سی پیک سے جڑی نیپال کی خود مختاری

ہفتہ 5 ستمبر 2020

Dr Shahid Siddique

ڈاکٹر شاہد صدیق

نیپال ہندوستان کا وہ ہمسایہ ہے جو ہر طرف سے زمینی سرحدوں میں گھرا ہوا ہے ۔ ایسے ممالک جن کے ساتھ کوئی سمندری علاقہ نہیں لگتا اور تمام سرحدیں دوسرے ممالک کی زمینوں سے جڑی ہوتی ہیں ۔ انہیں " ہم لینڈ لاک ممالک " کہتے ہیں ۔ لینڈ لاک ہونے کی وجہ سے  نیپال کو تجارتی راستے کی ضرورت تھی یوں بھارت اور نیپال کے درمیان 1950ء میں انڈو نیپالی امن اور دوستی معاہدے کے نام سے تعلقات کا آغاز ہوا ۔

اس معاہدے میں کچھ خفیہ تحریری معاہدے بھی تھے جن کا تعلق دونوں ممالک کی حفاظت سے  تھا اور دوسرا معاہدہ ہندوستانی علاقوں سے دوطرفہ تجارت سے متعلق تھا ۔ بھارتی نیپالی شہریت بھی آپس میں ایک ہی متصور کی گئی ۔ مگر نیپال بھارت کے طفیلیے کی طرح اپنی آزادی اور خارجی خود مختاری کے لئے بھارتی خوشنودی کا غلام تھا ۔

(جاری ہے)

سی پیک نے نیپال کو بھی ایک حوصلہ دیا ہے کہ گوادر اسے وہ تجارتی رستہ فراہم کرے گا جو اسے بھارتی  تسلط  سے نجات دلائے گا اور وہ دانہ پانی بند کر دیے جانے کی دھمکیوں کا جواب دے سکے گا ۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ دونوں ملکوں کے رشتوں میں تلخی اسی وقت شروع ہوگئی تھی جب 2015 میں نیپال نے اپنا نیا آئین منظور کیا اور اس کے خلاف بھارتی نژاد مدھیشوں نے مظاہرے شروع کرکے بھارت سے نیپال جانے والی سڑک بلاک کر دی۔ اس سڑک کی بندش کے باعث نیپال کوکئی مہینوں تک اقتصادی پریشانیوں کا سامنا رہا۔ کٹھمنڈو نے اس صورت حال کے لیے بھارت کو مورد الزام ٹھہرایا تھا۔


 سن 1816 میں نیپال اور اس وقت کی برطانوی حکومت کے درمیان ایک معاہدے کے تحت دریائے مہا کالی کو سرحد بنایا گیا تھا۔ یہ دریا کالاپانی کے علاقے سے گزرتا ہے۔ مہاکالی دریا میں کئی معاون دریا بھی شامل ہوتے ہیں۔ بھارتی موقف ہے کہ کئی دریاؤں کے ملنے سے دریا مہا کالی ،کالاپانی میں جنم لیتا ہے جبکہ نیپال کے مطابق یہ دریا درہ لپو لیکھ سے شروع ہوتا ہے کیونکہ زیادہ تر معاون دریا اس کو اسی درے میں تشکیل دیتے ہیں ۔

کالا پانی کا علاقہ دونوں  ممالک میں متنازعہ ہے ۔ اس علاقہ میں بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے ہندوؤں کے لیے انتہائی مقدس چین میں واقع کیلاش مانسرور پہاڑ تک جانے کے لیے ریاست اتراکھنڈ میں ایک سڑک کا افتتاح کیا تو نیپال کی ناراضگی مزید بڑھ گئی۔ نیپال کا موقف ہے کہ کالاپانی، لیپو لیکھ اور لمپیا دھورا کے جس راستے سے یہ سڑک گزرتی ہے وہ علاقے نیپال کے ہیں۔

نیپال کی حکومت نے پارلیمنٹ میں آناً فاناً ملک کا نیا نقشہ پیش کردیا جس میں ان علاقوں کو نیپال کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ نیپال میں قوم پرستی کی فضا میں تمام سیاسی جماعتوں نے اس کی مکمل حمایت کی اور نیپالی صدر کے دستخط کے بعد اب یہ نقشہ باضابطہ طور پر منظور کیا جا چکا ہے ۔ نیپالی پارلیمان نے شہریت قانون میں ترمیم کی بھی منظوری دے دی۔ نئی ترمیم کے بعد نیپالی مردوں سے شادی کرنے والی ’غیر نیپالی‘ خواتین کو سات برس تک شہریت نہیں ملے گی۔

اب تک کے قانون کے مطابق شادی کے فوراً بعد ہی انہیں نیپال کی شہریت حاصل ہوجاتی تھی۔ نئے قانون کے اطلاق سے ان کے لیے کئی سماجی اور اقتصادی مسائل بھی پیدا ہوں گے۔ ترمیم شدہ شہریت قانون کی رو سے اب نیپال کی شہریت حاصل کرنے والے غیر نیپالی افراد اعلیٰ حکومتی عہدوں پر فائز نہیں ہو سکیں گے۔ ان میں صدر، وزیر اعظم، گورنر، وزیر اعلی،اسپیکر، مسلح افواج کے سربراہ اور انٹلی جنس ایجنسیوں کے سربراہ کے عہدے شامل ہیں۔

اس پہ نیپال میں بھارت کے سابق سفیر رنجیت رائے کا کہنا ہے کہ شہریت ترمیمی قانون بھارت اور نیپال کے درمیان بیٹی اورروٹی کے رشتے میں آخری کیل ثابت ہوسکتا ہے۔  نیپال کے اس سیاسی نقشہ میں بعض ایسے علاقوں کو نیپال کاحصہ دکھایا گیا جسے بھارت اپنا قرار دیتا ہے۔ اس کے بعد دونوں ملکوں کی سرحد پر فائرنگ کے ایک واقعہ میں ایک بھارتی شہری کی موت بھی واقع ہوچکی ہے ۔


بھارت سے نیپال کی ناراضگی بڑھتی جارہی ہے۔ تازہ کشیدگی کی وجہ بھارتی صوبے بہار میں سیلاب کے خدشے کے پیش نظرمرمتی کام سے متعلق ہے، جس کے لیے کٹھمنڈو نے اجازت دینے سے انکار کردیا ہے۔ نیپال کی سرحد سے ملحق بہار کے مشرقی چمپارن ضلع میں لال باکیا ندی پر کئی برس پہلے گنڈک ڈیم تعمیر کرایا گیا تھا جس کا مقصد بہار کو سیلابوں سے بچانا تھا اور اس کی تقریباً ہرسال مرمت کی ضرورت ہوتی ہے۔

اس بار بھی جب بھارتی حکام پشتے کی مرمت کے لیے گئے تو نیپالی حکام نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا اور کہا کہ اس پشتے سے پانچ سو میٹر تک کا علاقہ نیپال کا ہے ۔
نیپال، افغانستان کے وزرائے خارجہ اور پاکستان کے وزیر معاشی ترقی کیساتھ 27 جولائی کی ویڈیو کانفرنس میں چینی وزیر خارجہ وانگ ژی نے عالمی وبا کے خلاف تعاون کو فروغ دینے کیلئے “گرین کوریڈور ”کے قیام کی تجویز پیش کی۔

انہوں نے ٹرانس ہمالیہ راہداری کی تعمیر اور سی پیک کو افغانستان تک توسیع دینے پر بھی زور دیا۔ ٹرانس ہمالیہ راہداری نیپال کو تبت اور سنکیانگ کے راستے گوادر سے ملائے گی، جس سے نیپال پر بھارت کی تاریخی گرفت کمزور ہو جائے گی۔ نیپالی وزیر اعظم کا خیال ہے کہ سی پیک سے جڑی نیپال کی خود مختاری ہی اس کے مستقبل کی ضمانت ہے-

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :