کار بننے کو ترجیح دیتی ہے۔معمول کے سیاسی وظائف کی تکمیل کے لئے مسلم لیگ نواز کے صدر میاں شہباز شریف نے بھی بلاول بھٹو سے رابطہ کر کے کل جماعتی کانفرنس کے انعقاد بارے مشورہ ضرورکیا لیکن قرائین بتاتے ہیں کہ دونوں بڑی اپوزیشن جماعتیں فی الحال پی ٹی آئی حکومت کو گرانے پہ متفق نہیں ہو سکیں گی۔

پنجاب میں جڑیں رکھنے والی نواز لیگ اپنے پالیسی امور میں گہری تفریق اور داخلی تضادات کی وجہ سے قدرے مضمحل ہوکے کچھ پیچھے ہٹنے پہ مجبور ہو گئی،سپریم لیڈر نوازشریف اور اسکی جانشین مریم نواز کی طاقتور مقتدرہ کے ساتھ ٹکرانے کی پالیسی پارٹی ہیرارکی کے اندر زیادہ حمایت حاصل نہ کر سکی اسلئے تھک ہار کے نوازشریف کو رضاکارانہ جلا وطنی اور مریم نوازکو زبان بندی قبول کرنا پڑی،ہرچند کہ پارٹی کے اندر شہبازشریف کی مفہمانہ سوچ کو مناسب پذیرائی ملی لیکن ان کی سیاسی حکمت عملی بھی برگ و بار لانے میں کامیاب نہ ہو سکی۔

ساری نیازمندیوں کے باوجود پارٹی کی فعال قیادت پہ مقدمات کا دباو کم ہوا نہ قومی سیاست میں مسلم لیگ کو توانا رول ادا کرنے کی گنجائش مل سکی،گویا نوازلیگ مجموعی قوت کو مرکزی نقطہ پہ مجتمع کر کے اپنی سیاسی نشو ونما ممکن نہیں بنا سکی،اس لئے اب وہ بے یقینی اور تذبذب کی تاریکیوں میں ہچکولے کھاتی نظر آتی ہے،افسوس کہ ملک کی سب سے زیادہ مقبول جماعت اپنی ہی حکمت عملی کے خم و پیچ میں الجھ کے اقتدار تک رسائی پا سکی نہ موثر اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کے قابل ہوئی۔

دوسری طرف دوہزار اٹھارہ کے بندوبست کی مین بینفشری ہونے کے ناطے پیپلزپارٹی روز اول ہی سے ایوان اقتدار اور اپوزیشن بینچوں کے مابین جھولتی نظر آتی ہے،بلاشبہ پی پی پی نے سندھ جیسے بڑے صوبہ میں اقتدار سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ قومی اسمبلی کے پلیٹ فارم پہ بلاول کی پرموشن کے گدازعمل کو نہایت باریک بینی سے پروان چڑھایا،انہوں نے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ نہایت مہارت کے ساتھ معاملات طے کر کے ایک موثر جدلیاتی عمل کے ذریعے وفاقی حکومت کو سہارا دینے کے علاوہ اپوزیشن کو بھی انگیج رکھنے میں کامیابی پائی،مقبولیت میں بتدریج کمی کے باوجود اسی سودا بازی کی صلاحیت کے باعث پیپلزپارٹی نے سینٹ اور قومی اسمبلی میں قابل لحاظ اکثریت اور سندھ کی صوبائی اسمبلی میں دوتہائی نمائندگی حاصل کر کے اپنی سیاسی پوزیشن کو مستحکم بنا لیا۔

آصف علی زرداری اس حقیقت کو جان چکے ہیں کہ ریاستوں کا عالمی نظام اب اس قدر مربوط اور طاقتور ہو چکا ہے کہ انہیں کسی عوامی تحریک کے ذریعے جھکانہ یا کسی انقلابی جدوجہد کے ذریعے اقتدار سے الگ کرنا ممکن نہیں رہا،اس لئے کانفلکٹ منیجمنٹ کے ذریعے پیشقدمی کر کے ہی اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنا جا سکتا ہے اور شاید اسی لئے انہوں نے روایتی طور طریقے ترک کے اقتدار تک پہنچنے کا یہی محفوظ راستہ اختیار کیا تاہم اس مقصد کے حصول کے لئے انہیں اپنے نظریات اور اصولوں سے دستبردار ہوکے خالصتاً پیشہ وارانہ طرز عمل اپنانے کی ضرورت پڑی،بلاشبہ کسی زمانہ میں خوبصورت نصب العین ہی سیاسی طاقت کے حصول کا بنیادی وسیلہ تھے لیکن وقت کے ساتھ جب عام لوگوں پہ یہ راز کھل گیا کہ سیاست اور کاروبار میں نصب العین ہمیشہ چھپی ہوئی آرزوں کا معقول لباس ہوتا ہے تو اس جدلیات کی کشش از خود کم ہوتی گئی۔

بہرحال،اٹھارویں ترمیم سمیت کچھ معاملات میں گہرے اختلافات کے باوجود اس وقت بھی پیپلزپارٹی موجودہ سسٹم کو چلانے میں بھرپور تعاون کر رہی ہے اوربظاہر یہی نظر آتا ہے کہ وہ ہر صورت عمران خان کو پانچ سال پورا کرانے کی سیاسی حکمت عملی کو جلد تبدیل نہیں کرے گی،مقتدرہ بھی عذیر بلوچ کیس میں جے آئی ٹی کی رپوٹ کے مندرجات کو افشاں کر کے پیپلزپارٹی پہ دباو تو برھائے گی لیکن اس حد تک نہیں جائے گی کہ پیپلزپارٹی جیسی عوام میں جڑیں رکھنے والی جماعت اس کے ہاتھ سے نکل جائے،اس لئے حالیہ کشمکش سے زیادہ امیدیں وابستہ کرنا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔

اس گھٹن زدہ سیاسی ماحول میں کچھ ایسے اشارے بھی ملتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن جیسے زیرک سیاستدان ماضی کی غلطیوں کی تلافی کے لئے اپنی سوچ اور طرز عمل پہ نظرثانی کرنے پہ مجبور ہو گئے ہیں۔لاریب،طاقتور مقتدرہ نے انہیں اس وقت ٹریپ کر کے اپنی پوری قوت ایک بے مقصد مہم میں جھونکنے پہ آمادہ کر لیا تھا جب وہ انتخابی شکست اور بدعہدیوں کے زخم کھانے کے بعد شدید صدمہ کی حالت میں تھے،مولانا نے غلط وقت پہ دھرنا کا فیصلہ کرکے اپنی عمر بھر کی سیاسی متاع کو داو پہ لگانے کے علاوہ اپوزیشن کی اجتماعی قوت کو ناقابل تلافی ضعف پہنچایا،جس کا تدارک اب ممکن نہیں ہو گا۔

انہیں زرداری سمیت میاں شہبازشریف نے اس وقت بھی مشورہ دیا تھا کہ وہ پی ٹی آئی حکومت کو کچھ وقت دیں لیکن انہیں اس دلدل میں کھنچنے والوں کے اشارے ،ان مخلصانہ مشورں،سے زیادہ پرکشش ثابت ہوئے، اس لئے مولانا نے اپنے جذباتی نصب العین کی تکمیل کی خاطر اپنی پوری سیاسی قوت کو بے مقصد مہم جوئی میں جھونکنے سے گریز نہ کیا،مولانا اگر جلدی نہ کرتے تو اب عمرانی حکومت کے خلاف سیاسی جدوجہد کا بہترین وقت تھا لیکن افسوس کہ اِس وقت مولانا فضل الرحمٰن کے پاس میدان میں نکلنے کی قوت باقی بچی نہ اپوزیشن اس قابل رہی کہ وہ کوئی موثر مزاحمتی تحریک برپا کر سکے۔

چنانچہ مولانا فضل الرحمٰن اب پولیٹکل ڈپلومیسی کے سہارے اپنی بارگینگ پوزیشن بہتر بنانے کے علاوہ طاقت کے مراکز کے ساتھ اپنے معاملات درست کرنے کی تگ و دو میں مصروف نظر آتے ہیں لیکن اب شاید انہیں حصول مقصد میں پوری کامیابی نہ مل سکے۔بظاہر یہی لگتا ہے کہ اگر کوئی معجزہ رونما نہ ہوا تو تمام اپوزیشن جماعتیں سائیوں کی طرح ابھرتے مٹتے امکانات کے سہارے باقی تین سال بھی گزار لیں گے اور پی ٹی آئی حکومت بھی اسی طرح گرتے پڑتے اپنے اقتدار کا دورانیہ پورا کر لے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :