برصغیر پر مسلمانوں نے کئی سو سال حکمرانی کی، مغلوں کو زوال آیا،انگریزوں کی غلامی کا طوق گلے پڑ گیا اور پھر آزادی کی جدو جہد شروع ہوگئی۔ جناح نے جو کام کیا،وہ یقینا دنیا کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا ایک معجزہ تھا۔ اس کا خیال علامہ اقبال نے پیش کیا، مگر اس کو عملی جامہ پہنانا اتنا آسان نہیں تھا۔ مگر یہ سب قرادادِ پاکستان کے بعد ہوگیا، کیسے ہوا ،یہ تاریخ ہم میں سے اکثریت کو معلوم ہے ، مگر اس کے بعد جو ہوا،وہ آج تک ایک معمہ ہے۔
انہی اقبال کا ایک خواب اور بھی تھا،ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے،نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر۔ جس طر ح بہادر شاہ ظفر کے رنگون جاتے ہی برصغیر سے مسلمانوں کی حکمرانی ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئی،وہیں خلافتِ عثمانیہ کے ختم ہوتے ہی،اقبال کا یہ خواب بھی دفن ہوگیا۔
(جاری ہے)
اب ہم توڑے جاتے رہے تقسیم کیے جاتے رہے اور یہی تقسیم ہماری جڑوں میں بیٹھ گئی ہے۔
مشرقی وسطی میں مسلم ممالک میں فتنے پھوٹے،ایک ملک دوسرے پر چڑھ دوڑا اور گورے ہم پر حکمرانی کرتے رہے اور بعد میں استعمال کیے جانے والے حکمرانوں کو بھی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔آمریت کے ادوار ،مذہبی منافرت میں پلتے رہے اور پھر 9/11 کا واقعہ ہوگیا، ساری بازی پلٹ دی گئی،دنیا کو اسلاموفوبیا کے چکر میں ڈال دیا گیا اور دہشت گردی کا لیبل لگا کر ،پوری امت مسلمہ کو ہی دنیا میں بلیک لسٹ کردیا گیا۔
یہ سب بہت بڑی عالمی سازش تھی،کئی سالوں پر محیط سازش اور ہم اس کو سمجھنے سے قاصر رہے۔یہ سب صلیبی جنگوں کا نیا روپ تھا۔ اقبال کے خواب کی تعبیر ریاست،پاکستان،اسی سب میں ایٹمی قوت بن گئی،9/11 کی مرکزی سیاست کا بھی محور رہی اور اندرونی اور بیرونی مشکلات کا بھی شکار رہی۔ اب یہ سب کیسے ممکن تھا ؟کہ جو دنیا میں ہورہا تھا وہ سب برصغیر کے اس خاص خطے میں نہ ہوتا اور یہاں فرق بہت واضح تھا، ایک لکیر تھی، ہندو اور مسلم کی لکیر ،اسی پر برصغیر کے بٹوارے ہوئے تھے، یہ مہاراجوں اور مغلوں کی جنگ نہیں تھی، ریاستیں بٹ گئی تھی اور بنیاد مذہب تھا۔
جب مشرقی وسطی صرف مذہبی تفریق پر شیعہ سنی فساد میں بٹ گیا تھا،وہاں اس خطے میں مسلمان کافر کی روزِ ازل سے چلی لڑائی کیوں تھمنے کا نام لیتی ؟ یہ بھی چل رہی ہے اور ہم اس انتشار سے کسی طور غافل ہیں۔ جس طرح دنیا میں صلیبی جنگوں کی فلاسفی زندہ ہے،یہود و نصاریٰ کی فلاسفی زندہ ہے ،وہیں غزوہ ہند کا بھی وجود زندہ ہے، اور یہی بھارت میں موجودہ حکمران جماعت بی جے پی کی پس پشت آر ایس ایس کی آئیڈیالوجی ہے۔
یہی آرٹیکل 370 کو اٹھانے اور کشمیری مسلمانوں سے ان کا کشمیر پر سے حق لینے کے پیچھے ہے اور یہی بھارت کے نئے سٹیزن امینڈمنٹ بل Citizen amendment bill کی بنیاد ہے۔ یہ بل یہ کہتا ہے کہ 2015ء سے پہلے پاکستان، بنگلہ دیش،افغانستان سے آئے تمام بدھ مت،عیسائیوں،پارسیوں،یہودیوں اور سکھوں کو بھارتی شہریت دی جائے گی،ماسوائے مسلمانوں کے۔ قارئین اس جملے کو ایک بار پھر پڑھیں اور اس کا مطلب سمجھیں۔
یہ مطلب جامیہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے طلباء و طالبات کو خوب سمجھ آگیا،انہوں نے تاریخ کے طاقتور ترین مظاہرے کیے اور ان پر دہلی پولیس نے جو ظلم کیا ،وہ بھی کیمروں نے دیکھا۔ مسلمان تھے،ان پر گولیاں چلائی گئیں،دو کو شہید کردیا گیا،سعودی عرب کی طرف سے تحفے میں دی گئی لائیبریری میں آنسو گیس چھوڑی گئی،نجانے کتنوں کے بازو،ہاتھ توڑ دیے گئے۔
یہ سب مودی کے چیف منسٹر دور کے گجرات فسادات جیسا تھا۔ یہ سب مسلمان وہ ہیں جو دنیا کی مسلمان آبادی کا 11 فیصد ہیں، اور یہ سب مسلمان آج بھارت میں بدترین مظالم کا شکار ہیں۔
اس وقت بہار،اترپردیش،جموں کشمیر،لکشادویپ،بنگال،آسام،دہلی،گجرات،کیرالا،مادھیا،مانیپور،راجھستان،تامل ناڈو وغیرہ میں مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد بستی ہے۔
یہ سب بھارتی آبادی کا چودہ فیصد ہیں۔یہ مسلم اکثریتی علاقے ہیں اور یہاں مسلمانوں کی زندگیاں جہنم بنا دی گئی ہیں۔تو وہ علاقے جہاں مسلمان اکثریت میں نہیں ہیں،وہاں کیا حال کیا جارہا ہے ؟وہ کو ئی دکھانے کو تیار نہیں۔
قارئین یہ سن کر حیران ہوں کہ بھارت دنیا کو وہ واحد ملک ہے جہاں سرکاری طور پر انٹرنیٹ کی سہولیات اکثر معطل کردی جاتی ہیں،جس ملک کی ائیر سپیس میں بڑی بڑی ائیر لائنز کو سیٹلائیٹ انٹرنیٹ فراہم نہیں کرتی اور یہ اکثریتی وہ علاقے ہیں جہاں مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔
گجرات فسادات طرز کے ان ریاستوں میں کتنے فساد ہوتے ہیں،کتنے مسلمان گاجر مولی کی طرح کاٹ دیے جاتے ہیں اور کشمیر کے کرفیومیں کیا ہورہا ہے؟ اس پر کوئی آواز اٹھانے کو تیار ہی نہیں۔ تاریخ کو ریوائنڈ کریں اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی غیرمنصفانہ تقسیم پر آجائیں تو کشمیر سمیت ان ریاستوں کے تانے بانے بھی اسی تقسیم سے جاملتے ہیں ۔ ہندوؤں کو زمین چاہیے تھی،مسلمان نہیں،بالکل ویسے جیسے انہیں کشمیر چاہیے،کشمیری نہیں۔
یہ آر ایس ایس کا بنیادی ایمان ہے۔مودی سرکار اسی پر کام کررہی ہے اور یہی غزوہ ہند کی بنیاد ہے۔اب ایک طرف بنگلہ دیش ہے،جہاں محصورین پاکستان کا مسئلہ ہے،کہ وہ لوگ جو تقسیم کے وقت پاکستان آنا چاہتے تھے،یا اردو بولنے والے تھے،ان کو بنگلہ دیش عدالتوں کے حکم ناموں کے باوجود شہریت دینے پر تیار نہیں ہے۔
ادھر برما کے مسلمان ہیں ،جو میانمر سے جان بچاتے، بنگلہ دیش کے کاکس بازار کی پناہ گاہوں میں سڑ رہے ہیں۔
یہ سب برصغیر کے مسلمان ہیں،جو بے گھر ہیں، بے ریاست ہیں،برباد ہیں۔ اس سب میں پاکستان پر جہاں ذمہ داری بہت بری ہیں،وہیں اندرونی اور بیرونی دشمن بھی اس کو کھارہے ہیں۔ یہ سطور مجھے انتہائی دکھ کے ساتھ تحریر کرنی پڑتی ہیں کہ کشمیر کے موجودہ مسئلے کو کرفیو کے جاری رہنے تک،ہمیں یوں ہر گز بھولنا نہیں چاہیے تھا ،اور بھارت کے نئے شہریت کے قانون پر ہماری خاموشی بھی بہت بڑی غفلت ہے۔
میں حیران ہوں کہ جب دشمن کا سپہ سالار ہم کو نیست نابود کرنے کی دھمکیاں دے رہا تھا،ہم اس وقت یہاں اپنے ماضی کے سپہ سالاروں کو چوکوں پر گھسیٹنے ،پھانسی دینے اور لاشوں کو ڈی چوک میں لٹکانے کی بحث میں الجھے تھے۔ میں نے اکثریت کو کشمیر کو کشمیروں کا مسئلہ اور شہریت بل کو بھارت کے مسلمانوں کو مسئلہ کہہ کر چیزوں کو نظر اندار کرتے دیکھا۔
اپنا ملک سنبھالو کہنے والے،امت سنبھالو کی اصل آئیڈیالوجی سے ہی نکل گئے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ افغانستان،پاکستان،بنگلہ دیش، کشمیر ،اترپردیش،دہلی ،دکن اور برما کے مسلمان جغرافیائی تقسیم کے باجود ،کسی ایک ڈور سے بندھے ہوتے،تو شاید حالات مختلف ہوتے،ایسے میں یہ سلسلے ایران سے سفر کرتے اور مشرقی وسطی تک جانکلتے تو اقبال کا اصل خواب بھی حقیقت ہوتا، کوئی صلیبی جنگ یا غزوہ ہند کی اصل آئیڈیالوجی ہم پر یوں مسلط نہ ہوتی اور ہم یوں برباد نہ ہوتے۔
آنے والے وقت میں پاکستان کے مسلمانوں کے لیے بالخصوص ،آر ایس ایس بھی بڑا خطرہ ہوگی۔ دنیا لاکھ racism یا مذہبی منافرت کو زبان سے برا کہہ دے،مگر حقیقت یہی ہے کہ آرٹیکل 370 کی طرح ،شہریت کے بل پر بھی وہ خاموش ہے ،اور یہ خاموشی ،خونی سمندر میں بہت بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہے۔ یہ وقت بتائے گا کہ غزوہ ہند اگر حقیقت ہوگیا تو یہاں مغلوں کی حکومت ہوگی یا مہاراجوں کی، مگر یہ سچ ہے کہ ہماری سوچ اور ہماری تیاری سب اندرونی انتشار میں دفن ہے۔ کیا ہم یہ تاریخ بھول جائیں کہ آخری مغل کے محل پر جب حملہ تھا تو کفل توڑے نہیں گئے،اندر سے کھولے گئے تھے۔یہ آج چار سو ہیں، اور یہ ریاست مملکت خداداد ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔