گرے، بلیک لسٹ کی دلدل اور پاکستان

بدھ 17 مارچ 2021

Dr Nauman Rafi Rajput

ڈاکٹر نعمان رفیع راجپوت

موجودہ دنوں جہاں پوری دنیا سمیت پاکستان میں کرونا کی تباہ کاریاں جاری ہیں وہیں پاکستانی سیاسی ماحول بھی کافی گرما گرم ہے۔ ایک طرف پی ڈی ایم کے استعفوں والا معاملہ ابھی حل نہیں ہوا وہیں سینٹ الیکشن وزیراعظم عمران خان صاحب سمیت پوری حکمران جماعت اور اپوزیشن جماعتوں کی لفظی جنگ بھی جاری ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ ووٹوں کی خرید وفروخت کے بارے بھی انتہائی خطرناک اور افسوس ناک ویڈیو بھی منظر عام پر آئی ہیں۔

خان صاحب نے خفیہ رائے دہی کے خلاف جو فارمولا پیش کیا ہے وہ اچھا ہے کیونکہ عوامی لیڈر نڈر اور بے باک ہونا چاہیے۔بلاشبہ ایوانِ بالا ہے یا ایوان زیریں دونوں میں ایسے بہت سے نقائص ہیں کہ جن پر فوری مثبت قانون سازی کی اشد ضرورت ہے۔ ایوان بالا ایک مستقل ادارہ ہے مگر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں سینٹ ممبران میں اکثریت ان افراد کی ہوتی ہے جن کو ایوان زیریں کے الیکشن میں عوام مسترد کر دیتی ہے تو اس سلسلے میں ایسی قانون سازی کی جائے کہ قومی اسمبلی سے الیکشن لڑ کر ہارنے والے افراد سینٹ الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے عوام کے مسترد کئے ہوئے ارکان عوام کی قسمت کے فیصلے کرنے کا بالکل بھی حق نہیں رکھتے۔

(جاری ہے)

گزشتہ دور حکومت میں پاکستان کا نام گرے لسٹ میں شامل کیا گیا ہماری معصوم عوام کی اکثریت اس وقت تو کیا ابھی تک گرے لسٹ کا مطلب ہی نہیں سمجھتی گرے لسٹ کے مطابق ملک کے اندر جو پیسہ قرض کی صورت آتا ہے۔ اسکا حساب درست کرنے کی وارننگ ہوتی ہے کہ جو پیسہ قرض لیا ہے اسکے بارے بتایا جائے کہ وہ کہاں جا رہا ہے (آسان الفاظ میں یہ کہا جاتا ہے کہ جس مقصد یا پروجیکٹ کیلئے قرض لیا جا رہا ہے رقم اسکے بجائے یا تو دہشت گردوں پر خرچ کی جا رہی ہے یا منی لانڈرنگ کی جا رہی ہے) اور اسکی واپسی کے کتنے امکانات ہیں اور ایسی ہی بہت سی دوسری شرائط، پھر گزشتہ پارلیمنٹ کے پانچ سال پورے ہوئے نئی پارلیمنٹ بنی اور موجودہ حکومت کے آتے ہی آئی ایم ایف کیطرف سے ایک اور مصیبت آئی کہ پاکستان کو بلیک لسٹ کر دیا جائے۔

اس سلسلے میں ہمارے روایتی دشمن ہندوستان نے بھی بہت زور لگایا مگر خان صاحب کی اس یقین دہانی پر کہ وہ قرض ضرور ادا کریں گے ،پاکستان بلیک لسٹ ہونے سے بچ گیا ۔جب کوئی ملک بلیک لسٹ کر دیا جاتا ہے تو پھر اسے کوئی قرض نہیں دیتا اور پاکستان جیسے کمزور معیشت ملک کیلئے یہ صورتحال انتہائی خطرناک ہے قرض کے علاوہ ملک پر کئی طرح کی دوسری پابندیاں بھی عائد کی جاتی ہیں جن سے تجارت کا حجم سکڑ جاتا ہے۔

چند ماہ قبل پھر آئی ایم ایف کے اجلاس میں پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کی کوشش کی گئی مگر اس مرتبہ سعودی عرب نے بھی پاکستان کا ساتھ نہ دیا ۔اب سوال یہ ہے کہ گرے لسٹ سے نکلنے سے کیا ہو گا؟ جب پاکستان اس لسٹ سے نکلے گا تو قرض کی شرائط آسان ہوں گی مثلا ابھی آئی ایم ایف کی بہت سی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ ڈالر کی قیمت کسی صورت 150 سے کم نہیں ہو گی ۔

یہی وجہ ہے کہ پچھلے دو سال سے زائد عرصہ سے ڈالر 150 اور 160 روپے کے درمیان گردش کر رہا ہے۔ اسکے ساتھ آئی ایم ایف کی سب سے خطرناک شرط پاکستان کے تمام ٹیچنگ ہسپتالوں کو پرائیویٹ کرنے کی شرط ہے اگر اس پر مکمل عمل کر لیا گیا تو اس ملک کی غریب عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہو گا۔ پہلے ہی پاکستان میں ڈاکٹرز اور ہسپتالوں کی تعداد آبادی کے لحاظ سے بہت کم ہے۔

گزشتہ ماہ پاکستان کے بارے کہا گیا کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کی لگائی گئی 27 شرائط میں سے 21 پر عمل کیا۔ زرداری حکومت کے 5 سال پورے کرنے پر کہا جاتا رہا کہ زرداری نے ملکی تاریخ کا سب سے بڑا قرض لیا ہے۔ 1947 سے لے کر 2013 تک قرض 17 ہزار ارب ڈالر سے زائد ہو چکا تھا، مگر گزشتہ دور حکومت کے خاتمے پر قرض بڑھ کر 29 ہزار ارب ڈالر سے زائد تک جا پہنچا یعنی مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے 12 ہزار ارب ڈالر سے زائد قرض میں اضافہ کیا۔

جبکہ اس وقت ڈالر کی قیمت 104 روپے مقرر تھی۔ اب جیسے جیسے ڈالر کی قدر میں اضافہ ہو گا ویسے ہی قرض میں اضافہ ہوگا۔ بے شک پاکستان اور قرض نہ لے۔ اس سلسلے میں بھی پارلیمنٹ میں قانون سازی کی اشد ضرورت ہے کہ کوئی بھی حکومت ہو اگر وہ باہر سے قرض لینا چاہتی ہے تو اس کے لیے باقاعدہ پارلیمنٹ کو آ گاہ کیا جائے کہ حکومت کس مقصد کے لیے قرض لینا چاہتی ہے۔

پارلیمنٹ میں باقاعدہ بحث و تمحیص کے بعد اگر پارلیمنٹ اجازت دے گی تو ہی قرض لیا جائے گا کیونکہ عوامی نمائندے وہاں اسی مقصد کے لیے موجود ہیں کہ وہ عوامی اور ملکی مفاد میں قانون سازی کر سکیں۔ اسی طرح قرض کی واپسی کے سلسلے میں بھی باقاعدگی سے پارلیمنٹ کو آ گاہ کیا جائے گا کہ کتنا قرض واپس کیا گیا ہے۔ اسی طرح ہر حکومت کوئی نہ کوئی منصوبہ شروع کرتی ہے تو اس حکومت کو باقاعدہ ایک نظام بنانا چاہیے تاکہ کوئی بھی منصوبہ جیسے اورینج لائن ٹرین ،پل ،سڑک یا ڈیم ادھورا نہ رہے۔

بعض منصوبے ایسے ہوتے ہیں جو پانچ سال میں مکمل نہیں ہو سکتے اور بعد میں آنے والی حکومت اس منصوبے پر یہ کہہ کر توجہ نہیں دیتی کہ یہ پچھلی حکومت کا منصوبہ ہے ہم کوئی نیا کام شروع کریں گے، حکومت تو بدلتی رہتی ہے۔ آج ایک ہے تو کل دوسرا ہو گا مگر ہر منصوبے پر پیسہ حکمران کے بجائے پاکستان کا خرچ ہو رہا ہوتا ہے اور کام ادھورا چھوڑنے پر وسائل کا ضیاں اور نقصان پاکستان کا ہوتا ہے اسکے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ میں یہ قانون سازی بھی کی جائے کہ وزیراعظم کا کوئی بھی مشیر وغیرہ پارلیمنٹ سے باہر کا فرد نہیں ہو گا اس کے 2 فوائد ہیں 1-عوامی نمائندے ہمیشہ کام عوام کی منشاء اور مرضی کے مطابق ہی کریں گے 2-جب مشیر پارلیمنٹ کے ممبر ہوں گے تو بچت پالیسی پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ جب کوئی پارلیمنٹ کا ممبر ایک مشیر کی تنخواہ اور سہولیات وصول کرے گا تو وہ پارلیمنٹ کے ممبر کی تنخواہ سے دستبردار ہو گا۔

ایک مشہور کہاوت ہے کہ قطرہ قطرہ تالاب بھر جاتا ہے اور قطرہ قطرہ خالی بھی ہو سکتا ہے۔ خان صاحب نے جو 52 سے زائد مشیر رکھے ہوئے ہیں اگر یہ پارلیمنٹ کے ممبر ہوں تو ہر مہینے کئی کروڑ کی بچت ہو سکتی ہے۔
اہل منصب ہیں غلط کار تو انکے منصب
تیری تائید سے ڈھالے گئے،تو مجرم ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :