آزادمیڈیا کی بے توقیری ۔۔جمہوریت ۔ قسط نمبر5

منگل 17 مارچ 2020

Atiq Chaudhry

عتیق چوہدری

جرمنی سے تعلق رکھنے والے پروفیسر ڈگلس کلنر کاخیال ہے کہ پریس اور میڈیا کا جمہور ی عمل کو آگے بڑھانے میں بڑا اہم کردار رہا ہے ۔انقلاب فرانس کے وقت ہی پریس کی اہمیت کا اندازہ ہوگیا تھا اور اس کو ریاست کا چوتھا ستون تسلیم کرلیا گیا تھا ۔جمہوری عمل کو آگے بڑھانے کے لئے آزاد میڈیا کی ضرورت اس لئے بھی ہے کیونکہ جمہوریت میں سب سے بنیادی کردار ووٹر کا ہے اور ایک باشعور ووٹر جمہوریت کوپٹری پر رکھنے میں انتہائی اہم کردار اداکرسکتا ہے ووٹر کی تعلیم اور صورتحال کے متعلق آگہی میں آزاد میڈیا کی اہمیت سے کسی صورت انکار نہیں کیا جاسکتا ۔

جب بھی کسی سوسائٹی میں جمہوری ادارے اور روایات کمزور ہوتے ہیں تو اس کے نتیجے میں جمہوری سوچ ختم ہوجاتی ہے ۔

(جاری ہے)

یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں جمہوری حکومتیں جمہوری سوچ ،آزادی اظہار رائے ،جمہوری اداروں وروایات کو مستحکم کرنے میں کیوں ناکام ہوئی ہیں ؟ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں ریاست و حکومت سمیت بالادست طبقات نے کبھی بھی میڈیا کی آزادی کو قبول نہیں کیابلکہ ہمیشہ اپنے لئے خطرہ ہی سمجھا ہے ۔

میڈیا کو زیر اثر لانے کے لئے مختلف قسم کے قوانین لاگو کئے جاتے رہے ہیں ،اخبارات بند کئے گے ،صحافیوں کوپابند سلاسل کیا گیا ،ذہنی وجسمانی اذیتیں دی گئیں ، اخبارات کے ڈیکلریشن منسوخ کئے گے ،سرکاری اشتہارات بند کئے گے اور طرح طرح کے حربے آزماکر میڈیا کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کیا گیا ۔قیام پاکستان سے اب تک صحافت کو پابند سلاسل کر نے کے لئے مختلف قوانین کا بھی سہارا لیا جاتا رہا ہے ایوب خان نے 1962ء میں پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈیننس (پی پی او) کے ذریعے صحافت کو اپنا تابع کرنے کی بھر پور کوشش کی۔

ضیاء الحق نے ایوب خان کے پی پی او میں مزید ترامیم کر کے اسے ریوائزڈ پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈیننس (آر پی پی او) کا نام دیا۔ اسکے تحت حکومت کے خلاف خبروں (چاہے وہ حقائق پر مبنی ہوں) کی اشاعت پر صحافیوں کو سزائیں دی گئیں.مزید گرفتاریوں کے ڈر اور صحافیوں کو خوف میں مبتلا کرنے کیلئے صحافیوں کو کوڑے مارے گئے انہیں پابند سلاسل بھی رکھا گیا اور صحافت کا رستہ روکنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔

1997ء میں نواز شریف کی حکومت نے بغیر کسی منصوبہ بندی اور قانون سازی کے نیشنل پریس ٹرسٹ کے بیشتر اخبارات کی پرائیویٹائزیشن کے ذریعے ہزاروں صحافیوں کو بیروزگار کر دیا۔ پرویز مشرف کے دور میں2007 کے دوران چلنے والی وکلاء تحریک میں حکومت مخالف رپورٹنگ کی وجہ سے آزادی صحافت کا پھر سے گلا گھونٹنے کی ناکام کوشش کی گئی تھی۔ الیکٹرانک میڈیا کے مختلف چینلز پر مکمل پابندیوں سمیت پرنٹ میڈیا کوبھی جزوی پابندیوں کا سامنا رہا۔

میاں نوازشریف کے دور حکومت میں من پسند صحافیوں و میڈیا کو نوازنے کی بدولت جسے ہم ڈیوائیڈ اینڈ رول جیسے قبیح کردار کی بدولت صحافت کو سیاسی پارٹیوں کی طرح منقسم کیا گیا۔جس کی وجہ سے آزادی صحافت پر بہت بڑا حرف آیا ہے یہ تقسیم آج بھی قائم ہے اب تجزیہ حقائق کی بجائے اپنے من پسند لیڈروں کو خوش کرنے کے لئے کئے جاتے ہیں ۔تحریک انصاف کی حکومت کے کردار کا اندازہ لگانے کے لئے چند رپورٹیں ہی کافی ہیں ۔

ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس کے مطابق خراب ترین کارکردگی والے 180 ممالک میں پاکستان کا نمبر 142 واں ہے جو پاکستان میں جمہوریت اور آزادی اظہار کے لیے شرمندگی کا باعث ہے۔ سی پی این ای کے مطابق پریوینشن آف الیکٹرونک کرائمز ایکٹ (پیکا) 2016 کو متعارف کراتے وقت یہ بتایا گیا تھا کہ یہ قانون سائبر کرائمز، خواتین کو آن لائن ہراساں کرنے کے واقعات کی روک تھام کے لیے استعمال ہو گا اور اسے صحافیوں و میڈیا کے خلاف ہرگز استعمال نہیں کیا جائے گا لیکن ان دعووں کے برخلاف اسے میڈیا کی آزادی اور آزادی اظہار پر قدغن لگانے کے لیے کسی نہ کسی بہانے سے سال 2019 میں بھی بھرپور استعمال کیا گیا۔

صحافتی اداروں پر اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ کی نتیجے میں سیلف سینسر شپ اور صحافیوں کی کردار کشی کا نیا ٹرینڈ دیکھنے میں آیا۔ غیر ریاستی عناصر کی جانب سے حق اور سچ کا راستہ اپنانے والے صحافیوں پر بے بنیاد مقدمات بنانے اور اداروں سے نکلوانے کا سلسلہ بھی تیز تر ہوگیا۔ کئی اخبارات اور ٹی وی چینلز بند ہوگئے اور ہزاروں صحافی کارکنوں کو نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔

فوجی آمریتوں کے دور میں تو سنسر شپ اور اعلانیہ پابندیاں عائد ہونا ایک روٹین تھی مگرجمہوری ادوار میں بھی ایسی ہی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ پاکستان میں صحافیوں پر حملے، مارپیٹ، تشدد، مقدمات اور دھمکیاں تو معمول کی بات ہے لیکن اب صحافیوں کے خلاف نیا رجحان دیکھنے میں آیا اور ایک خاص طریقے سے حکومت مخالف رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کی کردار کشی کی منظم مہم سوشل میڈیا پر چلائی گئی۔

اپریل 2019 میں میڈیا نگرانی کے عالمی ادارے رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے صحافتی آزادی کے حوالے سے ممالک کی درجہ بندی فہرست جاری کی تھی جس کے مطابق پاکستان اپنے پرانے درجے سے 3 درجے تنزلی کا شکار ہوگیا تھا یعنی صورت حال بد سے بدتر ہوگئی اور میڈیا پر غلامی کی زنجیریں مزید تنگ کردی گئیں ۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں میڈیا کو سینسر شپ کے کڑے معاملات کا سامنا کرنا پڑا بالخصوص عام انتخابات کے دوران، اس کے ساتھ اخبارات کی تقسیم میں رکاوٹیں حائل ہوئیں، ذرائع ابلاغ کو اشتہارات واپس لینے کے لیے دھمکایا گیا جب کہ کچھ ٹی وی چینلز کے سگنلز بھی بند کردئیے گیے۔

لیکن اس کے باوجود میڈیا میں سیاسی جماعتوں کی داخلی جمہوریت ،قانون کی حکمرانی ،ادارہ جاتی عمل کے مسائل،اداروں میں بڑھتی ہوئی سیاسی مداخلت ،فوج کے سیاسی کردار پر سنجیدہ سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔میڈیا کمرشلائزیشن کی وجہ سے میڈیا کے کردار اور ترجیحات پر بہت سے سنجیدہ سوالات بھی اٹھ رہے ہیں کیونکہ میڈیا اپنے مالکان کے مفادات کا تحفظ بھی کرتا ہے ۔

ایک اور اہم مسئلہ نان ایشوز کو ایشو بنا دیا جاتا ہے گو ہمارا میڈیا بنیادی طور پر over politicized میڈیا ہے جہاں سیاست و بیان بازی ،الزام تراشی یا بریکنگ نیوز تک محدود ہوگیا ہے ۔معاشرے کے اہم معاملات جن میں تعلیم ،صحت ،روزگار،عام محروم طبقات سمیت اقلیتوں کے مسائل اور دیہی عوام کے مسائل بہت پیچھے رہ گئے ہیں ۔پروفیسر ڈگلس کلنر کے مطابق جمہوری معاشرے میں میڈیا کی دو اہم ذمہ داریاں بنتی ہیں پہلی طاقت کے بیجا استعمال کو روکنے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ،دوسری لوگوں کوعوامی مفاد میں حکومتوں کے اقدامات کے متعلق آگہی فراہم کرنا اور ان کے اثرات کے متعلق علم فراہم کرنا ۔

اس لئے جمہوری معاشرے میں میڈیا کی آزادی بہت اہم ہے ۔جمہوریت کے فروغ میں سول سوسائٹی کا کردار بہت اہم ہوتا ہے پاکستان میں بھی سول سوسائٹی نے جمہوریت کے لئے اہم کردار اد اکیا ہے مگر جس طرح کرنا چاہئے وہ کیوں نہیں کیا یہ توجہ طلب پہلو ہے ۔امریکی مصنف اور دانشور لیری ڈائمنڈ کے مطابق ”وہ تمام ادارے اور منظم گروپس جو ریاست کے تابع نہ ہوں اور نہ ہی اس کے وسائل پر ان کا انحصار ہو۔

بلکہ رضاکارانہ طور پر ذاتی حیثیت میں خدمات سرانجام دے رہے ہوں ،سول سوسائٹی کہلاتے ہیں “۔Lehmbruch کا کہنا ہے کہ سول سوسائٹی اقتدارو اختیار کی ریاستی انتظام کی نچلی ترین سطح تک منتقلی میں نمایاں کردار ادا کرسکتی ہے ۔جو دراصل شراکتی جمہوریت کی پہلی سیڑھی ہے ۔سول سوسائٹی معاشرے میں برداشت ،تحمل ،اعتدال پسندی ،مفاہمت اور اختلافی نقطہ نظر کے لئے قبولیت کے فروغ میں کلیدی کردار اداکرے گی تو حقیقی جمہوریت کی منزل تک پہنچ سکتے ہیں ۔

جمہوریت کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے ضروری ہے کہ جمہوری لوازمات کو ریاست میں بھرپور طریقے سے رائج کیا جائے۔”تعلیم جمہوریت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھی ہے“۔ جس ریاست میں تعلیمی انحطاط پایا جاتا ہے وہاں پر جمہوریت کامیاب نہیں ہے اور جس ریاست میں شرح خواندگی زیادہ ہے وہاں پر جمہوریت کامیابی سے عمل پیرا ہے ۔اسی طرح آئینپاکستان کا آرٹیکلA 25-کہتا ہے کہ 5سے 16سال کی عمر کے بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم دینا ریاست کی ذمہ داری ہے مگر ریاست اپنی اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے لئے قطعاً تیار نہیں ہے اور آئین کے اس آرٹیکل کے تحت بل تو پاس ہوئے مگر بائی لاز تیار نہیں ہوئے اور نہ ہی آئین کا آرٹیکلA 25 آج تک کسی صوبے میں اپنی روح کے مطابق نافذ ہو سکا اگر عدلیہ حقیقی معنوں میں آزاد ہوتی تو یقیناًاس معاملے پر حکومت عملدرآمد کی پابند ہوتی۔

معزز ججز کے ریمارکس اب معمول کا حصہ بن چکے ہیں جن میں وہ کہتے ہیں کہ ملک میں رول آف لا ء نہیں ہے، گڈگورننس نہیں ہے، کرپشن ہے، عوام کے بنیادی حقوق سلب کر لیے گئے، تعلیم، صحت، صاف پانی، انصاف کا حق چھین لیا گیا۔ پاکستان اور بھارت میں چونکہ شرح خواندگی اتنی زیادہ نہیں ہے اسی لئے ان دونوں ممالک میں جمہوریت اپنی اصل روح میں نافذ العمل نہیں ہے۔

جبکہ برطانیہ اور امریکہ میں شرح خواندگی زیادہ ہے اس لئے وہاں پر جمہوریت زیادہ کامیابی سے سرگرم عمل ہے۔ مغربی ملکوں نے جمہوریت کا سفر دواڑھائی صدیوں طے کیا ہے انہوں نے اپنی قوم کو تعلیم دی ہے ،شعور وآگہی اور قومی مسائل کو سمجھنے کی صلاحیت دی ہے ۔انہوں نے نہ صرف ادارے بنائے ہیں بلکہ وہ ادارے مستحکم و فعال اور مضبوط ہوئے ہیں۔قانون کی حکمرانی ان ملکوں میں قائم ہوئی ہے اور لوگوں کو آزادی کا مفہوم سمجھ میں آیا ہے ۔

بین الاقوامی ادارے اور ماہرین ایک کنسیپٹ پر متفق ہیں کہ جمہوریت صرف انتخاب کا نام نہیں بلکہ پورے نظام کا نام ہے ۔جمہوریت کی اہم شرط شفافیت Transparaency ہے جن ملکوں میں جمہوریت ہے وہاں میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے ہر ایک کو ایک ایک چیز کی خبر ہوتی ہے کہ کیا فیصلے ہوئے ہیں ،کیا پالیسیز ہیں اور کیا حد بندیاں ہیں ۔اس کے برعکس ہمارے حکمرانوں کی اولیں کوشش یہ ہوتی ہے حقا ئق کسی طرح بھی عوام تک نہ پہنچیں ۔

جمہوریت کی کامیابی کیلئے ضروری ہے کہ ریاست میں قیادت ایماندار ہو جو ریاست کے معاملات کو سنجیدگی سے نپٹائے اور مفاد پرستی و اقربا پروری سے کام نہ لے کیونکہ یہ وہ سماجی برائیاں ہیں جو رشوت خوری بدعنوانی اور ذخیرہ اندوزی کو معاشرے میں رواج دیتی ہیں۔ اسلئے ان تمام سماجی برائیوں پر صرف اسی وقت قابو پایا جا سکتا ہے جب حکومت کا کاروبارایماندار اور باکردار قیادت کے ہاتھوں میں ہو باقاعدہ انتخابات کا انعقاد جمہوریت کی اولین شرط ہے کیونکہ اگر ریاست میں انتخابات مستقل اور باقاعدہ نہ کروائے جائیں تو جمہوری اقدار کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔

انتخابات نہ کروانے سے عوام کی امنگوں اور خواہشات کا خون ہو جاتا ہے جو کہ جمہوریت کے قتل کے مترادف ہے آزاد عدلیہ کا قیام جمہوریت کی اہم شرائط میں سے ایک ہے اگر عدلیہ آزاد نہیں ہو گی تو افراد کے بنیادی حقوق سلب کر لئے جائیں گے۔ اور جب عوام کو بنیادی حقوق ہی میسر نہ ہوں گے تو پھر جمہوریت کی پاسداری نہ ہو سکے گی۔پاکستان میں جمہوریت نہ پنپنے کی راہ میں اہم رکاوٹوں میں سے ایک اہم مسئلہ صدیوں سے قائم مضبوط قبائلی ڈھانچہ اور فیوڈل کلچر ہے، جس کے سیاسی عمل پر گہر ے نقوش ہیں اور جو جمہوری کلچر کے پروان چڑھنے میں سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔

بھارت کے ساتھ تقسیم کے وقت پیداہونے والے تنازعات ہیں، جو قومی سلامتی کے لیے خطرہ تصورکیے جاتے ہیں۔نتیجتاً یہ ملک فلاحی کے بجائے سیکیورٹی اسٹیٹ میں تبدیل ہوگیا۔ خارجہ پالیسی سمیت اہم قومی امورکی پالیسی سازی پر شروع ہی سے غیر جمہوری قوتوں کا غلبہ قائم ہوگیا ہے لہٰذا قیام پاکستان کے وقت سے جو پالیسیاں مرتب کی گئیں، ان کا مرتکز کبھی بھی عوام نہیں رہے، بلکہ ان پالیسیوں کی تشکیل میں بعض مخصوص مراعات یافتہ طبقات کے مفادات کو مدنظر رکھا گیا، جس کی وجہ سے یہ پالیسیاں عوامی قبولیت حاصل کرنے میں ناکام رہیں۔

دہشت گردی کوپاکستان میں ترقی ،جمہوریت ،سلامتی ،خودمختاری اور امن کے لئے خطرہ گردانا جاتا ہے ۔پاکستان دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائین سٹیٹ ہے جس نے بہت زیادہ قربانیاں دی ہیں ۔اس مسئلہ سے نمٹنے کے لئے نیشنل ایکشن پلان ، نیکٹا اور انسداد دہشت گردی کے لئے بہت سخت اقدامات کئے گے ہیں مگر اس وجہ سے فوجی اداروں کو زیادہ اہم کردار ملنے کی وجہ سے جمہوری ادارے وسول قیادت کمزور ہوئی ہے ۔

رابرٹ تھامپسن نے حکومت کو انسداد دہشت گردی کے لئے پانچ رہنما اصول دئے تھے جن سے ہم بھی مستفید ہوسکتے ہیں پہلا حکومت کے واضح سیاسی مقاصد ہونے چاہئے ،دوسرا حکومت اور اس کی سیکیورٹی فورسز سختی کے ساتھ قانون کے دائرہ میں رہ کر کام کرے ،تیسرا حکومت اس کی ایجنسیاں اور فورسز کے پاس ایک واضح منصوبہ ہو،حکومت کواپنی پوری توجہ گوریلا ایکشن کی بجائے سیاسی نقصان کو شکست دینے پر مرکوز رکھنی چاہئے ،پانچواں بغاوت زدہ علاقوں کی طرف حرکت کرنے سے قبل اس امر کو یقینی بنائے کہ اس کے اپنے بنیادی علاقہ (بیس ایریاز )محفوط ہیں ۔

انٹرنیشنل کرائسس گروپ کہتا ہے کہ فوج کو نیشنل سیکورٹی اور انسداد دہشت گردی جیسی پالیسیوں میں تقریبا کلی اختیار حاصل ہے ۔لہذا یہ ضروری ہے کہ دہشت گردی کے خلاف لڑنے میں جمہوریت کو قانون کے آئینی نظام کو ہر حال میں مقدم رکھنا ضروری ہے ۔جہاں ریاست ایسا کرنے میں ناکام رہتی ہے وہاں انسداد دہشت گردی کی کوششیں بارآور ثابت نہیں رہتیں ۔

پاکستان میں سیاسی مظاہروں و احتجاج کے ذریعے بھی حکومتوں کو پریشرائز کیا جاتا رہا ہے ۔اسی تناظر میں پاکستانی سیاسی تاریخ کی گہرائیوں پر نظر رکھنے والے مختلف ماہرین سیاسیات اور تجزیہ نگاروں نے ہجوم کی سیاست کا تجزیہ کرتے ہوئے ایک اہم نکتہ کی نشاندہی کی ہے کہ پر ہجوم مظاہرے بادی النظر میں صرف عوام کے ہجوم کے مظاہر نظر آتے ہیں لیکن ان کے وقوع پذیر ہونے کے وقت کی اسٹیبلشمنٹ ان کے حوالے سے غیر جانبدار نہیں تھی کسی نہ کسی طرح کی حمایت یااشارہ انہیں حاصل تھا۔

مختلف تحریکوں کی قیادتوں پر اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی کے الزامات کوئی نئے نہیں ہیں ۔ملک میں جمہوری ادارے اسی وقت مضبوط ہوں گے جب وہ ارتقائی عمل سے گزر کر وقت کے ساتھ بہتر ہوجائیں گے ان میں اصلاحات و چیک اینڈ بیلنس کا نظام مضبوط ہوتا جائے گا ۔ اگر ہم 2008 کی الیکشن مہم دیکھیں تو اس میں بنیادی نعرہ جمہوریت کی مکمل بحالی تھا ۔ 2008، 2013 اور 2018 میں ہونے والے انتخابات کے موضوعات ہی اٹھا کر دیکھ لیں فرق واضح نظر آئے گا۔

2008 کے انتخابات کا موضوع یہ تھا کہ ہمیں آمریت نہیں، جمہوریت چاہیے۔ 2013 میں یہ بنیادی بحث طے شدہ تھی۔ لہٰذا ایک بنیادی ضرورت لوڈ شیڈنگ و اس طرح کے ایشوزپر انتخابات لڑے گئے۔ آج جب کہ بجلی کا مسئلہ بھی بڑی حد تک حل ہو چکا ہے، تو2018 کے انتخابات میں بنیادی نکتہ گورننس کا ماڈل اور کرپشن تھا، کہ آیا ہمیں تحریک انصاف کے منشور کے مطابق صحت، انصاف اور تعلیم جیسی بنیادی ضرورتوں کی فراہمی کے وعدے کو ووٹ دے کر ترقی کے نیچے سے اوپر جانے والے ماڈل کو اپنانا ہے یا مسلم لیگ ن کے میگا پروجیکٹس کے ذریعے ترقی کے اوپر سے نچلے طبقات کی طرف سفر کرنے والے، جسے انگریزی میں trickledown effect کہا جاتا ہے، ماڈل کو اپنانا ہے۔

سیاسی شعور میں بہتری وقت کے ساتھ اتنی آگئی ہے کہ اب عام آدمی حکومت کی گورننس پر سوال اٹھاتا ہے اگر کسی طاقتور شخص کی جانب سے قانون کی خلاف ورزی یا میرٹ کی پامالی ہوتو سوشل میڈیا پر شور مچ جاتا ہے جس کی درجنوں مثالیں گذشتہ ڈیڑھ سال میں نظر آئیں جو بہت خوش آئند بات ہے ۔اس طرح عوام تحریک انصاف کے قائدین سے منشور میں کئے ہوئے گڈ گورننس کے وعدوں و دعووں کا بھی سوال پوچھتی ہے یہ سب جمہوریت کی وجہ سے ممکن ہوا ہے ۔

سیاسی شعور اور ارتقاء کی یہ منزل جو اس ملک کی عوام نے ایک بار طے کر لی ہے، تو اب واپسی ناممکن ہے۔ اور اس سفر میں جمہور کی رہنما جمہوریت ہی تھی، آگے بھی یہی ہوگی ۔سیاستدانوں کو بھی اب سوچنا پڑے گا کہ وہ اب تک کھلونے بنتے آئے ہیں، آگے بھی کھلونے بنتے رہیں گے یہ اپنی ماں”پارلیمان “کے ساتھ کھڑے ہو کر اسے مضبوط کریں ۔ یہ سیاستدان ہمیشہ بھول جاتا ہے کہ اس کا سینٹر آف پاور یہ پارلیمان ہے۔

اس پارلیمان کے بغیر ان کا وجود نہیں ہے۔شفاف اور صاحب بصیرت حکومت دیگر شعبہ حیات میں تبدیلی کا موجب ہوسکتی ہے۔اس لیے تبدیلی کا نشان کوئی شخصیت یا جماعت نہیں بلکہ پارلیمان ہے، جسے مضبوط اور مستحکم بنانے کی صورت ہی میں جمہوریت مستحکم ہوسکتی ہے اور حکمرانی میں بہتری کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں۔
نوٹ : پارلیمنٹ کا جمہوریت میں سپریم کردار اور پاکستان میں پارلیمان کی بے وقتی پر تفصیل سے تنقیدی جائزہ ہم اگلے کالم میں لیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :