پاکستان میں ترقی کا امین ادارہ اور بھارتی جنگی جنون

پیر 4 مارچ 2019

Dr Affan Qaiser

ڈاکٹر عفان قیصر

ملک میں جنگ کا شور ہے اور دونوں ملکوں کے عوام پہلے ہی صحت، تعلیم ،روزگار اور اکانومی کے شدید ترین بحران کا شکار ہیں۔ بھارت کی مودی سرکار کی جارحیت اور الیکشن میں انتہا پسند ہندو ووٹر زکو خوش کرنے کی روش گجرات سے نکل کر آج پوری دنیا کو تباہی کے دہانے پر لے آئی ہے۔ دو ایٹمی ریاستوں میں اس طرح کی جنگ کیا تباہی لا سکتی ہے اس کا اندازہ شاید مودی کی چائے کی پیالی میں ابال لائی ذہنیت کسی طور نہیں لگا سکتی۔

ایسے میں وزیر اعظم عمران خان اور پاک فوج نے جس دانش مندی کا مظاہرہ کیا ہے اس پر زبردست خراجِ تحسین بنتا ہے اور جس طرح پاکستان میدان میں بھی اور سفارتی سطح پر بھی ہر جگہ جیت رہا ہے وہ سب پاکستانی قوم کے لیے انتہائی فخر کا مقام ہے۔ اس سب میں بھارت کے میڈیا کا کردار انتہائی منفی ، بلکہ صحافت کے ہر درجے پر زوال کا شکار رہا ہے اور پاکستان کی طرف سے بھارتی پائلٹ ابھی نندن کی واپسی تک کو جس طرح انڈین میڈیا نے منفی انداز میں پیش کیا ،اس پر بھارت کے دانشوروں سمیت پوری دنیا کے صحافیوں نے تنقید کی۔

(جاری ہے)

بھارت کا جارحانہ، منافقانہ اور جھوٹ پر مبنی چہرہ دنیا پر بے نقاب ہوتا جارہا ہے اور وقت دور نہیں جب خطے میں دہشت گردی کی ریت کو امر کرنے والا، خود امر ہو جائے گا۔ بھارت پاکستان سے جہاں بالی وڈ اور تجارت میں آگے ہے، وہیں ایٹمی وار ہیڈز کے ساتھ ساتھ پاکستان بین الاقوامی طور پر بھارت سے بہت سی ایسی چیزوں میں بہت آگے ہے ،جس کا ادراک عوام کو نہیں ہے ۔

ان میں ایک ادارہ کالج آف فزینشز اینڈ سرجنز آف پاکستان ہے ،جو پاکستان میں ڈاکٹر ی کی بڑی ڈگری کے امتحانات اور ڈاکٹروں کی ٹریننگ کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر کنٹرول اور ریگولیٹ کرتا ہے۔ بھارت میں ہونے والے ایم ڈی پروگرام جو بڑے ڈاکٹر پیدا کرتے ہیں ان کی پوری دنیا میں کوئی حیثیت نہیں ہے اور باہر کی دنیا ان ڈگریوں کو نہیں مانتی ، جبکہ پاکستان میں ہی ٹریننگ کرنے والے ڈاکٹروں کی اس ادارے کی ڈگر ی جسے آپ ایم سی پی ایس یا ایف سی پی ایس کے نام سے جانتے ہیں، برطانیہ اور آئرلینڈ سمیت پوری دنیا میں جانی جاتی ہے اور یہ پوری قوم کے لیے باعث فخر ہے۔

آج سے دس سال پہلے شاید بھارت ہم سے اس میں مقابلے میں تھا، مگر دس سال میں اس ادارے کے منتخب کونسلرز میں چند ایسے نام شامل ہوئے کہ جنہوں نے ادارے کی ساکھ کو اس مقام پر پہنچا دیا کہ باہر کی دنیا بھی اس ڈگری کی وقعت کی قائل ہوگئی۔ آج کالم کا اصل موضوع اس ادارے کے حالیہ الیکشنز اور ان کے نتیجے میں منتخب ہونے والی نئی کونسل ہے۔ 23 فروری کو ہونے والے سی پی ایس پی کے الیکشنز میں دس سال سے اس ادارے کے لیے انتہائی محنت سے کام کرنے والے کونسل کے سی پی ایس پی فرینڈز کے اساتذہ کے ارکان کا مقابلہ چند غیر معروف ڈاکٹروں پر مشتمل مختلف گروپس سے تھا، جو مسلسل ان الیکشنز کو رکوانے کی کوشش میں تھے۔

اس ضمن میں پورے پاکستا ن میں ہونے والے ان انتخابات کو رکوانے کے لیے stay مقدموں کے ساتھ بہت سے داؤ آزمائے گئے ، مگر کیونکہ یہ ایک جائز اور حق پر الیکشن تھا،اس لیے الیکشن اپنے وقت پر ہوئے اور نتیجہ حیران کن تھا۔ فرینڈز آف کالج آف فزینشز اینڈسرجنز کے اساتذہ نے کونسل کی بیس نشستوں پر کلین سویپ جیت حاصل کرلی ۔ ووٹ دینے والے ملک کے ذی شعور پڑھے لکھے بڑے ڈاکٹرز تھے اور انہوں نے کارکردگی کو ہی ووٹ دینا تھا۔

الیکشن میں کل 6 ہزار سے زائد ڈاکٹروں نے حصہ لیا ۔ بیس ممبران پر مشتمل کونسل میں مسلسل تیسری بار پروفیسر ڈاکٹر خالد مسعود گوندل صاحب ووٹوں میں سرفہرست رہے، اس بار انہیں 3659 ووٹ ڈالے گئے اور یہ سی پی ایس پی کی الیکشن کی تاریخ کے ریکارڈ ووٹ تھے۔آج تک کبھی کسی رکن کو انفرادی سطح پر اتنے زیادہ ووٹ نہیں ڈالے گئے۔ چار سال پہلے ہونے والے الیکشنز میں 2267 ووٹس کے ساتھ سرفہرست پروفیسر گوندل صاحب نے یوں اپنا ہی ریکار ڈ توڑ ڈالا۔

دوسرے نمبر پر روالپنڈی کے پروفیسر ڈاکٹر محمد شعیب شفیع صاحب کو 3607، لاہور سے پروفیسر محمد طیب صاحب کو 3593،پروفیسر عامر زمان صاحب کو 3574 ، پروفیسر ظفر اللہ چوہدر ی صاحب کو 3534 ، پروفیسر محمود ایاز شیخ صاحب کو 3529 ووٹس ڈالے گئے۔ پہلی بار شعبہ دندان کی جانب سے کونسلر کا الیکشن لڑنے والی پروفیسر امبرین افضال 3206 لے کر 14 نمبر پر سی پی ایس پی فرینڈز کی جانب سے کونسل کی رکن منتخب ہوگئیں۔

فرینڈز کے اساتذہ کے مقابلے میں الیکشن ہارنے والے ارکان میں اکیسویں نمبر پر پروفیسر عبدالمجید چوہدری صرف 1068 ووٹس حاصل کر پائے اور یہ بیسویں نمبر پر آنے والے رکن پروفیسر مظہر اسحاق کے 2896 کا نصف بھی نہ تھے۔ کونسل کے باقی جیتنے والے ارکان میں پنجاب سے پروفیسر محمد اصغر بٹ، پروفیسر غلام مجتبی، پروفیسر ابرار اشرف ، برگیڈئیر پروفیسر ڈاکٹر فرخ سید، میجر جنرل ریٹائیرڈپروفیسر مظہر اسحاق شامل ہیں۔

سندھ سے جیتنے والے ناموں میں پروفیسر سید خالد احمد اشرفی، میجر جنرل پروفیسر شہلا بقائی، پروفیسر محمد مسرور، پروفیسر شاہد پرویز، ڈاکٹر عباس میمن شامل ہیں۔ خیبر پختونخواہ کی دو نشستوں پر پروفیسر ڈاکٹر وقار عالم جان اور پروفیسر جہانگیر خان کامیاب قرار پائے۔ اسی طرح بلوچستان کی ایک نشست پر پروفیسر عائشہ صدیقہ منتخب ہوئیں اور انہیں 1962ء کے ملک کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کی اب تک کی پہلی خاتون رکن منتخب ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ۔

کونسل کے تمام ارکان نے مشترکہ طور پر پروفیسر ڈاکٹر ظفر اللہ چوہدر ی صاحب کو صدر ، پروفیسر ڈاکٹر خالد مسعود گوند ل صاحب کو سینئر نائب صدر اور پروفیسر ڈاکٹر سید خالد احمد اشرفی صاحب کو نائب صدر منتخب کرلیا۔اسی کونسل کے ذیلی مختلف شعبوں کی فیکلٹی الیکشن بھی اسی تاریخ کو ہوئے اور پنجاب سے شعبہ امراض چشم کے پنجاب سے پروفیسر زاہد کمال، بلوچستان کے ڈاکٹر عزیز الرحمان اور پروفیسر خان محمد، خیبر پختونخواہ کے پروفیسر ثنا اللہ جان بلا مقابلہ منتخب ہوگئے۔

شعبہ گائینی میں پروفیسر شمشا ہ ہمایوں، پروفیسر ناہید فاطمہ، پروفیسر پشپا، پروفیسر شبنم اور پروفیسر صداقت بھی بغیر مقابلے کے منتخب ہوئے۔اسی طرح میڈیسن سے پروفیسر ڈاکٹر منیر اظہر صاحب سب سے زیادہ 702 ووٹس لے کر کامیاب قرار پائے۔ باقی جیتنے والی میڈیسن فیکلٹی میں پروفیسر خالد محمود خان، پروفیسر شمس الدین شیخ ، پروفیسر حاکم اور پروفیسر شیراز جمال شامل تھے۔

اسی طرح شعبہ جراحی میں پروفیسر تنویر خالق، پروفیسر محمد عمران انور، پروفیسر عبداللہ متقی ، ڈاکٹر احسان اور پروفیسر مشتاق شامل تھے۔ الیکشن کی یہ تفصیل اس لیے ضروری تھی کہ یہ ملک کی کریم آف کریم سپیشلسٹ ڈاکٹرز کی طرف سے پاکستان میں سپیشلائیزیشن کے مستقبل کا تعین کرنے والے اساتذہ کا چناؤ تھا۔ سی پی ایس پی فرینڈز کی کونسل نے پروفیسر ڈاکٹر ظفر اللہ چوہدری اور پروفیسر ڈاکٹر خالد مسعود گوندل کی قیادت میں دس سال اس ادارے کے ساتھ نہ صرف وفا نبھائی بلکہ اسے اس کالج کی بنیاد بننے والے برطانیہ کے رائل کالج کے برابر لاکھڑا کیا۔

دس سال میں جس طرح کالج کے ریجنل سنٹرز کا جال پورے ملک میں پھیلتا چلا گیا وہ مقبولیت کی بنیاد بنا اور پھر باہر کی دنیا کے ساتھ سائن ہونے والی یاد اشتوں اور ایوارڈز نے جہاں اس ملک میں فرینڈز کے کونسل کے ارکان کی شہرت میں بے پناہ اضافہ کیا ،وہیں اسے پڑوسی ملک بھارت کے لیے حسد کا سبب بھی بنا دیا۔ یہ سی پی ایس پی فرینڈز کے اساتذہ کی خدمت کا اعتراف نہیں تو اور کیا تھا کہ اس ملک کے سب سے تعلیم یافتہ طبقے نے کلین سویپ چٹ دے کر مسلسل تیسری بار اسی کونسل کا انتخاب کیا۔

دنیا کا طاقتور ترین ملک امریکہ بھی جب دنیا کے کمزور ترین ملک افغانستان، ویتنام سے جنگ چھیڑتا ہے تو کئی سال تک چلنے والی جنگ میں وہ ملک اتنی بڑی طاقت کی اکانومی کا جنازہ نکال دیتے ہیں۔ وہ ملک جو پہلے سے ہی مقداری آبادی کی ابتر ترین حالت سے لڑ رہے ہوں،وہ جنگ کے متحمل کیسے ہوسکتے ہیں؟ اور وہ بھی ایٹمی جنگ جو یقینا سب کچھ دونوں طرف کشمیر سمیت راکھ کردے گی۔ جنگ کے بارودی دھوئیں کی بجائے ،اگر امن کی فاختہ دیسوں پر راج کرے تو پاکستان کے کالج آف فزینشز اینڈ سرجنز جیسے ادارے برطانیہ اور آئر لینڈ کے تعلیمی اداروں کے برابر آکھڑے ہوتے ہیں۔ ایسی ہی سوچ کی مودی سرکار کو بھی ضرورت ہے اور اسی میں دونوں ملکوں کے غریب عوام کی نسلوں کا روشن مستقبل دکھائی دیتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :