آہ محسنِ پاکستان بھی چلے گئے

ہفتہ 16 اکتوبر 2021

Dr Ghulam Mustafa Badani

ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی

اتوارکے روزصبح سویرے محب وطن پاکستانیوں کو روح فرسااور اندوہناک غم میں مبتلاکردینے والی خبرسننے کوملی ،پہلے تویہی سمجھا گیا کہ یہ سوشل میڈیاپر کوئی جھوٹی خبرہی کسی نے پوسٹ کی ہے لیکن کچھ دیربعدوزیرداخلہ شیخ رشیداحمدنے تصدیق کی ہمارے عظیم ہیرو اورمحسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اس دنیا میں نہیں رہے( اِنا لِلہِ واِنآ اِلیہِ راجِعون)انہوں نے بتایا ہے کہ طبیعت بہت زیادہ خراب ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو صبح 6 بجے کے آر ایل اسپتال لایا گیا تھا۔

ہسپتال ذرائع کے مطابق ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا انتقال صبح 7 بج کر 4 منٹ پر ہوا، ان کی کچھ عرصے سے طبیعت ناساز تھی۔انتقال کے وقت ڈاکٹر عبدالقدیرخان کی عمر 86 سال تھی،واضح رہے کہ محسنِ پاکستان قومی ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اگست 26 کو عالمی وبا کرونا وائرس کا شکار بھی ہوئے تھے جس کے بعد ان کی آکسیجن لگی تصویر منظرعام پر آگئی تھی۔

(جاری ہے)

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی یہ تصاویر منظرِ عام پر آنے کے بعد ملک بھر میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی اور تمام اہلِ وطن کی جانب سے ان کی صحت یابی کے لیے دعائیں کی جاتی رہیں۔اس حوالے سے قومی سائنسدان کے ترجمان کی جانب سے جاری کیئے گئے بیان میں بتایا گیا تھا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو کورونا ٹیسٹ مثبت آنے پر 26 اگست کو کے آر ایل اسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔

بعد میں انہیں 28 اگست کو ملٹری اسپتال میں کوویڈ وارڈ میں منتقل کر دیا گیا تھا، جس کے بعد ممتاز ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر اے کیو خان کے تیزی سے صحت یاب ہونے کی خبر بھی سامنے آئی تھی جنہوں نے کوروناسے جنگ جیت لی تھی اوران کی کوروناکی رپورٹ نیگیٹوآگئی تھی۔ پاکستان کے عظیم سائنسدان وپاکستان کے ایٹم بم کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر خان 1936 میں بھارت کے شہر بھوپال میں پیدا ہوئے اور تقسیم ہند کے بعد 1947میں اپنے اہلخانہ کے ہمراہ ہجرت کر کے پاکستان آئے۔

ڈاکٹر عبدالقدیر نے انجینئرنگ کی ڈگری 1967 میں نیدر لینڈز کی ایک یونی ورسٹی سے حاصل کی۔انہوں نے بیلجیئم کی ایک یونی ورسٹی سے میٹلرجیکل انجینئرنگ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بعد میں ایمسٹرڈیم میں فزیکل ڈائنا مکس ریسرچ لیبارٹری جوائن کی۔1971 میں سانحہ مشرقی پاکستان کی صورت میں جو ذلت پاکستان کو اٹھانا پڑی اس سے ہر پاکستانی کا دل زخمی تھا بھارت ،روس اور امریکہ کی ملی بھگت سے پاکستان کا آدھا حصہ زبردستی علیحدہ کردیاگیا تھا اور وہاں موجود پاکستانیوں اور پاکستان سے محبت کرنے والے بہاریوں کے ساتھ مکتی باہنی اور متعصب بنگالیوں نے جو بہیمانہ سلوک کیا اس کا ذکر ہی دلوں کو تڑپا دینے کے لیے کافی ہے 90 ہزار فوجی اور سویلین افراد کو 23 مہینوں تک بھارتی قید میں انسانیت سوز مظالم سہنے پڑے۔

اس وقت مغربی پاکستان کے لوگ نہ صرف اپنے وطن کی بقا کے حوالے سے دل برداشتہ ہوچکے ہیں بلکہ دفاع وطن کی ذمہ دار مسلح افواج میں بھی تیزی سے مایوسی پھیل چکی تھی -اس صورت حال نے جہاں پاکستان میں رہنے والوں کو پریشان کیا وہاں وطن سے دور رہنے والے پاکستانی بھی خون کے آنسو روتے رہے - ان لاکھوں پاکستانیوں میں ایک نام ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کا بھی تھا جو اس وقت ہالینڈ میں مقیم تھے انہوں نے ٹیلی ویژن پر سقوط مشرقی پاکستان کی فلم دیکھی تو اس المیے نے مادر وطن سے ان کی محبت اور بھی گہری کردی انہوں نے اسی لمحے اپنی تمام تر توانیاں وطن عزیز کے لیے وقف کردینے کا فیصلہ کرلیا تھا ۔

اس کے بعدمئی 1976 میں ذوالفقار علی بھٹو کی دعوت پر انجینئری ریسرچ لیبارٹریزکے پاکستانی ایٹمی پروگرام میں حصہ لیا۔ بعد ازاں اس ادارے کا نام صدر پاکستان جنرل محمد ضیا الحق نے یکم مئی 1981 کو تبدیل کرکے ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز رکھ دیا۔ یہ ادارہ پاکستان میں یورینیم کی افزودگی میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔جی ہاں یہ وہ آدمی تھا جس نے ہالینڈ کی امریکی ڈالروں والی نوکری چھوڑی اور پاکستان میں کم پیسوں والی نوکری کی تاکہ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا جا سکے جب ڈاکٹر صاحب پاکستان آنے لگے تو انھیں کچھ نقشے اور ایٹمی سینٹری فیوجز کی معلومات تصاویر درکار تھیں اس کو حاصل کر نے کے لئے ہالینڈ سے وہ معلومات اکٹھی کرنا بے حد ضروری تھا اس زمانے میں ہالینڈ جسے نیدرلینڈ بھی کہا جاتا ہے وہاں ایٹمی معلومات موجود تھیں اب باری تھی کہ ان کو حاصل کیسے کیا جائے اس کے لئے ڈاکٹر صاحب نے اپنی اہلیہ محترمہ کے ذمے کام لگایا وہ وہیں کی شہریت رکھتی تھیں انھوں نے بغیر کسی انکار کے وہ سب معلومات حاصل کیں اور جب ہالینڈ سے پاکستان جانے کا وقت آیا تو ڈاکٹر صاحب نے اہلیہ سے پوچھا کیا تم میرے ساتھ چلو گی یا یہیں رہو گی تو ان کی اہلیہ نے کہا نہیں میں آپ کے ساتھ جاؤں گی اب مرحلہ آتا ہے کہ یہ معلومات رکھی کہاں جائیں اس کے لئے ڈاکٹر صاحب کی اہلیہ نے وہ معلومات بجائے سوٹ کیس یا بیگ میں رکھنے کے خاص جگہوں پر چھپائیں جہاں کوئی نا محرم چیکنگ نہیں کرسکتا تھا اس زمانے میں اتنی ٹیکنالوجی نہیں آئی تھی کہ اتنی گہرائی میں اسکیننگ ہوسکے اس کے بعد ان کی اہلیہ نے وہ معلومات رکھیں اور دونوں پاکستان روانہ ہوئے ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ جب تک جہاز پاکستانی سر زمین پر لینڈ نہیں کر گیا سارے راستے ٹینشن میں رہے تھے۔

اب مرحلہ آیا کہ پاکستان میں سینٹری فیوجز اور ایٹمی معاملے سے متعلق چیزیں کس طرح پاکستان امپورٹ کی جائیں کیونکہ یہ معاملہ اتنا آسان نہ تھا اس کے لئے اس وقت کے مشہور تاجر سیٹھ عابدسے رابطہ کیا گیا جن کا تعلق بڑی بڑی بین الاقوامی کمپنیوں سے بزنس کاتھا،سیٹھ عابد سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان خود ملے اور یہ معاملہ پھر باقاعدہ ریاستی اور حکومتی ہو چکا تھا ڈاکٹر صاحب نے سیٹھ عابد سے کہا کہ مجھے کچھ مال چاہیے کیا آپ منگوا سکیں گے جس پر سیٹھ عابدنے کہا کہ آپ حکم کریں پاکستان کے لئے جان بھی حاضر ہے جس پر ڈاکٹر عبدالقدیرخان نے کہا کہ مجھے فلاں فلاں چیز چاہیے اب یہ آپ کیسے لائیں گے، منگوائیں گے مجھے پریشانی ہے اس پر سیٹھ عابدنے کہا کہ آپ پریشان نہ ہوں بس یہ حکم کریں کہ کیا چیز کس وقت اور کہاں چاہئے، پہنچ جائے گی ۔

ڈاکٹرعبد القدیرخان پر ہالینڈ کی حکومت نے اہم معلومات چرانے کے الزام میں مقدمہ دائر کیا لیکن ہالینڈ، بیلجیئم، برطانیہ اور جرمنی کے پروفیسروں نے جب ان الزامات کا جائزہ لیا تو انہوں نے ڈاکٹر عبد القدیر خان کو بری کرنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ جن معلومات کو چرانے کی بنا پر مقدمہ داخل کیا گیا ہے وہ عام کتابوں میں موجود ہیں جس کے بعد ہالینڈ کی عدالت عالیہ نے ان کو باعزت بری کردیاڈاکٹرعبد القدیرخان وہ مایہ ناز سائنس دان تھے جنہوں نے آٹھ سال کے انتہائی قلیل عرصہ میں انتھک محنت و لگن کی ساتھ ایٹمی پلانٹ نصب کرکے دنیا کے نامور نوبل انعام یافتہ سائنس دانوں کو ورطہ حیرت میں ڈالدیا۔


مئی 1998 ء کو ڈاکٹرعبدالقدیرخان نے بھارتی ایٹمی تجربوں کے مقابلہ میں اس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سے ایٹمی دھماکے کرنے کی درخواست کی، بالآخر وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے دورمیں آپ نے چاغی کے مقام پر چھ کامیاب ایٹمی دھماکے کیے اس موقع پرڈاکٹر عبد القدیر خان نے پوری دنیا کو پیغام دیا کہ ہم نے پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر بنادیا ہے۔

یوں آپ پوری دنیا میں مقبول عام ہوئے۔سعودی مفتی اعظم نے ڈاکٹر عبد القدیر خان کو اسلامی دنیا کا ہیرو قرار دیا ،مغربی دنیا نے پروپیگنڈا کے طور پر پاکستانی ایٹم بم کو اسلامی بم کا نام دیا جسے ڈاکٹر عبد القدیر خان نے بخوشی قبول کر لیا۔پرویز مشرف کے دور میں پاکستان پر لگنے والے ایٹمی مواد دوسرے ممالک کو فراہم کرنے کے الزام کو ڈاکٹر عبد القدیر نے ملک کی خاطر سینے سے لگایا اور نظربند رہے۔

انہوں نے ایک سو پچاس سے زائد سائنسی تحقیقاتی مضامین بھی لکھے ہیں۔1993 میں کراچی یونیورسٹی نے ڈاکٹر عبد القدیر خان کو ڈاکٹر آف سائنس کی اعزازی سند سے نوازا۔14 اگست 1996 میں صدر پاکستان سردارفاروق احمدخان لغاری نے ان کو پاکستان کا سب سے بڑا سِول اعزاز نشانِ امتیاز دیا جبکہ 1989 میں ہلال امتیاز کا تمغا بھی ان کو عطا کیا گیا۔ڈاکٹر عبد القدیر خان نے ہالینڈ میں قیام کے دوران میں ایک مقامی لڑکی ہنی خان سے شادی کی جو اب ہنی خان کہلاتی ہیں اور جن سے ان کی دو بیٹیاں ہوئیں۔

ڈاکٹر عبد القدیر خان نے سیچٹ (sachet) کے نام سے ایک فلاحی ادارہ بنایا جو تعلیمی اور دیگر فلاحی کاموں میں سرگرم عمل ہے۔کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز نے نہ صرف ایٹم بم بنایا بلکہ پاکستان کیلئے ایک ہزار کلومیٹر دور تک مار کرنے والے غوری میزائیل سمیت چھوٹی اور درمیانی رینج تک مارکرنے والے متعدد میزائیل تیار کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ادارے نے پچیس کلو میٹر تک مارکرنے والے ملٹی بیرل راکٹ لانچرز، لیزر رینج فائنڈر، لیزر تھریٹ سینسر، ڈیجیٹل گونیو میٹر، ریموٹ کنٹرول مائن ایکسپلوڈر، ٹینک شکن گن سمیت پاک فوج کے لئے جدید دفاعی آلات کے علاوہ ٹیکسٹائل اور دیگر صنعتوں کیلئے متعدد آلات بھی بنائے۔

ڈاکٹرعبدالقدیرخان کی پاکستان کیلئے اتنی گراں قدرخدمات ہیں جنہیں احاطہ ء تحریرمیں لانے کیلئے وقت اور صفحات کم پڑجائیں۔اس وقت ملک و قوم محسن پاکستان سے محروم ہو گئی ہے،قوم یہ سمجھتی ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان بنایا لیکن ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان کورہتی دنیاتک محفوظ کردیا،ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایک کالم نویس، معلم اور قوم کا دکھ درد رکھنے والے باعمل مسلمان تھے، ان کا انتقال نہ صرف پاکستان بلکہ پوری امت مسلمہ کے لیے ایک بڑا نقصان ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :