انوکھا لاڈلا !!!

پیر 18 نومبر 2019

Ayesha Noor

عائشہ نور

گزشتہ 40 برس سے پاکستان کی سیاست فردِ واحد کے گرد گھوم رہی ہے۔ جسے کبھی اقتدار میں لانا ضروری ہوتا ہے تو کبھی ہٹانا !!! کبھی اسے پکڑنے کی تدابیر ہورہی ہوتی ہیں تو کبھی اسے چھڑانے کی منصوبہ بندی ہورہی ہوتی ہے۔ یہ موصوف کوئی اور نہیں تین مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہونے والے میاں محمد نواز شریف ہیں جوکہ اب تاحیات نااہل ہوچکے ہیں ۔

مگر اس کے باوجود پاکستانی سیاست کے افق پر چھائے ہوئے ہیں ۔ یہ وہ فرد ہےجو تین مرتبہ برسراقتدار آنے کے باوجود پاکستان میں کوئی ایسا ہسپتال نہیں بناسکا , جہاں اطمینان بخش علاج ممکن ہو سکے ۔ یہ غالباً دنیا کا پہلے فرد ہےجس کا علاج لندن کے سوا کہیں ممکن نہیں ہے  ۔ ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے , موصوف کو اقتدارکے   ایوانوں میں بالکل صحت مند اور چاک و چوبند پایا ہے۔

(جاری ہے)

مگر جیسے ہی اقتدار چھن جاتا ہے , انہیں بیماریاں گھیر لیتی ہیں ۔ فی الوقت بھی صورتحال کسی طورپر بھی مختلف نہیں ہے۔ پوری حکومتی مشینری کےلیے فرد واحد کا علاج سنگین مسئلہ بنا ہوا ہے۔ جس طرح پاکستانی ذرائع ابلاغ سے اطلاعات موصول ہورہی ہیں , نواز شریف کی حالت شدید نازک  ہے۔ کبھی پلیٹ لیٹس بڑھ رہے ہیں تو کبھی گھٹ رہے ہیں ۔ ایسے  لگتا ہے کہ پورے پاکستان میں نواز شریف کے علاوہ اور کوئی مریض ہے نہ جیل میں کوئی اورشخص پابندِ سلاسل ہے۔

یہ سوچ سوچ کر پوری قوم پریشان ہے کہ آخر پاکستان کے اس واحد مریض کو کس طرح تندرست و توانا کیا جائے؟؟؟ اللہ تعالیٰ نواز شریف کو صحتیاب کرے ۔ ہم مانتے ہیں کہ نواز شریف کی صحت یابی پورے پاکستان کا واحد قومی مسئلہ ہے۔ ہمیں کوئی انکار نہیں کہ علاج معالجے کی سہولیات تک رسائی ہر مریض کا بنیادی حق ہے ۔ لہذا حکومت کو چاہیے کہ یہ حق ادا کرنے کےلیے لندن  سے ڈاکٹرز کی وہ ٹیم فوری طورپر منگوالے , جس کے ایک ایک ممبر کے دائیں  ہاتھ میں جادو کی چھڑی اور بائیں ہاتھ میں آب حیات ہے۔

میں انسانی ہمدردی کی بنیادپروزیراعظم پاکستان جناب عمران خان سےپرزوراپیل کرتی ہوں کہ پاکستان کی جیلوں میں قید تمام غریب قیدیوں کوبھی نوازشریف کے ساتھ بلاتاخیرلندن بھیجوایاجائے تاکہ انصاف      کےتقاضےپورےہوں۔ اس ضمن میں گزشتہ کئ دنوں سے چہ مگوئیوں کا سلسلہ جاری ہے کہ کوئی ڈیل یا این آراو ہواہے,  مبینہ طورپرکوئی  خفیہ لندن مذاکرات ہوئےاور نوازشریف نےمبینہ طورپر  14 ارب ڈالر خفیہ پلی بارگین کی حامی بھری تھی ۔

حکومت کو چاہیے کہ اس سلسلے میں تمام تر حقائق سے قوم کو آگاہ کرےکہ سچ کیاہے اور جھوٹ کیا ہے؟؟؟ جہاں
تک پلی بارگین کے قانون کا تعلق ہے, یہ قانون ایک بڑی خامی رکھتا ہے کہ ایک چور جس نے سو روپے چوری کیے ہوں , وہ دس بیس واپس کرکے کلین چٹ حاصل کرلیتا ہے۔
جہاں تک نواز شریف کا نام " ای سی ایل " سے نکالنے کا معاملہ ہے تو اس وقت رائے عامہ کا شدید دباو واضح طورپر محسوس کیا جاسکتا تھا ۔

نواز شریف کا نام " ای سی ایل " سے نکالنے کا ذمہ دار کوئی ادارہ  بھی بننے کو تیار نہیں تھا , نہ نیب نہ حکومت اور عدالتیں !!! سبھی معاملہ ایک دوسرے پر ڈالنے میں لگے رہے۔
حکومت  کا نوازشریف اورن لیگ سے  7 ارب کے ضمانتی مچلکے جمع کروانےکی  شرط پر بیرونِ ملک جانے کی اجازت دینے کا ظاہری فیصلہ جائز تھا , مگر حکومت اس پر قائم نہ رہ سکی  ۔ اس سے دو باتیں سامنے آئیں کہ ایک تو یہ کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے ظاہرکیاکہ وہ رائے عامہ کو بہت اہمیت دیتی ہے۔

اور حکومت نے اپنے نظریاتی ووٹرز کوخوش کرنے کےلیے ضمانتی  مچلکے جمع کروانےکاکہا ۔   دوسرے یہ کہ ن لیگ نے جو حکومتی شرائط کو عدالتوں میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا  , اس سے یہ سوال یہ پیدا ہوا  کہ اگر نواز شریف کی صحت اتنی خراب تھی تو ان کی جماعت ضمانتی مچلکے جمع کروانے  سے کیوں انکاری تھی ؟؟؟ جبکہ ان کی پہلی ترجیح مریض کا علاج ہونا چاہیے تھا نہ کہ ایک اور عدالتی جنگ !!! دوسرے یہ سوال کہ کیا نواز شریف واپس نہیں آنا چاہتے ؟؟؟جس کی وجہ سے حکومتی شرائط کو قابلِ قبول نہیں سمجھا گیا۔

   ضمانتی مچلکے جمع نہ کروا کر ن لیگ نے اس بات پر مہر تصدیق ثبت کردی کہ وہ اپنے قائد کی بیماری کو ایشو بناکر معاملے کو خود طول دے رہی ہے۔ ہم یہ ماننے کو تیار نہیں کہ ن لیگ نواز شریف کےلیے 7 ارب کے ضمانتی مچلکے جمع نہیں کروا سکتی تھی  ۔  یہ تو طے ہے کہ شریف خاندان کا کوئی فرد اگر بیرونِ ملک گیا تو پھر واپس نہیں آیا اور نواز شریف کی بھی یہ ہی خواہش تھی۔

پھرجب معاملہ عدالت میں گیا ,  توآپ نے لاہور ہائی کورٹ میں حکومتی یوٹرن دیکھ  لیا کہ سرکاری وکیل نےعدالت کے استفسار کے
باوجود نوازشریف کوبیان حلفی جمع کروانے دیا ۔۔اب چونکہ وہ سادہ  کاغذ کے ٹکڑےپرلکھی ایک تحریرتھی , لہذٰا عدالت نے خود ڈرافٹ تیارکرنےکا فیصلہ کیا اورپھر‏‎ عدالت کے ڈرافٹ میں بھی  کسی قسم کی ضمانت نہیں مانگی گئی گویا  ڈرافٹ نواز شریف کو غیر مشروط طورپر لندن جانے میں سہولت کار ثابت ہوا ۔

مجھے کہنا پڑرہا ہےکہ  ایک ‏‎کمال صفائی سے اسکرپٹ لکھا گیا , خوب اداکاری کے جوہر دکھائے گئے ۔ سانپ  بھی مرگیا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹی ۔  اور سب ہی فریقین کو کلین چٹ بھی مل گئ  اور بیچاری معصوم  پاکستانی عوام کو ہمیشہ کی طرح ملی بھگت سے ماموں بنا دیا گیا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :