استحصال

بدھ 26 فروری 2020

Atiq Chaudhry

عتیق چوہدری

پاکستان کے اندر شدید ترین قومی جبر واستحصال موجودہے ۔معاشی استحصال ،سماجی استحصال ،جنسی استحصال ،نسلی استحصال ،خواتین کا استحصال ،تعلیمی استحصال ،کم عمر بچوں کا استحصال ، مذہبی، لسانی،گروہی،ورکرز کااستحصال اور سب سے بڑھ کر طبقاتی استحصال عام ہے۔ استحصال کی ان تمام قسموں میں ایک چیز مشترک ہے وہ یہ کہ اس عمل میں ایک انسان کا حق مارا جاتا ہے اور دوسرا شخص ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے۔

آخر یہ استحصال ہوتاکیا ہے ؟ کیوں ہوتاہے ؟خاتمہ کیسے ہوسکتا ہے؟انسان استحصال کے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھاتا؟کیا وجہ ہے کہ کوئی ایک نوالے کوترستا ہے اور کسی کے کتے بھی بادشاہوں سی زندگی بسر کرتے ہیں 
حاکم شہر کی اس بند گلی کے پیچھے 
آج اک شخص کوہے خون اگلتے دیکھا
تم تو کہتے تھے کہ ہوتے ہیں درندے ظالم 
میں نے انسان کوانسان نگلتے دیکھا 
اسی طبقاتی تقسیم کی عکاسی شاعر نے یوں کی ہے 
عجب رسم چلی ہے چارہ گروں کی بستی میں 
لگاکے زخم نمک سے مساج کرتے ہیں 
غریب شہر ترستا ہے اک نوالے کو
امیر شہر کے کتے بھی راج کرتے ہیں 
آئین پاکستان کے مطابق استحصال کی تمام تر شکلوں کا خاتمہ کرتے ہوئے ہر شہری کے لئے بنیادی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانا ریاست کی ذمہ داری ہے ؟ کیاریاست یہ ذمہ داری پوری کررہی ہے ؟ کیا اقدامات کئے گے ہیں ؟ 1973 کے آئین کے آرٹیکل 3 کے مطابق 
The state shall ensure the elimination of all forms of exploitations
اسی آرٹیکل کے روسے پاکستان میں کسی بسنے والے شہری کا استحصال نہیں کیا جائے گا سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں آئین کی اس شق پر عمل ہورہا ہے ؟ اگر آئین پر عمل نہیں ہورہا تو ریاست کیسے چل رہی ہے ؟ استحصال کے خاتمے کی کوئی سبیل ممکن ہے ؟اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 10 دسمبر1948 کو انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ ”یونیورسل ڈیکلئریشن آف ہیومن رائٹس “منظور کیا جس کا احترم ونفاذ پاکستان سمیت تمام رکن ممالک کے لئے لازم ہے ۔

(جاری ہے)

اس عہدنامے پر عمل درآمد کے لئے 1966 میں دو عالمی میثاق منظور کئیے گے، معاشی، معاشرتی اور ثقافتی حقو ق کا میثاق ،شہری وسیاسی حقو ق کامیثاق ،بعدازاں عورتوں کے خلاف ہر قسم کے امتیاز کے خاتمے کامعاہدہ ،بچوں کے حقوق ،جبری مشقت ،تشدد کا کنونشن ،غلامی ،محکومی ،تشددسے مشابہ اداروں اور روایات کاخاتمہ ،ایذارسانی کے خلاف بین الاقوامی کنونشن، انسانی سلامتی ،ماحولیاتی تحفظ، نسل پرستی اور ہر طرح کی انسانی ،سماجی ،معاشی اور صنفی عدم مساوات کیخلاف اعلامیے پر ہم نے دستخظ تو کئے ہیں مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے عملی اقدامات کیا کئے ہیں ؟دنیامیں غربت وامارت اگرچہ ہزاروں سال پرانی ہے اور عوام کا معاشی استحصال کسی نہ کسی شکل میں ہوتا رہاہے مگر ہم تو آج تک جاگیرادرانہ نظام ختم نہیں کرسکے ۔

عملی طور پر ہم 2/98 میں تقسیم ہوکر رہ گئے ہیں۔ دو فیصد استحصالی طبقات کے ہاتھوں میں قومی دولت کا 80 فیصد حصہ ہے جبکہ محض 20 فیصد دولت میں عوام کوزندگی گزارنا پڑتی ہے جس کا نتیجہ غربت کی شکل میں نکلتا ہے 
گندم امیر شہر کی ہوتی رہی خراب 
بیٹی کسی غریب کی فاقہ سے مرگئی 
غربت سے تنگ لوگ ساری عمر اپنی سفید پوشی کا بھرم وعزت نفس برقرار رکھنے کی تگ ودو میں گزرجاتی ہے بقول محسن نقوی :
وہ اکثر دن میں بچوں کوسلادیتی ہے 
گلی میں پھر کھلونے بیچنے والا نہ آجائے 
ہمارے معاشرے میں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جارہا ہے جس کی وجہ سے غربت کے ہاتھوں لوگ خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں گذشتہ دنوں دل دہلادینے والی خبر پڑھی تھی کہ کراچی میں باپ بچوں کوگرم کپڑے نہ لے کے دے سکنے کی وجہ سے خودکشی پر مجبور ہوا اور اس نے وزیراعظم پاکستان کو آخری خط بھی لکھا جس میں اس کا ذکر کیا ۔

عارف شفیق نے اس کی عکاسی یوں کی ہے:
غریب شہر توفاقوں سے مرگیا عارف 
امیر شہر نے ہیرے سے خودکشی کرلی 
افلاطون نے کسی ترنگ میں کہاتھا کہ” ہر شہر میں دوشہر ہوتے ہیں ،ایک امیروں کاایک غریبوں کا ،دونوں کے اخلاق و عادات ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں “مگر وطن عزیز میں تو کئی شہر آباد ہیں امیروں کاشہر ،غریبوں کاشہر ،متوسط طبقے کاشہر ،امیر متوسط طبقے کاشہر ،غریب متوسط طبقے کاشہراور بہت غریب لوگوں کا شہر ۔

ایک طرف تو مٹھی بھر افراد کا وسائل پر قبضہ ہے ودوسری طرف بنیادی انسانی ضروریات پورا کرنے کے لئے پائی پائی کوترستے ہوئے مجبور ومحکوم لوگ ہیں
بھوک پھرتی ہے میرے ملک میں ننگے پاؤں 
رزق ظالم کی تجوری میں چھپابیٹھاہے 
ورلڈ بنک کی ایک رپورٹ بعنوان پاکستان میں پانی کی فراہمی ،صحت وصفائی اور غربت کے مطابق پاکستان میں ہر گزرتے دن کے ساتھ امیر اور غریب کے درمیان طبقاتی فرق میں اضافہ ہوتا جارہاہے ،80 فیصد سے زائد دیہی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے جہاں بنیادی سہولیات کافقدان ہے ۔

آئین پاکستان کا آرٹیکل 38 لوگوں کا معیار زندگی بہتر بنانے کی ضمانت دیتا ہے 
The state shall secure the well being of the people لوگوں کی زندگی ومعاشی حالات کوبہتر بناناریاست کی ذمہ داری ہے تاکہ طاقتور لوگ عوام کا استحصال نہ کرسکیں ۔آرٹیکل38 (اے )کہتا ہے کہ زمیندار وکسانوں کے درمیان توازن قائم کیاجائے ،سرمایہ دار اور مزدور کی آمدن کے درمیان توازن قائم کیاجائے ،اسی آرٹیکل کی کلاز( ای) کہتی ہے کہ To reduce disparity in the income and earnings of individuals
لوگوں کی آمدنی ،ذرائع اور وسائل میں غیر معمولی فرق کوختم کیاجائے ۔

ستم ضریفی یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ استحصال بڑھتا جارہاہے۔ساحر لدھیانوی نے غریبوں کی بے بسی کو الفاظ کاروپ دیتے ہوئے لکھاتھا:
ملیں اسی لیے ریشم کے ڈھیر بنتی ہیں
کہ دخترانِ وطن تار تار کو ترسیں
چمن کو اس لیے مالی نے خوں سے سینچا تھا
کہ اس کی اپنی نگاہیں بہار کو ترسیں
کارل مارکس نے اس معاملے کا سائنسی انداز میں معاشی تجزیہ کیا اور have اورhavenots کا تصور دیا اور اس کی جڑ سرمایہ دارانہ نظام کوقرار دیا ۔

سرمائے کی بنیادپر قائم اس طبقاتی نطام میں دولت کی بنیاد پر طبقاتی تفریق سیاسی ،ثقافتی اور حتی کہ علمی تفریق کوبھی جنم دیتی ہے۔اعلی اقدار ،جدید رہائش،بہترین علاج اور بہترین تعلیم طبقہ اشرافیہ کے لئے اور غریبوں کے لئے الگ نظام تعلیم ۔دوہرے ،تہرے نظام تعلیم کے باعث طبقاتی تقسیم بڑھ گئی ہے اور پاکستان کے اندر دو پاکستان قائم ہوچکے ہیں ۔

ایک پاکستان میں انگلش میڈیم سکول حاکم اور بقیہ بنیادی سہولتوں سے محروم تعلیمی ادارے ناخواندہ اور محکوم پیدا کررہے ہیں ۔بنظرغائر اگر ہم جائزہ لیں توہمیں چار طرح کے ایجوکیشن سسٹم نظر آتے ہیں گورنمنٹ ایجوکیشن سسٹم ،پرائیویٹ ایجوکیشن سسٹم ،مدارس ،ایلیٹ تعلیمی نظام ۔آئی ٹی کے انقلاب کے اس صدی میں پاکستان کوطبقاتی نظام تعلیم کی وجہ سے غار میں دھکیلاجارہا ہے ۔

اگر کوئی غریب طالبعلم ڈگری حاصل کربھی لیتا ہے تواسے روزگار کے لئے نئے گھن چکر سے گزرناپڑتا ہے ۔تعلیمی اداروں کی بھاری فیسیں اداکرنے کے بعد ایک عام طالبعلم روزگار کے حصول کی دوڑ میں ایک دولتمند سے آگے نہیں بڑھ سکتا ۔ان امرا کے لئے ڈگریاں ،رشوت اور سفارش کے ذریعے اچھا روزگار حاصل کرنابہت آسان ہوتا ہے جبکہ غریب نوجوان روزگار کی تلاش میں مایوس ہوکر خود کشیاں کرنے پر مجبور ہے ۔

تم سن کے کیا کروگے کہانی غریب کی 
جوسب کی سن رہا ہے ،کہیں گے اسی سے ہم 
مگر ہمارے طبقہ اشرافیہ کوغریبوں کی آہوں و سسکیوں کی آواز سنائی نہیں دیتی 
ہر شخص اسی کی دہائی دیتا ہے 
بڑا عجیب سامنظر دکھائی دیتاہے 
محل کے سامنے اک شور ہے قیامت کا
امیر شہر کواونچاسنائی دیتا ہے 
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اس کرہ ارض میں روزانہ صرف بھوک سے 75 ہزار لوگ جان سے جاتے ہیں ۔

تاریخ کی کتابوں میں تلخ حقیقت درج ہے کہ اہرام مصر بنانے والے غلام مزدوروں کو روٹی کے ساتھ پیاز تک نہیں ملتی تھی ،دیوار چین بنانے والے چینی بادشاہ نے ہزاروں غلاموں کوقتل کرکے دیوار کی بھینٹ چڑھادیا ۔تاج محل کی تعمیر کے دوران ہندوستان کاشاہی خزانہ خالی ہوگیا تھااور قحط پڑنے سے لوگ بھوک سے مرگئے تھے ایسی عمارتیں ،ترقی ،ایجادات اور تحقیقات سے عوام کوکیا فائدہ ؟ساحر لدھیانوی نے اپنی نظم تاج محل کے پردے میں پورے استحصالی نظام کا احاطہ کیاہے ۔

تاج محل جیسی محبت کی یادگار بنانے کے لئے بادشاہ وقت شاہ جہاں نے خزان عامرہ کوخوب چونا لگایا ۔
تاج تیرے لیے اک مظہر الفت ہی سہی 
تجھ کو اس وادی رنگیں سے عقیدت ہی سہی 
میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے 
بزم شاہی میں غریبوں کا گزر کیا معنی 
ثبت جس راہ میں ہوں سطوت شاہی کے نشاں 
اس پہ الفت بھری روحوں کا سفر کیا معنی 
میری محبوب پس پردہ تشہیر وفا 
تو نے سطوت کے نشانوں کو تو دیکھا ہوتا 
مردہ شاہوں کے مقابر سے بہلنے والی 
اپنے تاریک مکانوں کو تو دیکھا ہوتا 
ان گنت لوگوں نے دنیا میں محبت کی ہے 
کون کہتا ہے کہ صادق نہ تھے جذبے ان کے 
لیکن ان کے لیے تشہیر کا سامان نہیں 
کیونکہ وہ لوگ بھی اپنی ہی طرح مفلس تھے 
یہ عمارات و مقابر یہ فصیلیں یہ حصار 
مطلق الحکم شہنشاہوں کی عظمت کے ستوں 
سینہ دہر کے ناسور ہیں کہنہ ناسور 
جذب ہے ان میں ترے اور مرے اجداد کا خوں 
میری محبوب انہیں بھی تو محبت ہوگی 
جن کی صناعی نے بخشی ہے اسے شکل جمیل 
ان کے پیاروں کے مقابر رہے بے نام و نمود 
آج تک ان پہ جلائی نہ کسی نے قندیل 
یہ چمن زار یہ جمنا کا کنارہ یہ محل 
یہ منقش در و دیوار یہ محراب یہ طاق 
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر 
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق 
میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے 
یہاں ساحر غریب ومفلس عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے نظرآتے ہیں ۔

دراصل تاج محل ایک علامت ہے اور اس کے پردے میں تمام جابر وظالم ،مطلق العنان بادشاہوں اور سیاستدانوں پر طنزکیاگیاہے جوغریب عوام کاخون چوسنے میں برتری لیناچاہتے ہیں اور ظلم کرنے کے دوران یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے اندر بھی جذبات ہیں اور یہ جذبات ان کے دلوں میں ہی دم توڑ دیتے ہیں ۔سچی بات تویہ ہے کہ غریب تومحبت بھی نہیں کرسکتا ،محبوب غریب آدمی کی محبت کا بھی استحصال کرتا ہے ۔

خواتین کے ساتھ صنفی وجنسی استحصال کے علاوہ محنت کش خواتین کابطور محنت کش طبقاتی استحصال بھی ہمارے معاشرے میں عام ہے ۔ رجعت پسندی ،ابہام پرستی ،قوم پرستی ،فرقہ پرستی ،خاندانی انااور رعونت کی بھینٹ چڑھا کر خواتین کا استحصال کیاجاتاہے ۔ہمارے معاشرے میں درندگی اس حدتک سرایت کرچکی ہے کہ ننھے معصوم بچوں کے ساتھ بھی درندگی ہورہی ہے ،بچوں کااستحصال کرکے ان سے بچپن چھینا جارہاہے مگر افسوس کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی اور اس صورتحال میں بہتری کی کوئی اُمید بھی نظر نہیں آرہی بقول مرزاغالب 
کوئی امید بر نہیں آتی 
کوئی صورت نظر نہیں آتی 
سیاستدان و ادارے حب الوطنی ،وسیع تر قومی وملکی مفاد کے نام پر استحصال کرتے ہیں ۔

حکومتوں کی لوٹ کھسوٹ ،چوری اور اقربا پروری کے علاوہ مذہبی لوگ مذہب کے نام پر لوگوں کا استحصال کرتے ہیں ۔بیچارے غریب ،معصوم لوگ ان نام نہاد مذہبی لوگوں کے ہاتھوں استعمال ہوتے ہیں اور یہ مذہب کاچورن بیچ کر اپنی تجوریاں بھرتے رہتے ہیں بقول احمد فراز
امیر شہر غریبوں کولوٹ لیتاہے 
کبھی بہ حیلہ مذہب کبھی بنام وطن 
اسی طرح الیکشن میں سیاسی استحصال ہوتا ہے ۔

ایک عام آدمی اشرافیہ کے بنائے ہوئے نظام میں الیکشن ہی نہیں لڑسکتا کیونکہ اس کے پاس کروڑوں ،اربوں روپے نہیں ہیں ۔جماعتیں بھی استعمال کرو اور پھینک دو Use and Throw) )کی پالیسی پر عمل پیر اہیں ،ہرادارے میں ماتحت اپنے باس سے نالاں و شکوہ کناں ہے اب تونوبت یہاں تک آگئی ہے کچھ لوگ کہتے ہیں استعمال ضرور کریں مگر استحصال نہ کریں ۔سیاسی ومذہبی جماعتیں بھی صرف امیروں ،جاگیرداروں ،سرمایہ داروں ،وڈیروں کوٹکٹ دیتی ہیں جبکہ غریب ورکر بیچاراصرف نعرے لگاتا رہ جاتا ہے ۔

جب ایک طرف نہتا غریب ،ہاری ،مزارع اور دوسری طرف اس کا جاگیردار۔توایسے میں آزادی اظہار رائے اور ووٹ کی آزادی کہاں گئی؟ یہ سیاسی استحصال کی بدترین قسم ہے۔آئین نے جس آزادی اظہار رائے وسیاسی آزادی کی ضمانت دی تھی اس پر عمل کون کروائے گا؟ اس نظام اور اس کے محافظوں کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے فیض احمد فیض نے لکھا تھا 
نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں 
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے 
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے 
نظر چرا کے چلے جسم و جاں بچا کے چلے 
ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظم بست و کشاد 
کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد 
بہت ہے ظلم کے دست بہانہ جو کے لیے 
جو چند اہل جنوں تیرے نام لیوا ہیں 
بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی 
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں 
مگر گزارنے والوں کے دن گزرتے ہیں 
ترے فراق میں یوں صبح و شام کرتے ہیں
ظلم وجبر ،استحصال کے خلاف ہر دور میں معاشرے کے حساس ودرد دل رکھنے والے انقلابی دانشور، ،فلاسفرز ،مفکرین ،شاعر ،ادیب ہمیشہ آواز اٹھاتے رہے ہیں۔

چودہویں اور پندرہویں صدی عیسوی میں لیونارڈو ڈاونچی، مائیکل اینجلو، تھامس مور، میکاولی، میرنڈولا، گلیلیو، کیپلر، کوپرنیکس اور فرانسس بیکن جیسے نابغوں نے قدیم یونانی علوم کو بنیاد بناتے ہوئے فلسفے، سائنس، آرٹ، علمِ سیاست وسماجیات میں گراں قدر اضافے کیے اور صدیوں سے چھائی شعوری پراگندگی کو چیلنج کر دیا۔ احیائے علوم کے ان ابتدائی علمبرداروں کو اشرافیہ کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

کسی کو مذہبی عدالتوں میں گھسیٹا گیا تو کسی کو زندہ جلا دیا گیا مگر ایک طرف بورژوازی کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ اور اس کے طبقاتی مفادات کی ضرورت اور دوسری طرف یورپ کے مختلف حصوں میں جاگیری اشرافیہ کے خلاف پے در پے ہونے والی کسان بغاوتوں نے وہ سیاسی و سماجی ماحول بنائے رکھا جس میں نشاة ثانیہ کے خیالات پھیلتے اور دماغوں کو منور کرتے چلے گئے۔

نظریات کی محدودیت اپنی جگہ لیکن تاریخ کے اُس عہد میں یہ ڈیکارٹ، ڈیڈہرو، ہیوم، تھامس ہابس، جان لاک، سپی نوزا، ایڈم سمتھ، نیوٹن، والٹیر اور روسو جیسے روشن خیالوں کے ہاتھ میں وہ ہتھیار ثابت ہوئے جن کے ذریعے انہوں نے نظام قدیم یعنی جاگیرداری، شاہی تسلط اور کلیسائی جبر کی اخلاقی و نظریاتی بنیادوں کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیے۔
فرانس کے فلاسفرز نے یورپ میں ذہنی تبدیلی لانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔

والٹئیر نے چرچ کے خلاف آواز بلند کی اور ظالمانہ باشاہت کے خلاف آواز بلند کی اور کہا کہ بادشاہ وہی ہوتا ہے جو عادل ہو، اگر وہ ظالم ہے تو اسے عوام کو ہٹا دینا چاہیئے۔۔ اس کے بعد عظیم فلاسفر روسو نے کہا کہ اقتدار اعلی بادشاہ کے پاس نہیں، عوام کے پاس ہونا چاہیئے۔ ان کی وجہ سے فرانس میں ایک عظیم انقلاب برپا ہوا جسے فرنسیسی انقلاب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

صنعتی انقلاب اور فرانسیسی انقلاب کے درمیان ایک اور انقلاب رونما ہوا۔یہ انقلاب امریکی نو آبادیات میں ہوا۔امریکہ کی برطانوی نو آبادیات انگلستا ن سے الگ ہو گئیں۔اس انقلاب میں امریکہ اور برطانیہ نہیں لڑ رہے تھے بلکہ یہ جنگ امریکہ اور برطانوی حکومت میں تھی ۔امریکہ کے اعلان ِ آزادی کی ہر سطر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اعلان اٹھارہویں صدی کے فرانسیسی فلسفیوں اور مفکروں کے خیالات کا نتیجہ ہے۔

اعلانِ آزادی اور روسو کی معاہدہ عمرانی‘کا پہلا جملہ مشترک ہے۔اسی طرح روس میں اشتراکی انقلاب کو کارل مارکس نے علمی وفکری بنیاد فراہم کی اور لینن نے اس کومزید پروان چڑھایا۔چینی انقلاب میں ماؤزے تنگ کی سوچ وفکر نے اہم کردار ادا کیا ۔
علامہ اقبال کی حکیمانہ سوچ نے جرات رندانہ، اور کلیمانہ جذب وکیف سے کام لیتے ہوئے مسلم دنیا اور بالخصوص بّرصغیر ہندوستان کے مسلمانوں میں اپنی شاعری کے ذریعے آزادی کی اُمنگ سے ہمکنار کرنے کیلئے مسلمانوں کے جذبہ ہستی کو بیدار کیا۔

اپنے اشعار کے ذریعے اُن کا کہنا تھا
جلانا ہے مجھے ہر شمع دل کو سوزِ پنہاں سے
تری تاریک راتوں میں چراغاں کر کے چھوڑوں گا
مسلمء خوابیدہ اُٹھ ہنگامہ آراء تو بھی ہو
وہ چمک اُٹھا افق، گرمِ تقاضہ تو بھی ہو
کیا آج ہمارے معاشرے میں کہیں سے یہ آوازیں آرہی ہیں کہ جدید دور کے جدید نظریات کو اختیار کیا جائے۔ کیا کوئی ایسا ہے جو یہ کہتا ہو کہ یہاں سوشلزم ہو، لبرل ازم ہو، سیکولرازم ہو،ماڈرنزم ہو،برابری کی بناپر دولت کی تقسیم ہو،طبقاتی تقسیم کا خاتمہ ہو،حقیقی شراکتی جمہوریت کانظام ہوجس میں عوام صحیح معنوں میں شراکت دار ہوں۔

اگر ہم نے زما نے کی رفتار کے ساتھ چلناہے تو ہمیں عوام کو شعور دیناہوگا اور برابری کی سطح پر ان کوسیاسی،سماجی ومعاشی حقوق دیکر ہر طرح کے استحصال کا خاتمہ کرناہوگا اور وقت کے ساتھ ساتھ بدلناہوگا اس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے۔ ہمیں بھی آج جالب کی طرح آواز بلند کرنی ہوگی وہ حبیب جالب جو مزاحتمی شاعری کااستعارہ ہیں جالب نے اسی نظام کوچیلنج کرتے ہوئے کہاتھا 
دیپ جس کا محلات ہی میں جلے 
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے 
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے 
ایسے دستور کو صبح بے نور کو 
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا 
عمران خان صاحب آپ تبدیلی و استحصال کے خاتمے پرووٹ لیکر اقتدار میں آئے ہیں ۔

آپ نے اپنی تقریر میں وعدہ کیاتھاکہ آپ پاکستان کوریاست مدینہ بنائیں گے مگر اب تک کے اقدامات مایوس کن ہیں ۔جاگیردار ،وڈیرے،سرمایہ دار جن کے خلاف انقلاب لانا تھا وہی آپ کے وزیر مشیر ہیں۔جن کو آپ بھی چور ،ڈاکو ،لٹیرے ،غریبوں کے حقو ق پرڈاکہ ڈالنے والے کہتے تھے وہی آج آپکے دائیں و بائیں ہیں تو جناب وزیراعظم کیسے آئے گی تبدیلی ؟جن مافیاز کا ذکر آپ اکثر کرتے ہیں ان مافیاز کے سرپرست آپ کے مصاحبین میں بھی شامل ہیں ان پر نظر ماریں ۔

ورنہ!!! ایسے تو نہیں بنے گا نیا پاکستان ؟ دو نہیں ایک پاکستان کاخواب ایسے توپورا نہیں ہوگا 
عجیب تیری سیاست، عجیب تیرا نظام
یزید سے بھی مراسم، حسین کو بھی سلام
ریاست مدینہ کی بنیاد ہی سماجی انصاف ،برابری ہے آپ کی آئینی واخلاقی ذمہ داری ہے کہ قوم سے کئے ہوئے وعدے پورے کریں اور ملک میں استحصال کے خاتمے کے لئے عملی اقدامات کریں اور آئین نے جوشہریوں کے حقوق واستحصال کے خاتمے کی یقین دہانی کروائی ہے مصلحتوں وجماعتی مفادات سے بالاتر ہوکر انقلابی اقدامات کریں ۔

بطورشہری بھی ہم سب کو ظلم واستحصال کے خلاف اپنی اپنی سطح پر آوازبلند کرنی ہوگی بلخصوص اہل قلم کو ظلم وجبر واستحصال کے خلاف بغیر کسی مصلحت کے سینہ سپر ہوناہوگا
اٹھو وگرنہ حشر نہ ہوگا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :