آفات سماوی ا اور انسانی تدابیر

اتوار 6 ستمبر 2020

Aslam Awan

اسلم اعوان

مرکزی دھارے کے میڈیا کی توجہ اگرچہ کراچی میں بارشوں سے ہونے والے نقصانات پہ مرتکز رہی لیکن حالیہ بارشوں کی غیر معمولی لہر نے صوبہ خیبرپختون خوا میں انفرادی اور اجتماعی نظام زندگی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے،چترال سے لیکر ڈیرہ اسماعیل خان تک پھیلے چھبیس اضلاع میں کئی مقامات پہ چھتیں منہدم ہونے،پہاڑی تودے گرنے اور ندی نالوں میں طغیانی کے باعث پچاس سے زیادہ شہری لقمہ اجل بنے، سب سے زیادہ اموات وزیراعلی محمود خان کے شہر سوات میں ہوئیں،جہاں 17 شہری زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

بعض علاقوں میں سیلابی ریلے مال مویشی بہا لے جانے کے علاوہ سڑکوں،پلوں اور کھڑی فصلوں کو تباہ کرنے کا سبب بھی بنے۔بدقسمتی سے ہمارا انتظامی ڈھانچہ اس قسم کے آفات سماوی کی لہروں کو ریسپانس دینے کی تیاری کرتا ہے نہ اس میں ہنگامی ریلف ریگولیٹ کرنے کی استعداد موجود ہے۔

(جاری ہے)

بادی النظری میں اس وقت پوری انتظامی مشینری بے بس اور سیاسی قیادت کنفیوژ نظر آتی ہے کیونکہ مشکلات کے پنجوں میں تڑپتے شہریوں کی مدد کرنے والا کوئی سسٹم کارآمد نہیں رہا۔

سرکاری افسران سوشل میڈیا کی وساطت سے اپنی علامتی موجودگی کا احساس دلانے کی بیکار کوششوں میں تو سرگرداں ہیں لیکن عملاً برسرزمین کسی موثر ریسکیو سرگرمی کا اظہار کرنے سے معذور ہیں۔لاریب،پچھلے کئی سالوں سے دہشتگردی کی مہیب لہروں نے سرکاری نطام پہ جس قسم کے منفی اثرات مرتب کئے اس میں سول سرکاری اداروں پہ گہرے جمود مسلط کرنے کے علاوہ سرکاری اہلکاروں کی صلاحیتوں کو زنگ آلود بنانا زیادہ مہلک ثابت ہوا،اس وقت صوبہ خیبر پختون خوا کو وسائل کی قلت کے ساتھ ہر شعبہ زندگی میں اہل اور ماہر کارکنوں کی شدید کمی کا سامنا ہے،جس کی وجہ سے سروسیز فراہم کرنے والے سرکاری ڈیپارٹمنٹ مناسب ڈلیور دینے میں ناکام نظر آتے ہیں۔

ستم ظریفی کی انتہا دیکھئے کہ پورے صوبہ کی ٹی ایم ایز کے پاس جدید مشینری ہے نہ درکار مالی وسائل،مستزاد یہ کہ امسال سیکریٹری بلدیاتی نے ایک انتظامی حکم نامہ کے ذریعے صوبہ بھر کی ٹی ایم ایز کو پراپرٹی ٹیکس وصول کرنے سے روک کر مالیاتی بحران کی طرف لڑھکا دیا حالانکہ محصول چونگی خاتمہ کے بعد یہی پراپرٹی ٹیکس ہی صوبہ بھر کی ٹی ایم ایز کی آمدن کا بنیادی وسیلہ تھا۔

افسوس کہ چند پراپرٹی ٹیکون کو فائدہ پہنچانے کی خاطر حکمراں اشرافیہ نے من مانے فیصلوں کے ذریعے شہری سہولیات فراہم کرنے والے ادارے کی کمر توڑ ڈالی۔علی ہذالقیاس! موجودہ صورت حال میں سرکاری اداروں کی بے بسی اور حکمراں اشرافیہ کی بے حسی تو بہرحال محل نظر تھی لیکن اپوزیشن جماعتوں کی بے رحم خاموشی نے بھی مصائب میں گھیرے لوگوں کی تلخیوں کو بڑھا دیا۔

صوبائی اسمبلی میں موجود حزب مخالف کی جماعتیں مصلحت کی بکل مارے خاموش بیٹھی ہیں اور مشکل اس گھڑی میں کوئی پارٹی مصیبت زدہ شہریوں کے لئے ہمدردی کے دو بول بولنے کو تیار نہیں۔گویا اس صوبہ کی پوری انتظامی اتھارٹی اور اسے متوازن رکھنے والی اپوزیشن کی سوچ گہرے جمود کی لپیٹ میں ہے،پہلی بار یہاں کے باسیوں کو اس قدر مفلوج اوربیکار نظام سیاست دیکھنے کو ملا جو انسانی ہمدردی کے جذبہ سے عاری اور یہاں کی سماجی روایات سے ناواقف ہے۔

قبل ازیں یہاں کی تمام صوبائی حکومتیں وسائل کی کمی کے باوجود نہایت فعال اور متحرک کردار ادا کرتی رہیں۔سنہ دو ہزار دس کے سیلاب میں اے این پی اور پیپلزپارٹی کی مخلوط حکومت کے دوران اگرچہ این جی اوز کے وسیع نیٹ ورک نے صوبائی حکومت کی معاونت سے ریلف سرگرمیوں کو موثر انداز میں ریگولیٹ کرکے مصائب میں الجھے شہریوں کی دستگیری کی تھی تاہم پرویز خٹک کی قیادت میں قائم پی ٹی آئی کی سابقہ رجیم بھی نہایت مضبوط گورنمنٹ واقع ہوئی تھی جس نے سرکاری سسٹم کو بہتر بنانے کے علاوہ شہریوں کو مدد و رہنمائی کا فریضہ بخوبی سرانجام دیا لیکن موجودہ صوبائی حکومت کی بے عملی اور اپوزیشن کی سنگ دلانہ لاتعلقی نے ریاستی وجود اور سماجی رشتوں کو بے معنی بنا ڈالا۔

حیران کن امر یہ ہے کہ ہمارے وہ انتظامی افسران،جو اپنے اختیارات اور مرعات کے حصول میں ہمہ وقت سرگرداں رہتے ہیں، انہیں اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کی ذرہ برابر پرواہ نہیں ہوتی،وہ اپنے وسیع علم اور لامحدود اختیارات کے باوجود انتظامی مقاصد،سماجی روایات اور سرکاری منصوبوں کے ساتھ پختہ کمٹمنٹ نہیں رکھتے۔اس لئے وہ ناگہانی آفات اور غیر معمولی حالات سے نمٹنے کی تیاری کرنے کی بجائے سال بھر اپنی صلاحیتوں اور وسائل کو بے مقصد کاموں میں کھپا دیتے ہیں۔

اعمال حکومت کی یہی ذہنی فرسودگی ہماری سماجی مدافعت کو کند بنا دیتی ہے کیونکہ ترقی کوئی سیاسی چیز نہیں ہوتی بلکہ یہ ادراصل ماحول پہ زندگی کے بڑھتے ہوئے تصرف کا نام ہے۔ہماری ڈیزاسٹر منیجمنٹ کے پاس مشکلات سے نبرد آزما ہونے کی کوئی منصوبہ بندی ہے نہ وہ آئینہ ایام میں مستقبل کے حوادث کو دیکھ کے ایسے پیشگی انتظامات کر سکتے ہیں جن سے قدرتی آفات سے پیدا ہونے خطرات کو کم کیا جا سکے۔

جدید ریاستیں آفات کی تین اقسام میں درجہ بندی کرتی ہیں، قدرتی، انسان ساختہ؛ اور ہائبرڈ آفات۔ قدرتی آفات وہ تباہ کن واقعات ہوتے ہیں جو آتش فشاں پھٹنے ،طوفان،سیلاب اور زلزلے وغیرہ جیسی فطری عوامل کا نتیجہ ہوتی ہیں جن پر انسان کا براہ راست کوئی کنٹرول نہیں ہوتا۔البتہ ریاستی اتھارٹی مشکلات سے قبل مناسب پیش بندی اور آفات کے دوران سماجی کارکنان کی حوصلہ افزائی کے ذریعے اخلاقی اصولوں کے مطابق انسانی ہمدردی کے جذبہ سے معلومات کے تبادلہ اور مشترکہ رضاکارانہ کاروائیوں کو منظم کر کے نقصانات کو کم کر سکتی ہے مگر افسوس کہ ایسی سرگرمیاں ہماری انتظامی روایات کا حصہ نہیں بن سکیں۔

یہاں خبر پختون خوا میں سیلابی ریلوں کی آمد سے قبل انتظامیہ دریائے سندھ سے ملحقہ نشیب کی آبادیوں کا لازمی انخلا یقینی بنا کے نقصانات کو گھٹانے کی کوشش نہیں کرتی،جب بلائیں سر پہ آن پہنچتی ہیں تب ہنگامی بنیادوں پہ انتقال آبادی کے عمل میں خواتین بچوں اور افراد کے وقار کا احترام اور شرف آدمیت بھی سیلاب میں بہہ جاتا ہے،ایسے میں انتہائی کمزور افراد کے لئے ہنگامی امداد کی افادیت بھی صفر ہو جاتی ہے۔

اگر آبپاشی ڈیپارٹمنٹ اور متعلقہ ادارے بڑے فلڈ چینلز اور ڈرینز کی ریگولر صفائی کرتے تو سیلابی ریلے کھڑی فصلات اور آبادیوں کا رخ نہ کرتے لیکن عرصہ ہوا خود رو جھاڑیوں اور سلٹ کی بدولت یہاں کے تمام بڑے فلڈ چینلز بند پڑے تھے جس کی وجہ سے ہمارا نقصان دو چند ہو گیا۔عام طور پہ ایسی صورت حال میں زیادہ تر اموات ادویات،پینے کے پانی اور خواراک کی کمی کی وجہ سے ہوتی ہیں، ہماری انتظامیہ کے پاس ڈیزاسٹر لائف سائیکل کا وہ نظام موجود نہیں جس کے تحت وہ متاثرین کے لئے خوراک کا ذخیرہ مہیا کرنے کے علاوہ پانی اور ادویات کی ہموار سپلائی کا کوئی مربوط میکنزم فراہم کر سکے،حتی کہ بارشوں اور سیلاب کے دنوں میں مچھروں کی بہتات اورتعفن سے پھلینے والی ملیریا اور ہضہ کی وباء کو روکنے کے انتظامات تک نہیں کئے جاتے،ضلعی اتھارٹی تباہی کے متاثرین کو فوری اور مناسب مدد کی فراہمی یقینی بنانے اور تیز اور موثر بحالی کے حصول کی کوئی تیاریاں نہیں کرتی۔

بلکہ ستم ظریفی کی انتہا یہ کہ ہنگامی حالات میں جنگی بنیادوں پہ جاری کی جانے والی امداد کا بڑا حصہ بھی بددیانتی کی نظر ہو جاتا ہے۔ ڈیزاسٹر لائف سائیکل ان اقدامات پر مشتمل ہوتا ہے جو ڈسٹرک مینیجمنٹ آفات سے نمٹنے کے لئے منصوبہ بندی اور مشکلات کی لہروں کے سامنے ردعمل دینے کے طور پہ اٹھاتی ہے اور مشکلات کے چکر کے ہر مرحلہ کو اپنی تیاریوں سے منسلک رکھنے کی ذمہ داری ڈپٹی کمشنر کی ہوتی ہے لیکن اسے منصوبہ بندی کرنے،تمام متعلقہ اداروں سے کوارڈینشن رکھنے اور موقعہ پہ وسائل کی فراہمی کا فرض یاد نہیں ہوتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :