اعلان ختم ہوا!!!

منگل 23 مارچ 2021

Ayesha Noor

عائشہ نور

مارچ ۲۰۲۱ نے پاکستان کی سیاست پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں، یوں تو پارلیمان کے ایوانِ بالا کے انتخابات میں ہر مرتبہ ہارس ٹریڈنگ کا شور برپا رہاہے۔ مگر سال ۲۰۲۱ کے سینیٹ انتخاب میں کافی دلچسپ حقائق سے پردہ اٹھا ، اور عوام کو کیمرے کی آنکھ سے وہ سب کچھ ثبوت کے ساتھ ہوتا نظرآیا، جس کے بارے میں پہلے لوگوں نے صرف سن رکھا تھا۔ لہذٰا ووٹوں کی مبینہ خریدوفروخت نے پاکستان کے ایوانِ اقتدار میں بیٹھے لوگوں کی ضمیر فروشی کو سب پر واضح کردیا سوائے الیکشن کمیشن کے۔

اس مبینہ ہارس ٹریڈنگ کےمتعلق مختلف دانشوروں کے تبصرے اور آراء سننے کو ملیں ۔ کسی نے  پارلیمانی نظام  تو کسی نے آئین و قانون کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ کسی نے الیکشن کمیشن کے کردار پر عدم اعتماد کا اظہار کیا تو کسی نے سیاستدانوں​ کے روایتی کردار کو ہدفِ تنقید بنایا۔

(جاری ہے)

اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو یہ سب محض جزئیات ہیں ، جبکہ اس سارے بحران کا اصل ماخذ ہمارا " نظام "ہے، جس کی بساط لپیٹ دینا ہمارے قومی مفاد میں ہے ۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اگرکچھ لوگوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی جائے کہ نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے تو وہ تمام مسائل کے اصل ماخذ نظام کو نظرانداز کرکے جزئیات میں چلے جاتے ہیں ۔ جیسے کہ بعض لوگ سینیٹ انتخابات کےلیے " اوپن بیلٹ " پر زور دیتے رہے ۔ حالانکہ ہم بحثیت قوم جزئیات پر اس سے پہلے بھی وقتاً فوقتاً بحث و تمحیص کرچکے ہیں ،مثال کے طورپر جب سانحہ ساہیوال ہوا تو سب لوگ پولیس اصلاحات کا مطالبہ کرتے رہے ۔

سب سے بڑھ کر یہ کہ وزیراعظم عمران خان اور ان کے پیروکار جو نظام ٹھیک کرنے کی بات کرتے تھے ، وہ سب وقت گزرنے کےساتھ جزئیات میں الجھ کر بےبس ہوتے چلےگئے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ جب بھی کوئی قومی مسئلہ درپیش ہوتاہے تو ہرکوئی فوری طورپر اس کے حل پر زور دیتا نظرآتا ہے مگر جیسےجیسے وہ معاملہ حالات حاضرہ سے ہٹ جاتاہے، ہم پھر سب کچھ بھلا دیتےہیں۔

بحثیت قوم ہم اپنی قومی ترجیحات طے کرنے کےلیے منصوبہ بندی میں مکمل طورپر ناکام رہے ہیں ۔ ہر نئی حکومت بغیر ہوم ورک کے آتی ہے ، کیونکہ انتخابی​ سیاست میں فتح کا معیار محض شخصیت پرستی ہے ۔ ہماری عوام کی سیاسی تربیت کچھ اس انداز میں کی گئی ہے کہ وہ صرف من پسند قائد کی اندھی تقلید کرتے ہیں جبکہ سیاسی جماعتوں کا منشور ثانوی حیثیت رکھتا ہے  ۔

چنانچہ جب کوئی حکومت آتی ہے تو وہ دیرینہ مسائل کے حل کےلیے بڑی پیشرفت میں ناکام رہتی ہے ، جس سے ووٹرز میں بھی مایوسی پھیلتی ہے، جو بسااوقات غم وغصے میں بدل جاتی ہے۔ موجودہ حکومت بھی صرف مقبول سیاسی قیادت اور پرکشش نعروں کی بنیاد پر منتخب ہوئی ہے۔ لہذٰا قومی مسائل کے حل کےلیے کوئی پیشگی منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ الجھتی چلی گئی۔

دراصل  عمران خان نے حصولِ اقتدار میں بھی کافی عجلت کا مظاہرہ بھی کیا۔ گویا حصولِ اقتدار کو اولین ترجیح سمجھ لیا  اور اس کےلیے جو ذرائع استعمال کیے گئے ، وہ آج بھی وبال جان بنے ہوئےہیں ۔عمران خان نے سیاسی جدوجہد کی بجائے سمجھوتے کی راہ اپنائی اور الیکٹیبلز کی فوج ظفر موج  اکھٹی کرنے کو ترجیح دی  ۔ الیکٹیبلز سے مراد وہ سیاستدان ہیں جوکہ نظریاتی سیاست کی بجائے حصولِ اقتدار کی دوڑ میں شمولیت کےلیے ہرجائزوناجائز حربہ استعمال کرتے ہیں ، خواہ  سیاسی وابستگی ہی کیوں نہ بیچنی پڑے ، وہ کبھی دریغ نہیں کرتے۔

ان ہی الیکٹیبلز کےرچائےہوئے کھیل کے باعث عمران خان پہلے سینیٹ انتخابات ہارگئے۔ لیکن پھر اچانک پانسہ پلٹ گیا اوروہ اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے ،اور پھر سینیٹ کا چیئرمین اپنا امیدوار منتخب کروانے میں کامیاب ہو گئے ۔ آخر وہ کون سی نادیدہ قوت ہے جو نتائج پر دفعتاً اثرانداز ہوکر ہر مرتبہ بازی پلٹ دیتی ہے ، آخر وہ کون ہے ؟؟؟ ہم سب جانتے ہیں کہ وزیراعظم نے اعتماد کا اعلانیہ رائے شماری میں حاصل کرنا ہوتا ہے ، لہذٰا سب نے اپنی جماعت کی قیادت کو ووٹ دےدیا۔

مگر معاملہ اتنا بھی سادہ نہیں ہے۔
یہ وہی نادیدہ طاقت ہے جو ۲۰۱۸ کے انتخابات میں عمران خان کے ساتھ تھی ۔ پھر اسی خفیہ طاقت نے سینیٹ الیکشن کے موقع پر عمران خان کو واضح برتری دلانا ضروری نہیں سمجھا بلکہ الیکٹیبلز کو کھیلنے کا موقع دیا ۔ چنانچہ عمران خان کو ایک مرتبہ پھر اسی خفیہ طاقت سے دوبارہ مدد مانگنی پڑی تو پانسہ ہی پلٹ دیاگیا ۔

عمران خان کو اعتماد کا ووٹ دلا کرحکومتی شکست کا داغ دھو دیاگیااورپھر نیا چئیرمین سینیٹ بھی عمران خان کے امیدوار کو منتخب کروادیاگیا۔ اعتماد کے ووٹ کو چھوڑئیے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی نادیده قوت نہیں ہے تو چند کروڑ پر بک جانے والےکیسے چئیرمین سینیٹ کے انتخاب کے موقع پر یکایک ایماندار اور وزیراعظم کے وفادار ہوگئے؟؟؟ یہ  کس قسم کا کھیل ہے کہ جس میں نہ کوئی جیتا اور نہ ہی ہارا !!! یہ  وہ خفیہ ہاتھ ہے جو نظام کو بدلنے میں سنجیدہ دکھائی نہیں دیتا بلکہ محض مہرے بدل کر کھیلنا چاہتا ہے کیونکہ اگر ایک موجودہ نظام کی بساط لپیٹ دی جاتی ہے ، تو اس کا سیاسی کردار محدود ہوکر رہ جائے گا۔

لہذٰا اسکرپٹ میں یہ بات لکھ دی گئ ہے کہ "کچھ نہیں بدلے گا " ، اعلان ختم ہوا !!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :