عشق کے فیصلے

جمعہ 9 جولائی 2021

Engineer Muhammad Abrar

انجینئر محمد ابرار

رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں ادنی سی بھی گستاخی کفر تک پہنچانے کے لئے کافی ہے. رسول اللہ کو اللہ نے تمام کمالات اور علوم سے نوازا ہے. آپ کی ذات افضل و اعلی ہے اور یہ وہ ذات ہے کہ جس کے بارے میں امام احمد رضا خاں فرماتے ہیں
"یہی پھول خار سے دور ہے
یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں"
یعنی رسول اللہ کی ذات مشعل راہ ہے اور دنیاوی شمع کا دھواں بھی ہوتا ہے مگر آپ کی ذات کے ساتھ کسی دھواں کا بھی تصور محال ہے.

ہر پھول کے ساتھ کانٹا ہوتا ہے اور آپ کی ذات ایسا پھول ہے کہ کانٹے کا نام و نشان نہیں. رحمت للعالمین ہیں سارے عالم کے لئے. رسول اللہ نے ہر اک شخص پر رحم فرمایا سوائے اس شخص کے جس  نے شانِ اقدس میں گستاخی کی. یہ سبق سکھایا امت کو کہ ہر گناہ معاف اور درگزر کیا جا سکتا ہے مگر میری شان میں گستاخی ہرگز معاف نہیں کی جا سکتی. ایک نابینا صحابی نے جب ایک گستاخ رسول کو قتل کیا تو آپ نے کمال خوشی و مسرت کا اظہار فرمایا.

دور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے   لے کر آج تک جتنے بھی گستاخ رسول و منکرین ختم نبوت تھے مسلمانوں نے مردانہ وار انکا مقابلہ کیا اور وہ جہنم واصل ہوئے. حضرت ابوبکر صدیق نے جنگ یمامہ میں جا کر امت مسلمہ کو سبق دیا کہ ختم نبوت اور ناموس رسالت پر بال برابر بھی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا. تقریباً بارہ سو صحابہ اکرام علیہم الرضوان شہید ہوئے جن میں سے اکثر حفاظ و قاری تھے.

ہندوستان میں راجپال کھتری نے رسول پاک کی شان میں مغلظات سے بھرپور کتاب لکھی. اس کتاب کے ضمن میں غازی علم الدین شہید نے اسے واصل جہنم کر دیا اور انگریز سرکار نے تحتہ دار پر چڑھا دیا. راجپال کا نام لیوا کوئی نہیں جبکہ علم الدین کو رہتی دنیا تک عاشق رسول کے نام سے پکارا جائے گا. وقت کے گورنر سلمان تاثیر کو جہنم واصل کرنے والے مرد مجاہد غازی ممتاذ قادری کے جنازے میں شریک ساٹھ لاکھ افراد نے پورے عالم کفر کو بتا دیا کہ عاشق رسول کا جنازہ اس طرح کا ہوتا ہے کہ تل دھرنے کی جگہ نہ مل سکے.  امیر المجاہدین امام العاشقین فنافی الخاتم النبیین  شیخ الحدیث والتفسیر امام الصرف و نحو حضرت علامہ حافظ خادم حسین رضوی رحمتہ اللہ علیہ وہ ہستی ہیں جنہوں نے آج کے پُر فتن دور میں بھی نوجوانوں کے اندر  تحفظ ناموس رسالت و ختم نبوت کی وہ روح پھونکی کہ چھوٹے چھوٹے بچے بھی لبیک یا رسول اللہ کی صدائیں بلند کرتے میدان عمل میں نظر آتے ہیں.

فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کا معاملہ ہو یا ہالیند میں گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ ہو یا ملکی سطح پر ختم نبوت قانون بھی ترمیم یا زندگی تماشہ نامی بدنام زمانہ فلم کی روک تھام. تحریک لبیک پاکستان ہر جگہ میدان عمل میں اسلام اور شعائر اسلام کی حفاظت کرتی نظر آتی یے. علامہ خادم رضوی صاحب فرماتے تھے کہ عشق اپنے فیصلے کرنے میں خود بڑا دلیر ہے جس کا مظاہرہ لوگوں نے توہین رسالت کے الزام میں عدالت سے بری ہونے والے مجرم کو پولیس اہلکار کے ہاتھوں  ہی قتل ہوتے دیکھا.صوبہ پنجاب کے شہر صادق آباد میں پولیس اہلکار نے حال ہی میں توہینِ رسالت کے الزام میں لگ بھگ تین سال بعد جیل سے رہا ہونے والے شخص کو ٹوکے کا وار کر کے قتل کر دیا ہے۔

(جاری ہے)

یہ پولیس اہلکار حال ہی میں پولیس میں بھرتی ہوا تھا اور کانسٹیبل بننے کے لیے زیرِ تربیت تھا۔ گستاخ محمد وقاص نامی شخص کو قتل کرنے کے بعد اس پولیس اہلکار نے کمال جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود کو پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔ گستاخ مجرم سوشل میڈیا پر گستاخانہ خاکے اور توہین امیز مواد اپلوڈ کرتا تھا.پولیس نے اسے گرفتار کر لیا گیا تھا۔ سنہ 2017 میں صادق آباد کی ایک عدالت نے انھیں سزا سناتے ہوئے جیل بھیج دیا تھا۔اس نے ماتحت عدالت کے اس فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کر رکھا تھا۔ حال ہی میں ہائی کورٹ نے انھیں توہینِ رسالت کے الزام سے بری کر دیا اور وہ جیل سے رہا ہو گیا.

پولیس کے مطابق جیل سے رہا ہونے کے بعد محمد وقاص اپنے گھر لوٹنے سے پہلے کچھ عرصہ کہیں اور قیام کیا. گستاخ محمد وقاص اور اسے واصل جہنم کرنے والے پولیس اہلکار عبدالقادر دونوں کا تعلق صادق آباد کے ایک ہی علاقے اور برادری سے تعلق ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک ہی علاقہ اور برادری سے تعلق رکھنے والے دونوں افراد میں یہ معاملہ پیش کیوں آیا؟ اسکا جواب یہ ہے کہ ساری بات عشق نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر آ کر ختم ہوجاتی ہے.

کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ والدین اولاد اور پوری دنیا سے بڑھ کر رسول اللہ سے عشق نہ کر لے. عشق اپنے فیصلے کرنے میں خود بڑا دلیر ہے اور یہ رسم شبیری ہر کوئی ادا کرتا رہے گا. حکومت وقت 295c کو فعال کرے اور اس کے تحت گرفتار شدگان کو قرار واقعی سزا دے جائے تا کہ قانون کو ہاتھ میں لینے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے اور گستاخان رسول ملکی قانون کے تحت سزا پائیں.

مگر افسوس صد افسوس حکومت اس معاملہ میں سنجیدہ نظر نہیں آتی . گستاخی پر بھروقت ایکشن نہیں لیا جاتا اور جب کوئی مسلمان غیرت ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گستاخ کو واصل جہنم کر دے تو پھر غازی ممتاز قادری کی طرح اس اسلام کے ہیرو کو شہید کر دیا جاتا ہے. حکومت کو چاہئیے کہ اپنے توانائیاں مسلمان ہیروز کو شہید کرنے کی بجائے گستاخان کا خاتمہ کرنے میں لگائے تا کہ بروز قیامت رسول اللہ کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :